گریز ازحق کے لے نو بہ نو بہانے :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


گزشتہ آیات میں پیغمبرکے بھیجنے کامقصدڈرانااورخوف دلانا بیان ہواتھا . زیر نظر آیات میں سے پہلی میں خداکے اس لطف و کرم کاذکر ہے جو کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے کی صورت میں ظہور میں آتاہے . چنانچہ فرمایاگیا ہے : پیغمبرکومبعوث کرنے سے پہلے ہم انہیں ان کے اعمال پر سز ا دیتے توو ہ کہتے کہ خدا تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور مومنین میں سے ہوجاتے . اگر یہ وجہ نہ ہوتی توان کے اعمال اورکفر کی وجہ سے کسی پیغمبرکے بھیجنے کی ضرورت بھی نہ تھی : ( ولو لا ان تصیبھم مصیبة بما قدمت ایدھم فیقولوا ربنا لولا ارسلت الینا رسولا فنتبع ا یاتک و نکون من الموٴ منین ) (۱)۔
اس آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ راہ حق روشن ہے اور ہر عقل شرک اوربت پرستی کے باطل ہونے کاحکم لگاتی ہے اورا ن کے بہت سے اعمال مثلا ظلم اور ناانصافیاں ایسے ہیں جنہیں عقل قابل نفرت سمجھتی ہے .اور ایسے قبیح ہیں کہ بدون ارسال پیغمبرہی مستحق سزا ہیں ۔
لیکن ا س کے باوجود کہ ان کی نداعمالیوں کے بارے میں حکم عقل واضح اورروشن ہے ،خدا ان کے ہر عذر کی نفی اوراتمام حجّت کے لےے ،ان کی طرف پیغمبر وں کو آسمانی کتابیں اورمعجزات کے ساتھ بھیجتا ہے تاکہ ان میں سے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہماری بد بختی تو کسی رہنما کے نہ ہونے سے تھی اگر ہمارے لیے خداکی طرف سے کوئی رہبرہوتاتو ہم نجات یافتہ اور راہ ہدایت پر ہوتے ۔
بہر حال یہ آیت ،ان آیات میں سے ہے جو ” پیغمبرکو بھیجنے کی صورت میں “ خداکے لطف کے ضروری ہونے کو بیان کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے خداکسی کو اس قوم کواس کی طرف پیغمبربھیجنے سے پہلے اس کے گنا ہوں کے سزا نہیں دیت. جیساکہ سورہ نساء کی آیت ایک سو پینسٹھ میں مذکور ہے :
رسلامبشرین ومنذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجة بعد الرسل وکان اللہ عزیزا حکیما
ہم نے وہ پیغمبربھیجے جوبشارت دینے اورڈرانے والے تھے تاکہ تاکہ ان پیغمبروں کے بعد لوگوں کے لیے کوئی حجّت باقی نہ رہے اوراللہ توانا اورحکیم ہے ۔
اس کے بعد قرآن میں ان کافراقوام کی بہانہ تراشیوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ ” ہماری طرف سے پیغمبربھیجے جانے کے بعد بھی انہوں نے بہانہ سازی کونہ چھوڑا . اوراپنی قدیم منحرف راہوں پرچلتے رہے . چنانچہ خدافرماتاہے : جس وقت ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا توا نھوں نے کہاکہ اس پیغمبرکو ویسے ہی معجزات کیوں نہیں دئے گئے جیسے کہ موسٰی کودیئے گئے تھے : ( فلما جاء ھم الحق من عند ناقالو ا لولا اوتی مثل مااوتی موسی ) ۔
اس کے ہاتھ میں عصائے موسٰی کیوں نہیں ہے ؟ وہ ید بیضاکیوں نہیں رکھتا؟ اس کے لیے دریا کیوں نہیں پھٹ جاتا ؟ اس کے دشمن غرق کیوں نہیں ہوجاتے ؟ ایساکیوں نہیں ہوتا؟ ویساکیوں نہیں ہوتا ؟یہ ہیں اعتراضات ان کفّار کے ۔
قرآن مجید میں ان بہانہ تراشیوں کا اس طرح جواب دیاگیاہے ۔
کیاگز شتہ بہانہ جولوگوں نے ان معجزات کاجوموسٰی کودیئے گئے تھے اسی طرح انکار نہیں کیا تھا : (اولم یکفر وابما اوتی موسٰی من قبل ) ۔
کیا اس عہد کے کفّار نے یہ نہیں کہاتھا کہ : یہ دونوں (موسٰی وہاورں ) ساحرہیں . ان دونوں نے باہم مشارکت کرلی ہے (تاکہ ہم کو گمراہ کریں ) ہم ان دونوں کاانکار کرتے ہیں :(قالو اسحران وقالو اانا بکل کافرون ) ۔
اس مقام پرکلمہ ” سحران “ استعمال ہواہے . حسب قاعدہ ساحران ہوناچاہیئے تھا .کلمہ سحران شدّت تاکید کے لیے ہے کیونکہ عربوں کی یہ فطرت تھی کہ جب وہ کوئی بات زوردے کرکہنا چاہیتے تھے تو وہ صفت کوعین ذات قرار دے دیتے تھے .مثلا عادل شخص کو ” عین عدالت “ ظالم کو ” عین ظلم “ ساحرکو ” عین سحر “ وغیرہ ۔
اس مقام پراس احتمام کی بھی گنجائش ہے کہ ” کلمہ “ سحران سے مراد حضرت موسٰی (علیه السلام) کے دوبڑے معجزے ’ ’ عصااو ر ید بیضا “ ہوں ۔
اگراس مقام پر تردید ا یہ کہاجائے کہ کفّار مصر کے انکار کاکفّار مکہ کے انکار سے کیا ربط ہے ؟ تواس کاجواب واضح ہے .اور وہ یہ کہ اہل کفرکی بہانہ جوئی کوئی تازہ بات نہیں ہے . تمام اہل کفرکا مزاج یکساں ہوتاہے اوران کے اعتراضات بھی ایک دوسرے کے مشابہہ ہوتے ہیں اوران کے کافرانہ منصوبہ بھی یکساں ہوتے ہیں ۔
آیت مافوق کی جو تفسیر ہم نے بیان کی وہ تو شبہ سے پاک ہے .مگر کچھ مفسرین نے اس آیت کی کسی اور طرح سے بھی تعبیر کی ہے . انھوں نے کہاہے کہ ” سحران تظاھران “ سے مراددو پیغمبرحضرت موسٰی (علیه السلام) اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ مشرکین عرب یہ کہتے تھے ک یہ دونوں ساحرتھے اورہم دونوں کاانکار کرتے ہیں ۔
ان مفسرین نے اپنے قول کی تائید میں ایک تاریخ واقعہ بھی نقل کیاہے کہ :
اہل مکّہ نے چند لوگوں کوعلما ئے یہود کے پاس ایسے وقت بھیجا کہ وہ ان کی عید کا دن تھا . ان لوگوں نے علمائے یہود سے سوال کیاکہ کیا واقعامحمد پیغمبرخدا ہے ۔
ان علما نے جواب دیاکہ ہم نے تو ریت میں ان کا نام ان کی صفات کے ساتھ پڑھاہے ۔
ان نمایندوں نے واپس آکر مشرکین مکّہ کوتمام کہہ سنای.اس وقت کفّار مکّہ نے ” سحران تظاھران ... وانا بکل کا فرون “ کہا (یہ دونوں ساحر تھے اور ہم دونوں کا انکار کرتے ہیں ) (۲)۔
لیکن دو نکتوں پر غور کرنے سے یہ تفسیر حقیقت سے بعد معلوم ہوتی ہے ۔
او ل یہ کہ :
روایات اور تاریخ سے یہ بات بہت کم ہے کہ مشرکین عرب نے حضرت موسٰی (علیه السلام) پر ساحری کااتہام لگایا ہو اور شاید یہیں اس قسم کااحتمال ظاہر کیاگیاہے ۔
دوسرے یہ کہ :
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ جانتے ہو ئے بھی کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی بعثت کے درمیان قریبا دوہزار سال کافاصلہ ہے ، یہ ادّعاکرے کہ یہ دونوں جادوگرتھے اورانہوں نے ایک دوسرے سے سازش کررکھی تھی .نیز کیایہ ممکن ہے کہ کوئی جادو گرو ہزاروں سال قبل یہ جان لے کہ آئیند ہ کیسا آدمی پیدا ہوگا اور وہ کیا دعویٰ کرے گا ۔
بہر حال مفسدطبع مشرکین مکّہ کواس امر پر اصرار تھا کہ پیغمبر اسلام کے پاس حضرت موسٰی (علیه السلام) جیسے معجزات کیوں نہیں ہیں . نیز نہ تو وہ اس شہادت اور ان علامات کی طرف اعتناکرتے تھے جو توریت میں پیغمبر اسلام کے متعلق موجود تھی اور نہ وہ قرآن اوراس کی پرعظمت آیات ہی پرایمان لاتے تھے . لہذا قرآن میں جنا ب سالتمآب سے یہ کہاگیا ہے (اے پیغمبر ) ان سے کہہ کہ اگر تم سچ مچ یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ یہ د و نوں کتابیں خداکی طرف سے نہیں ہیں تواس کتاب سے زیادہ نوانی اور ہدایت بخش کوئی اور کتاب خداکی طرف سے لے آؤ تاکہ میں اس کی پیروی کروں ( قل فاٴ تو ا بکتاب من عنداللہ ھدا ھدی منھما اتبعہ ان کنتم صادقین ) ۔
لیکن و ہ کفار مکہ حق طلب نہ تھے بلکہ صرف بنانہ جو تھے .اس لیے وہ کسی اورعجیب کتاب ھدایت کے طلب گار اور پیغمبر کے دارائے معجزات ہونے پرمُصرتھے اوراس حقیقت سے غافل تھے کہ قرآن سے بڑا معجزہ اوراس سے بہتر کتاب ہدایت اورکونسی ہوسکتی تھی . اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قرآن کے سوااور کچھ بھی نہ ہوتاتو یہی ان کی حقانیت رسالت کے لیے کافی تھا ۔
اس کے بعد ان الفاظ کااضافہ ہے . (اے پیغمبر) اگر یہ کفّار تمہارے پیغام کوقبول نہیں کرتے تو جان لو کہ اپنی ہوس کی پیروی کرتے ہیں : ( فان لم یستجیبو الک فاعلم انما یتبون اھواء ھم ) ۔
کیونکہ جو انسان ہواپرست نہیں ہوتا و ہ ایسی منطقی پیشکش کے سامنے سرجھکادیتاہے لیکن وہ کسی طرح بھی راہ راست پر نہیں آتے اور پیغمبر کے پر پیغام کوکسی نہ کسی بہانے سے رد کردیتے ہیں ۔
کیا کوئی شخص اس سے بھی زیاد ہ گمراہ تر مل سکتاہے جواپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرکے کسی بھی ہدایت الہٰی کوقبول نہیں کر تا ( ومن اضل ممن اتبع ھوہ بغیر ھدی من اللہ ) ۔
یہ مسلم ہے کہ خداظالمین کے گروہ کی ہدایت نہیں کرتا ( ان اللہ لایھدی القوم الظالمین ) ۔
اگرچہ وہ لوگ گمراہ تھے لیکن اپنی گمراہی کومحسوس کرکے حق طلب ہوتے لطف الہٰی نہ متقضای ٴ ” والذین جاھدوا فینا لنھد ینھم سبلنا (۳) ۔
ان کے شامل حال ہوتامگر وہ ستمگر ہیں . وہ اپنی ذات پر بھی ظلم کرتے ہیں اس معاشرے پر بھی جس میں وہ رہتے ہیں ۔ان کا مقصد حیات فساد اورعناد کے سوا اور کچھ نہیں ہے .اس حالت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ راہ ہدایت کے لیے ان کی مدد کرے ۔
خواہشات پرستی گمراہی کاسبب ہے :
مذکورہ بالا آیات میں ان دونو ں باتوں (یعنی خواہش پرستی اور گمراہی ) کارابطہ صراحت کے ساتھ بیان ہواہے .یہاں تک کہ ان لوگوں کو گمراہ ترین کہا گیا ہے جنہوں نے اپنی ہوائے نفس اپنا کواپنا رہبر بنا لیاہے اور ھدایت الہٰی کوہر گزقبول نہیں کرتے اور ہوا ئے نفس ، عقل کی آنکھوں پر ضخیم پردہ ہے ۔
” ہوائے نفس “ کسی موضوع سے ایسا دل بستہ کردیتی ہے کہ انسان میں اور اک حقیقیت کی قابلیت ہی نہیں رہتی کیونکہ اوراک حقیقیت کے لیے واقعا ت کو بطور امرمطلق کے تسلیم کرنا اور ہر قسم کے پیشگی فیصلے اور جحان طبع کو ترک کرنا ضروری ہوتاہے ۔
ہر موجود عینیت خارجی رکھتا ہے ، خواہ تلخ ہویا شیریں ، ہمارے میلان طبع کے موافق ہو یا مخالف ، ہمارے ذاتی مفاد سے ہم آہنگ ہویانہ ہو ، اسے بلاقید وشرط تسلیم کرلینا ہی ادراک حقیقت کہلاتاہے . مگر یہ مجرواصول انسان کی ہوا ئے نفس سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
اس موضوع پر ہم نے سورة فرقان کی آیت ۴۳ کے ذیل میں جلد ۱۵ میں مفصل بحث کی ہے ۔
یہ امر قابل لحاظ ہے کہ متعدد روایات میں آیت فوق کی تفسیر میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ گمراہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے فرستادہ ٴ خدا رہبراورامام کوقبول نہیں کیااورصرف اپنی رائے پر جمے رئے ہیں (۴) ۔
یہ رویات حضرت امام جعفر صادق (علیه السلام) اوردیگر آئمہ ھدی سے نقل ہوئی ہیں . اپنے مصداق کے لحاظ سے قطعی روشن اور بہ مرتبہ حق الیقین ہیں ۔
دوسرے لفظو ں میں یہ کہا جاسکتاہے کہ انسان ہروقت ھدایت الہٰی کانیاز مند ہے اور یہ ھدایت کبھی توآسمان کتاب میں جلوہ گر ہوتی ہے، کبھی وجود پیغمبراوراس کی سنت میں کبھی اس کے معصوم اوصیا میں اور کبھی عقل و خرد کے استد لال میں ۔
بہر کیف انوار ھدیت سے بہر ہ مند ہونے کے لیے ، لازم ہے کہ انسان ادامر پر بے چوں چرا عامل ہو اور کیس امر میں بھی اپنی ہوائے نفس کودخل نہ دے ۔

1۔ بعض مفسرین نے یہ تصریح کی ہے کہ ” لو لایٴ اول “ کا جواب محذووف ہے . اس شرط کی جزا ” لما ارسلنا رسولا “ یالما وجب ارسالا الرسل “ ہونی چاہیئے .دوسری تعبیر صحیح تر اور قریب ترین حقیقت ہے . بہر حال یہ کلام ان احکام سے مربوط ہے جن کاعقل مستقلا ادراک کرتی ہے . وگرنہ خداکی طرف سے بعحثت انبیا ء اور دلائل سے بھی لازم ہے .ہر چند کہ پیغمبر وں کی آمد کے فوائد میں سے ایک ” احکام عقلیہ “ کی تاکید بھی ہے بطلان شرک ، ظلم کی قباحت اور شرو فساد کے مضرات ۔
۲ ۔ تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۰ صفحہ ۸۱ ۔
۳ ۔ جولوگ ہماری طرف کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ہدایت کے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
۴ ۔ یہ روایات اصول کافی اور بصائرالدرجات میں ( بمطابق نورا ثقلین جلد ۴ ، ص ۱۳۲ ) مذکورہ ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma