حرم امن!

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

گزشہ آیات میں بھی مشرکین کے اس بہانے کی طرف دوسری صورت سے اشارہ ہو ا تھا کہ :
” ہم اس با ت سے ڈرتے ہیں کہ اگرہم اظہار ایمان کردیں اور ا س کے ساتھ ہجرت کریں تو ہماری زندگی تو مختل ہو جائے گی “ قرآن میں ان کے اس بہانے کا مختلف طریقوں سے جواب دیاگیا ہے ۔
زیر بحث آیات میں انھیں ایک اور طریقے سے جواب دیاگیاہے . خدا فرماتا ہے : کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لیے حرم امن قرار دیاہے . ( یعنی سرزمین پاک و مقدس مکہ ) : اولم یرو واانا جعلنا حرما امنا ) ۔
جب کہ سارے عرب بدامنی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں . ” اس سرزمین سے باہر انسانوں کو اٹھا کے لے جاتے ہیں “ . ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے مگر اس سر زمین میں بیک حا ل امن و امان برقرار رہتا : ( و یتخطف الناس من حو لھم ) ۔
وہ خد اجو اس امر پرقادر ہے کہ حجاز کے اس بحر متلاطم وطوفان نی میں حرم مکہ کو آرام وامن کے ایک جزیرہ کی مانند بنادے ، تو کیا اس میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھے ؟ وہ لوگ خدائے قادر و توانا کے مقابلے میں ان ضعیف و باتوان لوگوں سے کیوں ڈرتے ہیں ۔
کیااس کے باوجود وہ باطل پرایمان رکھیں گے اور خدا کی نعمت کاانکار کرتے ہیں گے : ( افبالبا طل یئو منون و بنعمة اللہ یکفرون ) ۔
مختصر با ت یہ ہے کہ جو خدا اس امر پر قادر ہے کہ ایک پرفساد ملک مین جہاں نیم و حشی لوگ آباد ہیں ، ایک چھوٹے سے علاقے کوجائے امن قرار دے دے . کیا وہ یہ نہیں کرسکتا ہے کہ کافروں اور بے ایمان لو گوں میں مومنین کو آفات سے محفوظ رکھے ۔
قرآن میں اس روشن دلیل کے ذکر کے بعد بطور استقرء ایک کلیّہ قائم کیاگیا ہے : آیاان لوگو ں سے بھی زیادہ ظلم کوئی ہے جو خدا پر بہتان باندھتے ہیں . یاجب حق ان کے پاس آتاہے تواس کاانکار کرتے ہیں . ( ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبااو کذب بالحق لما جائہ)۔
ہم نے تمہارے لیے اس امر کی واضح دلائل قائم کردی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اورعبادت کے لائق نہیں ہے . مگر تم تو خدا پر بہتان لگاتے ہو اور اس کے لیے شریک بنالیتے ہو . یہا ں تک اپنے اس کفر و شرک کے لیے یہ دعوی کرتے ہو کہ یہ سب کچھ بھی رضائے الہٰی سے ہو رہاہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے تم پر قرآن نازل کیاجس میں حق کے دلائل واضح اور روشن ہیں . لیکن تم ان چیزوں سے قطع نظر کے انھیں پس پشت ڈال دیتے ہو . کیا اس سے بھی بڑا کوئی ظلم و ستم متصور ہو سکتا ہے ۔
یہ شیوہ اپنے اوپر اور تمام بنی نوع انسان پرظلم ہے کیونکہ شرک اورکفر ظلم عظیم ہے ۔
یہ الفاظ دیگر وسیع معنی کے لحاظ سے ظلم کا مفہوم یہ ہے کہ ” کسی چیز کو اس کے مناسب مقام سے نکالنا اور منحرف کردینا “ اس لحاظ سے ... کیا اس سے بھی بدترین کوئی بات ہو سکتی ہے کہ انسان ایک بے حقیقت پتھر اورلکڑی کوخالق زمین و آسمان کا شریک و سہیم بنادے ۔
علاوہ ازیں شرک جملہ معاشرتی مفاسد کی بنیاد ہے . درحقیقت دوسرے مظالم اسی سے پیدا ہوتے ہیں مثلا ہو ا پر ستی جاہ پرستی یادنیا پرستی . ان میں سے ہرایک ایک قسم کاشرک ہے ۔
لیکن ہرشخص متنبہّہ رہے کہ ” ایک نامبارک انجام “ مشرکین کے انتظار میں ہے . کیا کافرورں کامقام و محل دوزخ نہیں ہے :( الیس فی جھنم مثوی للکافرین ) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید میں پندرہ مقامات پرجن لوگوں کوظالم ترین افراد کہاگیا ہے ، ان سب کا ذکر جملہ استفہام میہ سے کیاگیا ہے . یعنی ” من الظلم “ ( یہ استفہام انکار ی ہے ) ۔
ان آیات میں غور و فکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ بظاہران میں مختلف مسائل بیان ہوئے ہیں مگر دیکھاجائے توان سب کی بنیاد شرک ہے . اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔
مزید و ضاحت کے لیے جلد پنجم میں سورہ انعام آیت ۲۱ کے تحت دیکھئے :
زیرنظر آیات میں سے آخری آیت میں جس پر سورہ منکبوت کااختتا م ہوتا ہے ،ایک اہم حقیقت کو بیان کیاگیا ہے . جو اس تما م سورت کاجو ہر ہے اوراس کے آغاز سے ہم آہنگ ہے ۔
فرمایاگیاہے اگرچہ راہ خدامیں بہت سی مشکلات ہیں . ایک دشواری حق کو پہچاننے کی جہت سے ہے ۔
شیاطین جن وانس کے وسوسوں کے لحاظ سے بھی دشوار ی ہے . بے رحم اورمغرور دشمنوں کی مخالفت بھی ایک دشوار ی ہے ۔
علاوہ بریں وہ لغرشیں بھی ایک مشکل ہیں جن کا انسان سے سرزد ہوناممکن ہے .لیکن اس مقام پر ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو ان مشکلات کے مقابلے میں دل کوا طمینان بخشتی اور قو ی رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ” جولوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی طرف ہدایت کرتے ہیں اورخدا نیکوکاروں کے ساتھ ہے “ : (والذین جاھدو فینا لنھد ینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین ) ۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ اس مقام پر کلمہ ” جہاد “ سے کیا مراد ہے ؟ آیا اس سے مراد ” جہاد بادشمن ہے “ یاجہاد بالنفس ؟ یاجہاد در راہ معرفت خدا “ بذریعہ علم واستد لال ہے ۔
مفسرین نے اس کے مفہوم کے لیے متعدد احتمالات کاذکر کیاہے . ا سی طرح کلمہ ” فینا “ کی تعبیرات میں بھی اختلاف ہے آیااس سے مراد ” راہ رضائے الہٰی “ ہے ؟ یاراہ جہاد بالنفس مراد ہے ؟ یہ طریقہ عبادت مراد ہے ؟ یادشمنان اسلام سے جنگ کرنا مراد ہے ؟
لیکن ... یہ ایک روشن امر ہے کہ کلمہ ” جہاد “ اوراسی طرح کلمہ ” فینا“ کامفہوم نہایت وسیع ہے اوراس کا اطلاق ہمہ جہت ہے . وہ تمام کوششیں اور ہر قسم کا جہاد جوراہ خدا میں صرف اس کی رضاکے لیے کیاجائے اورجس کی غایت یہ ہو کہ انسان منشائے الہٰی کے تحت زندگی بسر کرے ، اس مفہوم میں شامل ہیں . خواہ انسان اکتساب معرفت الہٰی کی راہ میں وشش کر ے یااپنے نفس سے جہاد کرے یادشمنان اسلام سے جنگ کرے یا اطاعت الہٰی کی مشقت کو برداشت کرے یا وسوسٴہ معصیت کے مقابلہ میں استقامت اختیار کرے یااپنی توانائی مستضعف افراد کی مدد کرنے میں صرف کرے یا کوئی اور نیک کام کرے . غرض سب باتیں کلمات ” جہاد “ اور” فینا “ کے مفہوم میں شامل ہیں ۔
الغرض جولوگ مذکورہ راہوں میں جس شکل و صورت سے بھی مجاہدہ کرتے ہیں خدا کی حمایت و ہدایت انکے شامل حال رہتی ہے ۔
جوکچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ آیت میں کلمہ ” سبل “ ( جمع سبیل بمعنی راہ ) سے مراد مختلف راستے ہیں ، جو خدا تک پہنچتے ہیں . یعنی جن کی غایت رضائے الہٰی ہے مثلا : راہ جہاد بالنفس ،راہ جہاد بادشمنان اسلام ،راہ تحصیل علم ودانش غیرہ .خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان مقاصد میں سے انسان کسی مقصد کے لیے بھی جہاد کرے تو وہ ا س رہ پر گام زن ہو جاتا ہے جو خداتک پہنچتی ہے ۔
خدانے اپنی راہ کے تمام مجاہدہ ین سے یہ دعوہ کیا ہے . تو اس وعدہ کو مختلف تاکید ات سے ( مثلا : لام تاکید اور نون تاکید ثقیلہ سے ) مئو کدّ کیا ہے اورانسان کی کامیابی ، ترقی اروحصول مقامات روحانی کودوچیزوں میں ( محصور کردیا ہے اوروہ ہیں ” جہاد “ اور ” خلوص نیت “ ۔
کچھ فلاسفہ کاعقیدہ ہے کہ ” تفکر اور مطالعہ “ سے علم و دانش حاصل نہیں ہوتی . بلکہ یہ ورزش ذہنی انسان کی روح کو ” صور معقولات “ کے قبول کرنے کے لیے تیار کردیتی ہے اور جس وقت انسان کی روح انھیں قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے تو خالق متعال و واہب الصور کی جانب سے انسان کی روح پر فیض علم کی بارش ہوتی ہے ۔
اس بناء پر انسان کو اس راہ میں جہاد توضرو ر کرنا چاہیئے لیکن ہدایت خداکے اختیار میں ہے . نیز حدیث میں یہ جووار د ہوا ہے کہ :
حصول علم کاانحصار تعلیم کی کثرت پرنہیں ہے بلکہ علم ایک نور ہے کہ خدا جس قلب کواہل اورمناسب حال سمجھتا ہے اس میں و دیعت کردیتا ہے ۔
ممکن ہے کہ اس کا اشارہ بھی ہمارے بیان کردہ مفہوم کی طرف ہو ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma