نماز اعمال قبیح سے روکتی ہے :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

پیمبران اولو العزم اوراوام گزشتہ سرگزشت کے حصّے ، او ران رہبران الہٰی سے ان کانامناسب و ناسزا سلوک اوران اقوام کی زندگی کے غم انگیز انجام کے بعد ، خداوند عالم کاروئے سخن بجانب پیمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی دل جوئی ، تسلی خاطر، تقویت روح اوانھیں ایک کلی اور جامع و ستور العمل دینے کے لیے منعطف کے لیے منعطف ہوتا ہے . انھیں دو حکم دیئے گئے ہیں :
اول یہ کہ : کتاب الہٰی کاجتنا حصّہ تمھیں و حی کیاگیا ہے اس کی تلاوت کرو : ( اتل ما اوحی الیک من الکتاب ) ۔
تم ان آیات کو پڑھو کیونکہ تم کو چاہتے ہو وہ ان میں ہے .علم و حکمت ، نصیحت ، ععیار شناخت حق وباطل ،و سیلہ تنویر روح و قلب اورہر گروہ اور ہر جماعت کے لیے زندگی کا پرو گرام ا ن آیات میں موجود ہے . تم ان آیات کو پڑھو اور ان پر عمل کر و . انھیں پڑھو اور ان سے ہدایت حاصل کرو . پڑھو اوران کی تلاوت سے اپنا قلب روشن کرو ۔
پہلے حکم کے بعد جس میں تعلیم کاپہلو ہے . دوسراحکم یہ ہے کہ : نماز قائم کرو . ( واقم الصلوة ) ۔
اس کے بعد نماز کے عظیم فوائد کاذکر ہواہے . اوروہ یہ ہیں.نماز انسان کواعمال فحش اور منکرات سے باز رکھتی ہے : ( ان الصلوة تنھی عن الفحشاء والمنکر ) (۱)۔
چونکہ نماز کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مبداء و ومعاد کی یاد دلاتی ہے جو کہ کج روی سے بچے رہنے کاقوی ترین سبب ہے . اس لیے وہ اسے اعما فحش اور منکرات سے باز رکھتی ہے ۔
جب کوئی آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتاہے تو ... تکبیر کہتا ہے . یعنی خداکے ہرشے سے برتر و بالا ہونے کااقرار کرتاہے ،اس کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے ، اس کی حمد ثنا کرتا ہے ،اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی تعریف کرتاہے ، روز جزا کو یاد کرتا ہے ، اس کی بندگی کااعتراف کرتا ہے ، اس سے صراط مستقیم کی ہدایت کاخواست گار ہوتا ہے اور گمراہوں اورمغضوب لوگوں کی پیروی سے خدا کی پناہ مانگتا ہے . ( مضمون سورہ حمد )
بدون شک ایسے انسان کے قلب اور روح میں جو پابندصلوة حق کی تحریک ، پاکیز گی کا خیال اور تقو یٰ کاجذبہ پیدا ہو جاتا ہے . نماز پڑھتے ہوئے آدمی رکوع کرتاہے اوراپنے خالق کے حضور پیشانی خاک پر رکھتا ہے اوراس کی عظمت کے تصوّر میںڈوب جاتاہے ، تو اس کے دل سے خود غرضی او رتکبر کے جذبات محو ہو جاتے ہیں ۔
وہ توحید الہٰی کی شہادت دیتا ہے او ر پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کااقرار کرتاہے . اس حالت میں وہ جناب رسالت مآب پر درود بھیجتا ہے اورخد اکے حضور میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاکر تا ہے کہ وہ اسے صالح بندوں میں شمار کرے .( تشہود سلام ) ۔
یہ تمام امور پابندصلوة انسان کے نفس میں ر وحانی لہریں بیدا کردیتے ہیں اور اس کی قوت روحانی گناہ کے مقابلے میں مستحکم دیوار بن جاتی ہے ۔
اس عمل کی شب و روزمیں چند بار تکرار ہوتی ہے . چنانچہ جب انسان صبح کو نیند سے بیدار ہوتاہے . تو وہ اپنے رب کی یاد میں غرق ہوجاتا ہے . وسط روز میں جس وقت آدمی دنیا و یکارو بار میں مصروف ہوتا ہے ، ناگہاں موٴذن کی صد ائے تکبیر سنتاہے تواپنی مصرو فیات کو چھوڑ کردر گاہ الہٰی کی طرف رخ کرتا ہے . حتی کہ دن کے ختم ہونے اور رات کے شروع ہوتے وقت اپنے بستر استراحت پر جانے سے پہلے بار گاہ ایزدی میں حاضر ہو کر اپنے دل کو مرکز انوار بناتا ہے ۔
علاوہ بریں جس وقت کو ئی آدمی نماز کی تیاری کرتا ہے تو پہلے نہاتا دھوتا او راپنے آپ کو پاک کرتاہے . ہر حرام اور غصب کردہ شے کو اپنے آپ سے دور کرتا ہے .پھر بار گاہ رب العزت میں حاضر ہوتا ہے . یہ تمام امور اسے فحشاء اورمنکر سے باز ر کھتے ہیں ۔
بلحاظ شرائط کمال اخلاص اورروح عبادت جس نماز ی معیار ہے و ہ اسی قدر فحشاء او ر منکر سے رور رہتا ہے . بمناسبت معیار کبھی تومکمل طور پر انسان بچارہتا ہے . اورکبھی محدود طور پر ۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی آدمی نماز پڑ ھے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو خواہ اس کی نماز دکھادے ہی کی کیوں نہ ہو . یاوہ شخص آلودہ گناہ ہی کیوںنہ ہو . البتہ ایسی نماز کے نفس پر اثر ات کم ہوتے ہیں. مگریہ بات بھی ہے کہ یہ لوگ دکھادے کی نماز بھی نہ پڑھتے تواور زیادہ گناہوں میں آلود ہ ہوتے ۔
ہم اس مطلب کو قدر ے واضح طورپر یوں بیان کرسکتے ہیں کہ فحشاء اور منکرسے پر ہیز کرنے کے بھی بہت سے مراتب و درجات ہیں .اورہر نماز ی کامرتبہ ومقام اس کے روحانی مدارج کمال کے مطابق ہے ۔
اس آیت کے متعلق ہم نے جو کچھ سطور بالا میں کہا ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لاحاصل زحمت اٹھائی ہے اور نامناسب تفاسیر کے انتخاب میں بیکار محبت کی ہے . شاید انھوں نے یہ دیکھ کہ بعض لوگ نماز پڑ ھتے ہیں اورمرتکب گناہ بھی ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے آیت کے مطلق معنی پر نظر ڈالی اور سلسلہ ء مراتب کالحاظ نہیں کیا .لہذا و ہ شک میں پر گئے اور آیت کی تفسیر کے لیے دوسری راہیں اختیار کرلیں ۔
مثلا ... بعض نے کہا ہے کہ نماز انسان کو فحشاء اور منکرسے اتنی ہی دیر کے لیے بازرکھتی ہے جب تک وہ مشغور ل نماز ہوتا ہے ۔
یہ کیا عجیب بات ہے . یہ کچھ نماز ہی کی خصوصیت نہیں ہے . بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ ان میں بحالت مشغولیت انسان مرتکب گناہ نہیں ہوتا ۔ بعض او ر لوگون نے کہاہے کہ نماز کے اعمال و اذکار ایسے جملے ہیں جن میں س ے ہر ایک انسان کو فحشاء اور منکر سے باز رکھتاہے . مثلا تکبیر وتسبیح و تہلیل کہتی ہے کہ گناہ نہ کر . یہ اور بات ہے کہ انسان اس صدائے نہی کو سنتا بھی ہے یانہیں
اس طرح بعض نے اس آیت کی اس عنوان سے تفسیر کی ہے کہ اس مقام پر کلمہ”نہی “ صر ف ”نہی تشریعی “ ہے وہ اس حقیقت سے غافل رہے ہیں کہ یہاں نہی تکوینی مرا د ہے .آیت کے ظاہر ی معنی یہ ہیں کہ : ۔نمازکی تاثیر ہی انسان کوارتکاب گناہ سے باز رکھنے والی ہے .اس لیے آیت زیر نظر کی اصلی تفسیر و ہی ہے جو ہم نے سطور بالا میں بیان کی البتہ اس امر میں کوئی مانع نہیں کہ نماز وفحشا ء اور منکر سے نہی تکوینی بھی کرتی ہے اور نہی تشریعی بھی ۔
چند توجہ طلب احادیث
(۱) ایک حدیث میں جوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مرو ی ہے :
من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء والمنکر لم یذدد من اللہ الا بعد ا
جس آدمی کی نماز اسے فحشاء اورمنکر سے نہیں ر وکتی اسے نماز سے خدا روری کے علاوہ او رکوئی فائدہ نہیں پہنچتا (۲) ۔
)۲)۔آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم سے ایک اور حدیث میں اس طرح منقول ہے :
لاصلوة لمن لم یطعالصلوة .وطاعة الصلوة ان ینتھی عن الفحشاء و المنکر ۔
جو آدمی نماز کے حکم کی اطاعت نہیں کرتا اس کی نماز نماز نہیں ہے . اور اطاعت نماز یہ ہے کہ فحشاء او رمنکر سے ا س کی نہی پر عمل کرے (۳) ۔
)۳)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہم ایک اور حدیث میں یوں پڑھتے ہیں کہ : انصار میں سے ایک جوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑ ھا کرتا تھا .مگروہ قبیح گناہوں میں مبتلا تھا .لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات بیان کی تو آپ نے فرمایا :
ان صلاتہ تنھاہ یوم
ْآخر کار اس کی نماز کسی دن ان اعمال سے روک دے گی (۴)۔
(۴) ۔نماز کا یہ اثر اس قدر اہم ہے کہ بعض روایات میں اسے نماز کے مقبولی یا نامقبول ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔
جیسا کہ جناب امام جعفرسادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ۔
من احب ان یعلم اقبلت صلوتہ ام لم تقبل ؟ فلینظر ھل منعت صلوتہ عن الفحشاء و المنکر ؟ فبقد مامنعتہ قلبت منہ
جو آدمی یہ جاننا چاہے کہ اس کی نماز خدا کے حضور میں مقبول ہوئی یانہیں تواسے چاہیئے کہ یہ دیکھے کہ کیا اس کی نماز نے اسے فحشاء اورمنکر ات سے روکاہے یانہیں بس اس کی نماز نے جس قدر اسے ان افعال سے روکا ہے اسی قدر اس کی نماز مقبول ہوئی ہے (۵) ۔
آیت کے آخرمیں یہ الفاظ ہیں ( ولذ کراللہ اکبر ) ۔
” ذکر خدا اس سے بھی زیادہ بر تر و بالا ہے “ ۔
اس جملے میںنماز کاایک اہم ترین فلسفہ بیان کیاگیا ہے . یعنی نماز کی برکات و آثار میں سے نہی عن الفحشاء والمنکر سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ نماز انسان کو خدا کی یاد میں مشغول کردیتی ہے .یہی وہ چیز ہے جو ہر خیرو سعادت کی بنیاد ہے .یہاں تک کہ انسان کے فحشاء اورمنکر سے بچے رہنے کااصل عامل بھی ذکر اللہ ہی ہے .اورحقیقت میں نماز کی جملہ برکات میں سے اس کی برتری کاباعث یہ ہے کہ یہی ہر خیرو سعاد ت کی بنیاد ہے ۔
یاد خدا اصولا باعث حیات دل اور راحت القلوب ہے .اورکوئی شے بھی اس مرتبہ کونہیں پہنچ سکتی ۔
الا بذ کر اللہ تطمئن القلوب
آگا ہ رہو کہ یاد خدا ہی دلوں کے اطمینان کاسبب ہے . ( رعد . ۲۸)
اصولی طورپر تماعبادات خواہ وہ نماز ہو یاکوئی اور عبادت سب کی روح ذکر خدا ہی ہے . نماز کے الفاظ ، افعال نماز ،مقدمات نماز ، اورتعقیباب نماز یہ سب کی سب چیزیں درحقیقت انسان کے دل میںیاد خدا کوزندہ کردیتی ہیں ۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ سورہ ٴ طہ کی آیت ۱۴میں نماز کے اس بنیاد ی فلسفے کی طرفاشارہ ہوا ہے .چنانچہ موسٰی وکو مخاطب کر کے کہا گیا ہے :
اقم الصلوة لذکری
نماز کو میر ی یاد کے لیے قائم کرو ۔
بررگ مفسرین نے جملہ بالا ( ولذکراللہ اکبر) کی اس سے مختلف سیر بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض کے متعلق رویات اسلامی میں بھی اشارات ملتے ہیں .منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ :
خدا تمہیں اپنی رحمت کے وسیلے سے یاد کرتا ہے اورتم اسے اطاعت کے وسیلہ سے یا دکرتے ہو (۶) ۔
دوسرے یہ کہ : ذکر خدا نماز سے بھی برتر و بالا تر ہے کیونکہ ہر عبادت کی رو ح ذکر خدا ہی ہے ۔
مذکورہ بالاتفاسیرجن میں سے بعض کاذکر روایات اسلامی میں بھی ہے ممکن ہے کہ ان کا مقصود بطون آیت ہو .و گرنہ آیت کا ظاہر ی مفہوم تو وہی ہے جوہم نے پہلے بیان کیاہے کیونکہ اکثر مقامات پر جہاں کلمہٴ ذکر اللہ آیا ہے اس سے مراد بندوں کاخدا کو یاد کرنا ہے . آیت بالاسے بھی ذہن اسی مفہوم کی طرف مائل ہوتا ہے . لیکن یہ خیال کہ خدا بندوں کو یاد کرتا ہے ، تو ہوسکتا ہے کہ یہ براہ راست نتیجہ ہو ، اس بات کا کہ بندے خدا کو یاد کرتے ہیں .اس طر ح سے ان دو نوں معانی کاتضاد برطرف ہوجاتاہے ۔
معاذ بن جبل سے منقول ایک حدیث کے مطابق عذاب الہٰی سے نجات کے لیے انسان کا کوئی عمل بھی ”ذکراللہ “ سے بہتر نہیں ہے تواس کے بارے میں لوگوں نے ان سے سوال کیاکہ کیاراہ خدا میں جہاد بھی اس سے بہتر نہیں ہے . تو معاذ بن جبل نے جواب دیا ہان . کیوں خد ا فرماتا ہے :
ولذکراللہ اکبر
ظاہر ا یوں لگتاہے کہ معاذبن جبل نے یہ بات رسول اللہ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی کیونکہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا کہ تمام اعمال کو نساعمل برتر ہے ؟
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ان تموت ولسانک رطب من ذکراللہ عذّوجل
یہ کہ مرتے وقت تیری زبان ذکرالہٰی میں مشغول ہو ۔
انسان کی نیت اوراس کے حضور قلب کی کیفیت و کمیت نماز اوردیگر تماعبادات میں مختلف رہتی ہے اس لیے آیت کے آخر میں انالفاظ کااضافہ کیاگیاہے : ( وا للہ یعلم ماتصنعون ) . یعنی خدا جانتا ہے کہ تم کیاکام کرتے ہو ۔
تم کونسے اعمال مخفی طورپراور کون سے آشکار طورپر انجام دیتے ہو .تمہاری کیا کیا نیتیں ہوتی ہیں اور تم زبان سے کیاکچھ کہتے ہو .خدا ان سب باتوں کو جانتا ہے ۔
فرد اور جماعت کی تربیت میں نماز اکا اثر :
اگر چہ نماز ایسی چیز نہیں کہ اس کا فلسفہ کسی سے مخفی ہو .لیکن جب ہم متون آیات اور روایات اسلامی کودقت نظر سے دیکھتے ہیں . تو بہت سی بار یکیاں اور نکات ہمارے سامنے آتے ہیں، مثلا :
۱۔نماز کا فلسفہ اس کی روح اساس ، مقصد و عمل اور نتیجہ غرض سب کچھ یاد خدا ہے . یعنی و ہی ذکر اللہ جسے آیت حدیث میں ” برترین “ کہاگیاہے ۔
البتہ ” ذکر “ ایسا ہونا چاہیئے جوتمہید فکر ہو اور فکر وہ کہ جو محرک عمل ہو . جیساکہ امام جعفر سادق علیہ السلام سے ایک حدیث ” ولذکراللہ اکبر“ کی تفسیر میں منقول ہے . آپ علیہ اسلام نے فرما یا :
وذکراللہ عند مااحل و حرم
افعال حلال و حرام کے بارے میں خدا کو یاد کرنا ( یعنی خدا کاذکر ایسا ہونا چاہیئے کہ انسان حلال وکام انجام دے او ر حرام سے بچے (۷) ۔
۲۔ نماز گنا ہوں کو دھودیتی ہے اور خدا کی مغفرت بخشش کا وسیلہ ہے . کیونکہ نماز انسان کو توبہ اور اصلاح عمل پر آمادہ کرتی ہے .اس لیے ایک حدیث میں ہے کہ جناب رسولخداصلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا :
لوکان علی باب دار احد کم نھر واغتسل فی کل یوم منہ خمس مرات اکان یبقی فی جسدہ من الدرن شی ء ؟
قلت . لا .قال .: . فان مثل الصلوةکمثل النھر الجاری کلما صلی کفرت مابینھما من الذنوب ۔
اگرتم میں سے کسی کے مکان کے دروازہ کے سامنے صاف و پاکیز ہ پانی نہر ہو اوروہ آدمی دن میں پانچ دفعہاس نہر میں غسل کرے تو کیا اس آدمی کے جسم پر کسی قسم کی کثافت اور میل باقی رہ جائے گا ؟
جواب میں عرض کیا گیا .نہیں ۔
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرمایا : نماز بھی اسی آب جاری کی مانندہے . جس وقت بھی انسان نماز پڑھتا ہے تو وہ گناہ جو دو نما زوں کے درمیان اس نے انجام دیئے ہوتے ہیں ، ،محو ہوجاتے ہیں (۸) ۔
اس طرح انسان روح پرگناہوں سے جوزخم لگ جاتے ہیں نماز کی مرہم سے بھر جاتے ہیں اوردل پر جو زنگ لگ جاتاہے وہ صاف ہوجاتا ہے ۔
۳۔ نماز آئندی گناہوں کے مقابلے میں دیوار بن جاتی ہے کیونکہ وہ انسان کے اندر روح ایمانی کوقوی کرتی ہے اوردل میں تقویٰ کے پودے کی پرورش کرتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایمان و تقویٰ گناہوں کو روکنے کے لیے مضبوط ترین دیوار ہیں اور یہی وہ چیز ہے جسے زیربحث آیت میں ” تنھی عن الفحشاء و المنکر “ کے عنوان سے بیان کیاگیاہے ۔
اس مطلب کی متعدد احادیث کے مطابق پیشوایان اسلام کے سامنے بعض گناہ گار لوگوں کاحال بیان کیاگیا توانھوں نے فرمایا :
فکر نہ کرو . نماز ان کی اصلاح کردے گی ۔
۴۔ نماز غفلت کو دور کردیتی ہے . راہ حق کے راہیوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد تخلیقکو بھول جائیں اورزندگی کی مادہ راحتوں اورزود گزر لذتوں میں غرق ہوجائیں ۔
مگر ... نماز ... جو کہ وقت کے مختلف فاصلوں سے ہرشب وروز میں پانچ بار ادا کی جاتی ہے ، مسلسل انسان کو آگاہ اور متنبہ کرتی رہتی ہے . وہ انسان کو اس کا مقصد آفرینش سمجھاتی رہتی ہے اور دنیا میں اس کی حیثیت اورفرض سے آگاہ کرتی رہتی ہے . انسان کے لیے یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ . ” اس کے پاس ایک ایسا وسیلہ ہے جو ہر رات دن میں اسے چند مرتبہ خواب غفلت سے جگا تا رہتا ہے “ ۔
۵۔ نماز تکبراورخود بینی کو دور کر دیتی ہے . کیونکہ انسان ہر شب و روز میں سترہ رکعت نماز پڑ ھتا ہے اور ہر رکعت میں دوبار خداکے سامنے خاک پر پیشانی رکھتاہے . اس حدیث میں اپنے آپ کو اس کی عظمت کے سامنے سرف ایک ذرہ ناچیز ہی نہیں بلکہ اس کی لامحدود یت کے مقابلے میں ایک صفر سمجھتا ہے ۔
نماز انسان کے غرور اور خود پرستی کو دور کردیتی ہے نیز تکبراورحساس بر تری کوختم کردیتی ہے ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی اس معروف حدیث میں جس میں عبادات ِ الہی کافلسفہ بیان کیاگیا ہے ،ایمانکے بعد نماز کہ جو افضل عبادات ہے ، کی یہی غایت بیان فرمائی ہے :
فرض االلہ الاایمان تطھیرا من الشرک والصلوةتنز یھاعنالکبر
خدا نے ایمان کوشرک کی نجاست سے پاک کرنے کے لیے فرض کیااور نماز کو تکبرسے پاک کرنے کے لیے ْ ( نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۵۲۱۔)
۶۔ نماز انسان کے فضائل اخلاق اوراس کے کمال روحانی کی پرورش کاوسیلہ ہے کیونکہ وہ انسان کو عالم مادی او ر عالم طبیعت کی چار دیوار ی سے آزاد کرتی ہے . اور اسے ملکوت آسمانی کی طرف بلاتی ہے . اسے فرشتوں کے ساتھ ہم صدا اور ہم راز دار کردیتی ہے . انسان حالت نماز میں اپنے آپ کوبلاواسط خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں اس سے باتیں کررہاہوں ۔
شب و روز میں انسان کئی مرتبہ اس عمل کی تکرار کرتا ہے . اس صورت میں کہ انسان خدا کی صفات ر حمانیت و رحیمت اور اس کی عظمت کو پیش نظر رکھتا ہے . اورسورہ الحمد کو جونیکی اورپاکبازی کی بہترین رہبرہے ، کے بعدقرآن کی دوسری آیات کی تلاوت کرتا ہے .یہ عمل نفس انسانی میں بہترین فضائل اخلاق کی پرورش کرتاہے ۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فلسفہ ٴ نماز کی متعلق ایک حدیث میں فرمایا :
الصلوة قربات کل تقی
نماز پر پر ہیز گار کے لیے تقرب الہٰی کاوسیلہ ہے (9) ۔
۷۔ نماز انسان کے تمام اعمال کوقدرو قیمت اورروح عطاکرتی ہے .کیونکہ نماز انسان کے اندر روح اخلاص کو زندہ کرتی ہے ، نمازنیت خالص ،گفتار پاک اور اعمال صالح کامجموعہ ہے .رات دن میں تمام چیزوں کی تکرار انسان کی روح میں نمام اعمال خیر کابیج بودیتی ہے .اور نفس کی کیفیت اخلاص کو تقویت بخشتی ہے ۔
اس مشہور روایت میں ہے کہ جب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کاسراقدس ظالم بن ملجم کی تلوار سے شگافتہ ہو چکا تھا تو آپ علیہ السلام نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی فرمایا :
اللہ اللہ فی الصلوة فنھا عمود دینکم
نماز کے بارے میں خداسے ڈرو ، خداسے ڈرو کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے (10) ۔
یہ مسلم ہے کہ اگر چوب خیمہ ٹوٹ جائے یاگر پڑے توخیمے کی طنا مینیامیخیں خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں وہ بے فائدہ ہیں .اسی طرح اگرنماز کے و سیلے سے بندوں کاخدا سے تعلق باق نہ رہے ،تو دوسرے اعمال بے اثر ہوجاتے ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک حدیث مروی ہے :
اول مایحاسب بہ العبد الصلوة فان قبلت قبل سائر عملہ وان ردت رد علیہ سائر عملہ
قیامت میں جس چیز کاسب سے پہلے بندوں س ے حساب لیاجائے گاوہ نماز ہے . اگرخدا نے نماز کو قبول کرلیا تو دیگر اعمال بھی مقبول ہوجائیں گے اوراگر وہ رد کردی گئی توتمام اعمال رد ہوجائیں گے ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نماز خالق و مخلوق کے درمیان ایک راز ارتباط ہے . اگرنماز اپنی شرائط کے ساتھ صحیح طورپر ادا ہو جائے تواس میں قربت اوراخلاص کے جذ بات کہ جو جملہ اعمال کی قبولیت کی بنیاد ہیں ، فطرتا پیدا ہو جاتے ہیں اور اگر اخلاص اور نیت صادق نہ ہو توتمام بیکار اور غیر نتیجہ بخش ہیں اور اعتبار کے درجے سے ساقط ہوجاتے ہیں۔
۸۔ مشتملات نماز سے قطع نظر اگر نماز اپنی شرائط کے ساتھ توجہ سے ادا کی جائے تو وہ انسان کو تقو یٰ کاعادی بناتی ہے ۔
کیونکہ ... ہم جانتے ہیں کہ صحت صلوة کی شرائط میںیہ امور شامل ہیں کہ نماز گزار کامکان ، اس کالباس ، وہ فرش جس پروہ نماز پڑ ھتاہے ، وہ پانی جس سے وضواورغسل کرتاہے اور وہ مقام جہاں وہ غسل او روضوکرتاہے ، ان سب کوغضب سے مبرا اور سروں کے حقوق پر تجاوز سے پاک ہوناچاہیئے ۔
جس آدمی کاکردار تجاوز ،ظلم ، سود خوری ، غصب ،کم فروشی ، رشوت خوری اور کسب اموال حرام سے آلودہ ہو تو وہ ادا ئے نماز کی شرائط کو کیونکر پور اکر سکتا ہے ۔
اس بناء پر رات دن میں پانچ مرتبہ نماز کی تکرار بنی نوع انسان کے حقوق کا احترام کرنے کی تعلیم دیتی ہے ۔
۹۔ نمازکے لیے ،ان شرائط کی صحت کے علاوہ جوا س کی قبولیت کے لیے لازمی ہیں کچھ اور شرائط کمال بھی ہیں کہ ان کالحاظ رکھنا بہت سے گناہوں کے تر ک کرنے کے لیے موٴ ثر ہے . علم فقہ اورحدیث کی کتابوں میں ایسے بہت سے امور کا ذکر ہے . جن کی وجہ سے نمازقبول نہیں ہوتی .ان میں سے ایک شراب خوری بھی ہے . روایات میں ذکر ہے : ۔
لاتقبل صلوة شارب الخمرار بعین یوما الاان یتوب
شراب خوار کی نماز چالیس روزتک قبول نہیں ہوتی مگراس شرط کے ساتھ کہ و ہ تو بہ کرلے (11)۔
بعض دوسری روایات میں یہ تصریح موجو د ہے کہ جو آدمی زکوة ادا نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہوگی اسی طرح اور روایات میں آیا ہے کہ حرام غذاکھانے ، غرو ر ،تکبراور خود بینی سے بھی نماز قبول نہیں ہوتی .ظاہر ہے کہ قبولیت نماز کی تمام شرائط کوملحوظ رکھنے سے کیسی تربیت اخلاق ہوتی ہے ۔
۱۰۔نماز انسان میں نظم و ضبط کی عادت پیداکرتی ہے کیونکہ اس سے لازمامعین وقت پر ادا کرنا ہوتا ہے . ہر نماز کی ادائیگی میں تقدیم یاتاخیر دونوں س ے نماز باطل ہو تی ہے اسی طرح سے نماز کے دیگر آداب و احکام ہیں ،،مثلا نیت قیام و قعود رکوع و سجود وغیرہ کہ جب انسان سب کو پوری توجہ کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے تو اس کے کردار اور اس کی زندگی کے نظام میں نظم و ضبط کاپیدا ہوجانا آسان ہوجاتا ہے ۔
نماز باجماعت سے قطع نظر کرتے ہوئے فرادی نمازمیں یہ تمام فوائد مضمر ہیں . او ر ہم ان پر خصوصیت جماعت کااضافہ کریں کہ جوروح نمازکاتقاضہ ہے تو نمازمیں اوربھی بے شمار برکات ہیں ، جن کے تفصیلی ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے . علاوہ بریں ہم سب ہی کم و بیش انھیں جانتے ہیں ۔
فلسفہ واسرار نماز کے متعلق امام علی ابن موسی رضاعلیہ السلام کی ایک جامع حدیث نقل کرکے ہم اپنے بیان کو ختم کرتے ہیں ۔
امام علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط آیا جس میں فلسفہ نماز کے متعلق سوال کیاگیاتھا تواس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ :
نماز کے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے دوران میں انسان کو توجہ اللہ کی طرف رہتی ہے اور وہ اپنے پروردگار کی ربویت کااقرار کرتارہتا ہے . نماز ی آدمی شرک وبت پرستی کے خلاف جنگ کرتا ہے ، اپنے پروردگار کے حضور نہایت خضوع خشوع سے کھڑا ہوتا ہے ، وہ اپنے گناہ ہوں کا اعتراف کرتا ہے ، اپنے گزشتہ گناہوں کی خدا سے بخشش طلب کرتاہے . اور ہر روز خد ا کی تعظیم کے لیے زمین پر پیشانی رکھتا ہے ۔
نماز کامقصود یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ ہوشیار رہتا ہے اور اس بات کو یاد رکھتا ہے کہ خدا سے غفلت کاگرو و غبار اس کے دل پر نہ بیٹھنے پائے ، وہ دنیا کی دولت پر مست و مغرور نہ ہوجائے ، بلکہ ہمیشہ خدا کے حضور میں خضوع و خشوع کی حالت میں رہے اوراسی سے دنیا کی دو لت اور دین کی نعمات میں اضافے کاطالب ہو ۔
علاوہ بریں ذکر خدا کاتسلسل کہ جو نماز کے سبب سے حاصل ہوتاہے ، اس امر کاموجب ہوتا ہے کہ انسان اپنے مولا ، مدبّر اور خالق کوفراموش نہیں کرتا اوراس پر سر کشی کے جذبات کاغلبہ نہیں ہوتا ۔
خداکی طرف یہی توجہ اور اس کی درگاہ میں حاضری انسان کوگناہوں سے باز رکھتی ہے اور طرح طرح کی برائیوں سے بچاتی ہے (12) ۔
۱۔ ” فحشاء “ او ر ” منکر “کافرق جلد ۱۱ می ں س ورہ نحل کی آیت ۹۰ کے تحت بیان کیاگیا ہے .مختصر ا یوں کہاجاسکتا ہے کہ ” فحشاء “ سے مراد مخفی گناہان کبیرہ ہیں اور منکر آشکار را گناہاں کبیرہ کی طرف اشارہ ہے . یا ” فحشا“ وہ گناہ ہیں جو قوائے شہویہ کے تحت کیے جائیں اور منکر و ہ گناہ ہے جو قوت عقلیہ کے تحت کیاجائے ۔
۲۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں (دوسری حدیث میں نہی تشریعی کی طرف اشارہ کیاگیاہے ) ۔
۳ ۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں( دوسری حدیث میں نہی تشریعی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ) ۔
۴ ۔ مجمع البیان زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
۵ ۔ مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۶ ۔ اس تفسیرکے مطابق اس مقام پراللہ فاعل ہے . لیکن گزشتہ تفسیر کے مطابق آیت میں مذکور فعل کافاعل ہے ۔
۷۔ بحار ا لاانوار ، جلد ۸۲ ، ص ۲۰۰۔
۸ ۔ وسائل اشیعہ ، جلد ۳ ، سفحہ ۷ ( باب ۲از ابواب اعداد الفرائض حدیث ۳ ) ۔
9۔ نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،جملہ۱۳۶ ۔
10 ۔ نہج البلاغہ ، وصیت ۴۷۔
11۔ نحارالانوار ، ج ۸۴ ، ص ۳۱۷تا ۳۲۰۔
12 ۔ و سائل اشیعہ ، جلد ۳ ،ص ۴۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma