قدر ت خدا کی حدود سے فرار ممکن نہیں :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
گزشتہ آیات مین مومنین کے عام امتحان کاذکر تھا . زیر نظر پہلی آیت میں کفا ر اور گنا ہ گاروں کو شدید تہدید کی گئی ہے تاکہ وہ یہ گمان نہ کر یں کہ اگر انھوں نے مومنین پر ظلم وتعدی کی اور خدا کا عذاب ان پر فورا نازل نہیں ہوا ، توخدا ان سے غافل ہے یااس میں ان پر عذاب نازل کرنے کی طاقت نہیں ہے . چنانچہ خدافرماتاہے : وہ لوگ جوگنا ہ ہون کے مرتکب ہوتے ہیں کیاان کا یہ گمان ہے کہ وہ ہم پر سبقت لے جائیں گے اورہماری سز اکی گرفت سے بچ نکلین گے ؟ ان کا خیال کتنا براہے : (ام حسب الذین یعملوم السیٴات ان یسبقون ساء مایحکمون ) ۔
خدا کی طرف سے دی ہوئی مہلت ان کو مغرور نہ کردے . کیونکہ یہ بھی ان کے لیے ایک آز مائش ہے اور انھیں توبہ اور باز گشت کی مہلت دی گئی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کامصداق گنہگا ر مومنین کوسمجھا ہے . ان کا یہ خیال کسی طرح سے بھی سیاق آیت سے مناسبت نہیں رکھتاہے . بلکہ قرینہ اس امر کاشاہد ہے کہ اس آیت کامصداق مشرکین اور کفار ہیں ۔
اش کے بعد قرآن میں بار دیگر مومنین کے دستور العمل اوران کے لیے نصیحت کا ذکر ہے یعنی” جو شخص بھی لقاء الہٰی کی امید رکھتاہے اسے چاہیئے کہ اس سے جہاتک بھی ممکن ہواس کی اطاعت اورفرمان برداری سے سرتابی نہ کرے .کیونکہ خدانے جو وقت مقرر کیا ہے وہ ضرور آکررہے گا : ( من کان یرجوا لقاء اللہ فان اجل اللہ الات ) (۱)۔
البتہ خداکا یہ وعدہ حتمی ہے اوراس راہ پرضرور چلنا پڑے گا . علاوہ بریں خدا تمھاری باتوں کوسنتا ہے اور وہ تمہارے اعمالاور نیات سے آگا ہ ہے کیونکہ وہ ” سننے والااور جاننے ولا ہے “ ( وھو السمیع العلیم ) ۔
” لقاء اللہ “ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں آراء مختلف ہیں . بعض مفسرین نے ” ملائکہ مقربین “ سے ملا قات مراد لی ہے ، کہاہے کہ یہ کنا یہ ہے قیامت کے لیے ۔
جبکہ اس آیت کے یہ مجازی معنٰی لینے کے لیے کوئی دلیل موجو دنہیں ہے .کہنا یہ چاہیئے کہ آیت بالا میں بروز قیامت ” لقائے پروردگار “ سے مراد ”ملاقات حسی “نہیں ہے بلکہ لقائے روحانی اور ایک قسم کاشہود باطنی ہے . کیونکہ اس روز انسان کی آنکھوں سے ماد یات سے ضخیم پردے اٹھ جائیں گے اور انسان جلوہ ہائے شہود کودیکھے گا . نیز جیساکہ کہ علامہ طباطبائی نے ” المیزان “ مین لکھاہے :
” لقاء اللہ“ کامفہوم یہ ہے کہ بندگان خدا بروز قیامت ایک ایسی کیفیت میں ہوں گے کہ ان کے . اور . خداکے درمیان جوحجابات حائل ہیں وہ اٹھ جائیںگے . کیونکہ روز قیامت کامزاج یہ ہوگا کہ اس روز ان حقائق کا ظہور ہوگا جوعالم مادی میں انسان کی نظر وں سے پہناں رہتے ہیں . چنانچہ خدا فرماتاہے :
و یعلمون ان اللہ ھوا لحق المبین
اس روز انسان جان لیں گے کہ خدا ” حق ِ آشکار “ ہے (۲) ۔( سورہ نور آیة ۲۵ ) ۔
اگلی آیت اس مضمون کی تعلیل ہے جو گزشتہ آیت میں گزرچکاہے .یہ جو کہاگیا ہے کہ : ۔” مومنین لقاء الہٰی کے لیے جو کچھ ان کی قدرت میں ہے اس سے فرو گزار نہ کریں“ و ہ اس لیے ہے تاکہ ہر شخص زندگی میں جہاد کرے اور سعی و کوشش کرے اور مصائب و مشکلات کو برداشت کرے . درحقیقت انسان کا یہ جہاد اس کی تہذیب نفس ہی کہ لیے ہے . کیونکہ خدا توجملہ اہل جہان سے بے نیاز ہے : ( ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ ان اللہ لغنی عن العالمین ) ۔
انسان کے لیے خداکی آزمائش کا یہ پرگرام کہ وہ ہوائے نفس کے خلاف جہاد کرے ، اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے دشمنوں سے جنگ کرے . اور تقویٰ اورپاکیز گی اختیار کرے ، درحقیقت یہ سب کچھ انسان ہی کے فائدہ کے لیے ہے ۔
وگرنہ” خدا“ تو ہر حیثیت سے ایک وجود لامتناہی ہے .اس کی کوئی احتیاج بھی نہیں ہے . جو اس کے بندوں کی عبادت یااطاعت سے پوری ہوجائے .اس میں کسی قسم کانقص یاکمی نہیں ہے جسے دوسرے پورا کردیں . بلکہ ماسوا ء اللہ کے پاس کوئی چیز بھی اپنی ذاتی نہیں ہے ۔
اس بیان سے یہ واضح ہے کہ اس آیت میں کلمہ ٴ جہاد سے مراد دشمنان اسلا م کے خلاف مسلح جہاد نہیں ہے .بلکہ یہ کلمہ اس مقام پراپنے لغوی اور وضعی معنٰی میں استعمال ہواہے . جس کا مفہوم ہے حفظ ایمان اورتقویٰ کے لیے پرقسم کی کوشش اور جدو جہد .اور ہر طرح کی سختی کو برداشت کرنا . نیز اس کلمہ کے مفہوم میں کینہ پرور اورجنگ پسند دشمن سے دفاع بھی شامل ہے ۔
خلاصہ ٴ کلام یہ ہے کہ اس ”جہاد “ کے تمام منافع مجاہد کی ذات کو پہنچتے ہیں اور وہی اس جہاد کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرتاہے . اگر اس کے ایسے ”جہاد “ سے معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے تو وہ اس کے اثرات مابعد ہو ں گے بنا پریں ” جس کسی کو اس قسم “ کے جہاد کی توفیق عطاہو اسے لازم ہے کہ وہ اس نعمت عظیم کے لیے خداکاشکر ادا کرے ۔
ّآیات زیربحث میں سے آخری آیت اس مضمون کی توضیح وتکمیل ہے جو آیت ماقبل میںعنوان جہاد کے تحت سربستہ طورپر بیان کیاگیاتھا . اس آیت میں حقیقت جہاد کوواضح کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ :
جو لوگ ایمان لائے ہیں اوراعمال صالح انجام دیتے ہیںہم ان کے گناہوں کوچھپاتے : ( والذین امنواوعملو ا الصالحات لنکفرن عنھم سیاء تھم ) بنا بریں ،اس جہاد عظیم ( ایمان وعمل صالح ) کابڑا فائدہ یہ ہے کہ خدا ان کے گناہوں کو چھپالیتاہے اور یہ فائدہ انسان ہی کو پہنچتا ہے . اسی طرح جیسے اعمال خیرکا ثواب انھیں پہنچتا ہے .چنانچہ اس آیت کے آخر میں مذکورہ ہے :
ہم انھیں ان کے ان اعمال صالح کی جو انھوں نے انجام دیئے ،بہترین جزادیتے ہیں :( ولنجزینھم احسن الذین کانوا یعملون ) ۔
”نکفر“کامصدر ” تکفیر “ہے . اس کے وضعی معنٰی ہیں ” چھپانا “ اس مقام پر ” گناہوں کو چھپانا “ سے مراد ” عفود بخشش الہٰی “ ہے ۔
”احسن الذین کانو ایعلمون “ کی تعبیر یہ ہے کہ خداجملہ اعمال کی جزا دے گا خواہ وہ ” حسن “ ہوں یا ” احسن “ ممکن ہے اس قول کا اشارہ یہ ہو کہ ہم ان کے اعمال نیک ترین اور بہترین اعمال میں شمار کریں گے بعض اگرمومنین کے بعض اعمال عالی . بعضے خوب یامتوسط بھی ہوں تو ہم ان سب کو عالی ہی شمار کریں گے . در حقیقت یہ تفضل الہٰی ہے ،جس کی طرف قرآن دوسری آیات میں بھی ( مثلا : سورہ نور کی آیت ۳۸ میں ) اشارہ ہوا ہے :
لیجزیھم اللہ احسنماعملوا ویز یدھم من فضلہ
خدا ان کے بہترین اعمال کی جزادیتاہے اورپنے فضل سے اس پر اضا فہ کرتاہے ۔
1۔اس میں ایک فقرہ محذوف ہے . تقدیر میں اس طرح ہے :
من کان یرجوا لقاء اللہ فلیبادر بالطاعةقبل ان یلحقہ الاجل . یا من کان یرجوا القاء اللہ ویقول امنت باللہ فلیقلہ مستقیما صابرا علیہ ... فان اجل اللہ لات ۔
۲ ۔” لقاء اللہ “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے ، جلد اول ذیل آیت ۴۶ سورہ بقرہ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma