ٓ اس دفعہ قرآن سورتوں کے آغاز میں
” حروف مقطعہ “ سے ہمارا چودھیں بار سابقہ
پڑرہاہے .ان میں طسم تیسری اور آخری مرتبہ ہے ۔
جیساکہ ہم نے بارہا کہاہے کہ قرآن کے حروف مقطعہ کی مختلف تفاسیر کی گئی ہیں اس
موضوع پر ہم نے سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران اورسور ہ اعراف کے آغاز میں مشرّ ح بحث
کی ہے ۔
جہاں تک
” طسم “
کاتعلق ہے مختلف روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ حرورف صفات باری
تعالیٰ کی مختصرعلامات ہیں .یا ان سے مراد مقدّس مقامات ہیں ۔
تاہم یہ امر اس معروف تفسیر کے جس پر ہم نے بار ہا زرودیا ہے مانع نہیں ہے کہ خدااس
حقیقت کوسب پر روشن کردیناچاہتاہے کہ یہ کتا ب مقدّس آسمانی جوانسان کی ارتقائی
تاریخ میں عظیم انقلاب کاسرچشمہ ثابت ہوئی اورجس میں انسان کی طرز حیات کے لیے ایک
سعادت بخش پروگرام موجود ہے ، اس کی تشکیل بھی
” الف با “ جیسے سادہ حروف سے ہوئی
ہے ہربچہ اس کے کلمات کاتلفظ کرسکتاہے یہ کتنی اہم معمولی بات ہے کہ ایسے سادہ
وسائل کی ترتیب وتنظیم کانتیجہ ایسی عظیم المرتبت کتاب ہوکہ جو سب لوگوں کی دستر س
میں ہے ۔
عالبایہی وجہ ہے کہ حروف مقطعہ کے بعد بلا فاصلا عظمت قرآن کاذکر ہے .چنانچہ
فرمایاگیاہے :
” یہ باعظمت آیات کتاب مبین کی آیات ہین “ یہ ایسی کتاب ہے کہ جوخود بھی روشن ہے
اورانسانوں کے لیے راہ سعادت کو بھی روشن کر نے والی ہے :( تلک ایات الکتاب المبین
) (3) ۔
اگر چہ کلمہ
” کتاب مبین “ بعض آیات قرآن میں مثلا سورئہ یونس کی اکسٹھویں آیت :
ولااصغر من ذلک ولااکبر الافی کتاب مبین
سورئہ ھود کی اس آیت میں :
کل فی کتاب مبین
” ؛لوح محفوظ “ کے معنٰی لے گئے ہیں لیکن یہ آیت جواس وقت زیر بحث ہے اس میں کلمہ
” آیات “ استعمال ہوااور اسی طرح اگلی آیت میں جملئہ” نتلواعلیک “ آیات ہے . ان
الفاظ کے قرینہ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہاں
”کتاب مبین “ سے مراد قرآن ہے ۔
اس مقام پرقرآن کی صفت
” مبین “ ذکر کی گئی ہے کلمہ
”مبین “ لغوی لحاظ سے لازم اور
متعدی دونوں معنٰی میں آیاہے .یعنی وہ چیز جوخود بھی واضح ہے اور اور دوسر ی شے کو
بھی آشکار کرتی ہے .چنانچہ قرآن مجید کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے روشن پیغام
اورمطالب کے ذریعہ حق کوباطل سے آشکار کرتاہے اورراہ راست کوگمراہی سے منفصل
کردیتاہے ۔
قرآن اس مختصر سے مقدمہ کے بعد موسٰی اور فرعون کی سرگزشت بیان کر تے ہوئے یوں
فرمادیتا ہے :
”ہم گروہ مبین کے لیے تجھ سے موسٰی اور فرعون کی سچی داستان کاکچھ حصّہ بیان کرتے
ہیں “ :(نتلو ا علیک من نباء موسٰی وفرعون بالحق لقوم یئومنون )۔
آیت میںحرف جا ر
”من “ استعمال ہواہے .اصطلانحومیں اسے
” تبعیضہ “ کہتے ہیں .اس کے معنٰی قدرے
یاتھوڑا ساکے ہیں .حرف
”من “ استعمال کرنے میں نہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ جو
کچھ اس مقام پر ذکر کیاجارہاہے وہ اس طویل داستان کاصرف ایک گوشہ ہے جوسبب مقام کے
لحاظ سے بیان کیاگیا ہے ۔
آیت میں کلمہ
”بالحق “ سے اس اس امر کی تاکیدہوتی ہے کہ جوکچھ یہاں ذکر کیاگیا ہے
وہ ہر قسم کی خرافات ، اباطبیل ، اساطیر اور غیر واقعی مطالب سے پا کو منزہ ہے .”
بالحق “ کے معنٰی ہیں
” تواء م باحق “
یعنی عین واقعیت ۔
کلمہ
” لقو ء م یئومنون “ یہ ایک توضیح ہے اور تاکید ہے اس حقیقت پرکہ جو اس وقت
مکہ میں جومومنین کفّار کے ظلم و ستم سہہ رہے تھے یان جیسے لوگ جوکہیں اورہوں اس
داستان کوسن کران پریہ حقیقت واضح ہوجائے کہ خواہ دشمن کی طاقط کتنی ہی زیادہ ہو
اور ان کی جمعیت ،شمار اور وسائل کتنے ہی وسیع کیوں نہ ہوں .ان کے مقابلہ میں اہل
ایمان خواہ کتنے ہی قلیل التعداد ،بظاہر کم طاقت اورا ن کے نیچے پس رہے ہوں ، انھیں
ہر گز خوف زدہ و ہراساں نہ ہونا چاہیئے .کیونکہ اس قادر مطلق کے لیے ہرچیز آسان ہے
. مومنین پر یہ امر روشن ہے کہ :
وہ خداجس نے فرعون کونابود کرنے کے لیے موسٰی کو اسی کے گھر میں پرورش دلوائی ۔
وہ خداجس نے مظلوم غلاموں کو روئے زمین کی سلطنت عطاکی . اورمغرورظالموں کوذیل و
خوار اور نابود کردت. وہ خداجس نے ایک شیر خوار بچّے کی پرشور لہروں میں حفاظت کی
اور فرعون اوراس کے لا کھوں پرزور ساتھیوں کونیل کی موجوں میں دفن کردیا ... تمہیں
بھی ان مصائب سے نجات دینے کی قدرت رکھتاہے ۔
یقینا ان آیات کے اصلی مخاطب مومنین ہی ہیں .انھیں کے لیے یہ آیات نازل ہوئی ہیں
.ان مومنین کے لیے جو ان آیات کے منشاکواپنے قلب میں جگہ دیتے ہیں اور ہجوم مصائب
میں بھی اپنی منزل مقصود کی طرف راہ رو رہتے ہیں ۔
در حقیقت یہ ایک مجمل بیان تھا آئندہ آیات میں اس کی تفصیل آتی ہے .ارشاد ہوتاہے
:فرعون نے خداکی زمین پر تکبر ، آمر یّت اورخود سری اختیار
( ان فرعون علافی الارض
)۔
حالانکہ وہ ایک ناچیز انسان تھامگر ، اس نے اپنی جہالت اورنادانی کی وجہ سے اپنی
ہستی کونہ پہچانا اوراپنی حدسے یہاں بڑھ گیا کہ خدائی کادعو یٰ کربیٹھا ۔
اس آیت میں الارض سے مراد ملک مصر اوراس کے اطراف کا اعلاقہ ہے . اور چونکہ اس
زمانہ مین زمین کا وہی حصّہ آباد ترین تھا اس لیے قرآن میںیہ کلمہ بصورت ِ عام
استعما ل کرکے خاص معنٰی مراد لیے گئے ہیں ۔
اس کلمہ کے محل استعمال سے یہ احتمال بھی ہو سکتاہے کہ
” ارض “ سے پہلے
”ال “ اس
عہدکی تخصیص کے لیے آتاہو اورزمین مصر کی طر ف اشارہ ہو ۔
بہر حال فرعون نے اپنی متکبر انہ حکومت کے استعمال کے لیے چند گناہان عظیم کاارتکا
ب کیا ۔
اوّل تواس نے یہ چال چلی کہ ساکنان مصرکے درمیان نفاق پیداکردیا
( وجعل اھلھا شیعا
) ۔
یہ وہی سیاست تھی جس کے ذریعہ جابر اور ملوکیت پرستانہ حکومتیں اپنی بنیاد کو
مستحکم کرتی رہی ہیں کیونکہ کسی اکثر یت پرکسی اقلیت کی حکومت کاپائیدار رہنا اس
وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ ” لڑاؤ اور حکومت کرو “ کے پر وگرام پرعمل نہ کرے ۔
اس قسم کی جابر حکومت کاہمیشہ
” توحید کلمہ “
سے خائف رہتی ہیں . ایسی حکومتیں عوام
میں اتفاق واتحاد کے جذ بات سے ہمیشہ ڈرتی رہتی ہے .اسی میںسمجھتی ہیں کہ حکومت
طبقاتی بنیادوں پر ہے یہی پالیسی ہے جس پر تاریخ کے پر عہداورہر زمانے کے فراعنہ
کابندر ہے ہیں ۔
البتہ فرعون نے خصوصیت سے باشندگان مصر کو دوطبقات میں تقسیم کردیاتھا .اوّل قبطی
جوملک کے اصل باشندے تھے اورملک کے تمام رفاہی وسائل ،دولت و محلّات اور کلید ی
اسامیاں ان کے اختیار میں تھیں .دوسرے سبطی یعنی مہاجربنی اسرائیل جوان قبطیوں کے
ہاتھ میں غلاموں اورکنیزوں کی طرح پھنسے ہوئے تھے ۔
ان بنی اسرائیل کایہ حال تھاکہ ایہ انتہائی فقرو ناداری میں گرفتار تھے . ان سے
نہایت سخت مشقت لی جاتی تھی مگر انھیں اس کا اجر کچھ نہ ملتاتھا .کلمہ
” اھلھا “
میںقبطی اور بنی اسرائیل دونوں شامل ہیں .اس اعتبار سے کہ بنی اسرائیل ملک مصر میں
ایک طویل مدّت سے رہتے تھے .تاکہ اینکہ وہ وہیں کے باسندے ہوگئے تھے ۔
تاریخ کہتی ہے کہ ملوک فراعنہ میں سے بعض نے اپنے لیے ایک
” ہرم “ بنانے کے لیے
لاکھ غلاموں کوبیس سال تک کام پر لگائے رکھا ( مثلا خوفو بادشاہ کامشہور ھرم
جوموجود پائیہ تخت قاہر ہ کے نزدیک ہے ) اوران میںسے ہزار ور آدمیوں کودوران کار
میں سخت کام لے کریا کوڑے مار کر قتل کردیا . بنی اسرائیل کے مصائب کااس مختصر
واقعہ سے اندازہ ہوسکتاہے . اس اجمال کی تفصیل کے لیے حد یث کی کتابوں سے رجوع
کرناچاہیئے ۔
فرعون کادوسراجرم یہ تھا کہ اس نے اس ملک کے ایک طبقہ پرظلم وقہر کے پہاڑ توڑ
کرانھیں بالکل بے دست و پا کردیاتھا اس حالت کو قرآن شریف میں یوں بیان کیا گیا ہے
:
( یستضعف طائفة منھم یذبح ابناء ھم ویستحی نسا ء ھم ) ۔
فرعون نے اس گروہ کو اتنا ضعیف اورناتواں کردیاتھا کہ ان کی اولاد نرینہ کو قتل
کردیا تھا .اوران کی لڑکیوں کو اپنی خدمت کے لئے زندہ رکھتاتھا ۔
اس نے یہ حکم دیاتھا کہ اچھی طرح خیال رکھو .بنی اسرائیل میںجو بچّہ بھی پیداہو .اگر
وہ لڑ کا ہو تو اسے اسی وقت قتل کردو .اور اگر لڑی ہوتو اسے کنیز ی اور خدمت گاری
کے لیے زندہ رکھو۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے کونسا مقصد حاصل کرناچاہتا تھا ؟
مشہور ہے کہ اس عالم خواب میں یہ دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے آگ کاایک شعلہ
بلند ہواہے جس نے مصر کے تمام گھروں کواپنی لپیٹ میںلے لیا ہے .قبطیوں کے تو تمام
گھر جل گئے ہیں مگر بنی اسرائیل کے گھر سلامت رہے ہیں . اس نے علما ء اورخواب کی
تعبیر بنانے والوں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی انھوں نے کہا :
بیت المقدس کی سرزمین سے ایک آدمی خرو ج کرے گا . اس کے ہاتھ سے فراعنہ کی حکومت
اور ملک مصر تباہ ہو جائے گا ( 4) ۔
نیز یہ بھی روایت ہے کہ بعض کاہنوں نے اس سے کہا تھاکہ :
بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جوتیر ی حکومت کو بر باد کردے گا ( 5) ۔
بالاآخر اسی سبب نے فرعون کے آمادہ یاکہ اس نے بنی اسرائیل کے نومود فرزندون
نرینہ کے
قتل کامصمّم ارادہ کرلیا ۔
بعض مفسرین نے فرعون کے آمادہ بہ تعدی ہونے کے متعلق ایک اوربھی احتمال ظاہر کیاہے
کہ :
”گزشتہ پیغمبروں نے حضرت موسٰی (علیه السلام) کی پیدائش اور ان کی خصوصیات کے متعلق
پیش گوئی کی تھی اور خاندان فراعنہ ان سے واقف ہوکر خوف زدہ رہتاتھا .اس وجہ سے وہ
لوگ بنی اسرائیل کے دشمن ہوگئے (6)۔
لیکن
” یذبح ابناء ھم “ کاجملہ جو
’‘یستضعف طائفة منھم “ کے بعد آیاہے ، ا سے ایک
اور مفہوم بھی مترشح ہوتاہے .وہ یہ کہ حکومت فرعون نے بنی اسرائیل کوقوی حیثیت سے
کمزور اور ناتواں کرنے کے لیے یہ پالیسی اختیار کی تھی. تاکہ ان کی لڑکیوں کوکہ جن
میں بغاوت اورجنگ کی طاقت نہیں ہوتی ، اپنی خدمت کے لیے زندہ رکھے ۔
قول بالاکی تائید
” سورئہ مومن “ کی آیت نمبر پچیس سے ہوتی ہے اس سے یہ معلوم
ہوتاہے کہ عہدفرعون میں اولاد ذکورکو قتل کرنے اورلولاد اناث کوزندہ رہنے دینے
کاطرز عمل حضرت موسٰی (علیه السلام) کے دعویٰ نبوّت کے بعد بھی جار ی ر ہا .آیت
یوں ہے
( فلماجاء ھم بالحق من عند نا قتلو اابناء الذین امنوا معہ واستحیوں انساء
ھم کید الکفرین الافی ضلل ) ۔
پس جب موسٰی ہمارے پاس سے حق لے کر ان کے پاس پہنچا تو انھو ں نے کہاکہ ان لوگوں کے
لڑکوں کوجو موسٰی پر ایمان لائے ہیںقتل کردو اوران کی عورتوں کو زندہ رہنے دولیکن
کافروں کی تدبیر یں ہمشہ گمراہی میں رہیں گی ۔
آیہ زیر بحث کاجملہ
” یستحی نساء ھم “( ان کی عورتوں کوزندہ رہنے دو ) یہ واضح
کرتاہے کہ فرعون کاعوتوں کی بقائے حیات پراصرار یاتو ان سے خدمت لینے کے لیے تھایا
جنسی ہوس رانی کے لیے ۔
آیہ کے آخر ی کلمات میں بطور مجموعی اور بیان علّت کے طور پر فرمایاگیا ہے : بطور
مسلّم وہ مفید وں میں سے تھا
(انہ کان من المفسدین ) ۔
فرعون کے اعمال کاخلاصہ فرف ان الفاظ میں کیاجاسکتاہے کہ ” اس کاکام روئے زمین
پرفساد کرنا تھا “
اپنے آپ کومخلوق سے بر تر سمجھنا ایک فساد تھا .دوسرا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر
میں طبقاتی زندگی پیداکردی تھی .بنی اسرائیل کورنج وعذاب میں مبتلا کرنا ،ان لڑکوں
کو قتل کرنا اوران کی لڑکیوں کوکنیز یں بنانا تیسرافساد تھا .ان کے علاوہ بھی بہت
سے مفاسد اور برائیاں تھیں ۔
یہ امر قدرتی ہے کہ خود پرست اورجاہ پسند لوگ صرف اپنی ذاتی منفعت کے تحفظ کاخیا ل
رکھتے ہیں . اور یہ کبھی نہیںہوسکتاہے کہ شخصی منافع کاخود غرضانہ تحفظ ،انسانی
معاشرہ کے مفاد کے تحفظ (جس کے لیے عدالت ،قربانی اورایثار کی ضرورت ہے ) سے ہم
آہنگ ہو . خود غرضی کانتیجہ پر شعبئہ زندگی میں بصورت فساد نمودار ہوتاہے ۔
آیت کلمہ
” یذبح “ استعمال ہواہے جو”ذبح “ سے مشتق ہے اس سے ثابت ہے کہ آ ل فرعون
کاسلوک بنی اسرائیل کے ساتھ ایساتھا جیساکہ بھیڑوں اور چوپایوں کے ساتھ ہو .یعنی وہ
ظالم ان بے گناہوں کو حیوانات کی طر ح ذبح کرتے تھے ( 7 ) ۔
وابسگان فرعون کی سفاکیوں کے متعلق بہت سے قصّے بیان کیے گئے ہیں . بعض ہیں کہ :
فردعون نے حکم دیاتھا کہ بنی اسرائیل کی حاملہ عورتوں کی نگرانی کی جائے اورصرف
قبطی اورفرعون کی نامزددائیاں ہی واضع حمل میں مدد کریں . تاکہ اگر طفل نواز
دلڑکاہوتو فوراً مصر ی حکومت کے دفتر میں اطلاع دیں .تاکہ آئیں اوراسے ذبح کردیں (
8)۔
یہ قطعی واضح نہیں ہے کہ کتنے نومولود بچےّ اس پروگرام کے مطابق قربان کہے گئے .بعض
لوگوں نے ان کی تعداد نوّے ہزار اور بعض نے لاکھون لکھی ہے .فرعون اوراس کے ہواخواہ
یہ خیال کرتے تھے کہ وہ ان ہولناک مظالم کے ذریعے قوم بنی اسرائیل کے قیام اور مشیت
الہٰی کے پور ا ہونے کی راہ مسدود کردیں گے ۔اس آیت کے بعد بلا فاصلہ یہ بیان
کیاگیاہے : ہمارے ارادہ اورہماری مشیّت نے یہ طے کیاہے کہ زمین پرجو ضعیف الحال
اورمظلوم ہیں ہم ان پراحسان کریں اور انھیں اپنی عنایت اور نواز شات سے سر فراز
کریں :
( ونریدان نمن علی الذین استضعفوافی الارض ) ۔
اور ہم ان کونوع انسانی کے پیشوااورر و ئے زمین کاوارث نبادیں :( ونجعلھم ائمة
ونجعلھم الورثین )۔
ہم ان کوقوی ،صاحب قدرت اورتواناکردیں گے اوران کی حکومت کوثبات بخش گے :
( و نمکن
لھم فی الار ض )۔
اور ہم فرعون ،ھامان اوراس کی فوج کواسی انجام سے دو چار کریں گے جس کاانھیں ان
کمزور لوگوں کی طرف ے خطرہ لگا رہتاہے :
( ونری فرعون وھامان وجنودھما منھم ماکانوا
یحذرون )۔
یہ دونوں آیات کس قدر اپنے مطالب میں واضح اورامید بخش ہیں کیونکہ ان آیات میںجو
بھی امید افزاوعدہ ہے وہ ایک قانون کلی کی شکل میں ، فعل مضارع کے ساتھ بیان ہواہے
جس میں استمرار کامفہوم شامل ہے .تاکہ ان مومنین کو(جو قرآن کے مخاطب ہیں ) یہ
تصّور نہ ہو کہ وعدہ صرف بنی اسرائیل کے ظلم کشیدہ اورستم دیدہ لوگوں کے لیے ہے
اوریہ وعیدہ مخض فرعون اوراس کے ساتھیوں کے لیے ہے .کیونکہ قرآن میںیہ الفاظ ہیں
کہ ” ہم ایساکر نا چاہتے ہیں “
یعنی فرعون کاارادہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو تباہ وبرباد کر دے اور ان کی قدرت و
شوکت کونابود کر کے رکھ دے لیکن ” ہم یہ چاہتے تھے کہ وہ قوی اور کامیاب ہو “۔
و ہ چاہتاتھا کہ حکومت ہمیشہ مستکبر ین کے قبضے میں رہے .لیکن ہم نے ارادہ کرلیا
تھا کہ حکومت کمزور وں اور مستضعفوں کے سپر د کردیں اور آخرلار ایسا ہی ہو ا ۔
اس مقام پرکلمہ
” منت “ جیساکہ ہم نے اس سے قبل بھی کہاہے
” نعمات اور عطایا “ کے
بخشنے کے معنٰی میںہے منّت کے یہ معنٰی اس مفہوم سے مختلف ہیں جو اس کا روز مرہ کی
بول چال میں لیاجاتاہے یعنی کسی کوکچھ دے کے اس پراحسان کرنا . اس مفہوم میںطرف
ثانی کی تحقیر ہوتی ہے جویقینا مذموم ہے ۔
ان دو آیتوں میںخدانے کمزور وں اورپسے ہوئے لوگوں کے بارے میں اپنے ارادے کوبے
نقاب کیاہے اوراس ضمن میںپانچ باتوں کاذکر کیاہے جوباہم مربوط اورمتعلق بیک دیگر
ہیں :
اول یہ کہ : ہم چاہیتے ہیں کہ وہ ہماری نعمتوں سے فیض یاب ہوں
( ونر ید ان نمن ...)
۔
دوسرے یہ کہ : ہم چاہیتے ہیں کہ انھیں پیشوابنائیں :( ونجعلھم ائمة ) ۔
تیسرے یہ کہ : ہم چاہتے ہیں کہ انھیں جابروں اورستمگاروں کی حکومت کاوارث بنادیں :
( ونجعلھم والوارثین ) ۔
چوتھے یہ کہ : ہم انھیں ایک مستقل اورپائیدار حکومت دیں گے :
( ونمکن لھم فی الارض
)۔
آخری اور پانچویں بات یہ ہے کہ : وہ پیش آمد جس کا ان کے دشمنوں کوخوف تھا
اوراپنی تمام قوتوں اوروسائل کواس کے ٹالنے پر صرف کررہے تھے ،ہم اس حادثے سے انھیں
ضروردوچارکریں گے ۔
(ونر ی فر عون وھامان و جنودھما منھم ماکانوا یحذرون )
۔
ستم دید ہ اورمظلوم لوگوں پرخداکی عنایات والطاف اسی طرح نازل ہوتے ہیں .لیکن وہ
کون لوگ ہیں ؟ اوران کی صفات کیا ہیں ؟ آئندہ نکات کی نحث میں ان شااللہ ہم ان
پرتفصیلی گفتگو کرین گے ۔
ھامان فرعون کامشہور و معروف وزیر تھا اور فرعون کی حکومت میں اس کااتنا اثر تھا کہ
آیت مذکورئہ بالا میں ملک مصر کی فوج کی
” جنود فرعون وھامان “ کہاگیا ہے ۔
(ھامان کے متعلق آیت ۳۸ کی تفسیر میںتشریحا بیان کیاجائے گا )۔
۱۔تفسیر مجمع البیان درآغاز سورہ قصص ۔ ۲۔ تفسیر نواثقلین سورئہ قصص کے آغاز میں ، بحوالہ ثواب الاعمال ۔ 3۔ ” تلک “ اسم اشارہ دور کے لیے ہے . جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں اس سے ان آیات کی عظمت مراد ہے ۔ 4۔ تفسیر مجمع البیان .جلد ۷ صفحہ ۲۳۹ . فخررازی ۔ 5۔تفسیر مجمع البیان . جلد ۷ صفحہ ۲۳۹ .فخر رازی ۔ 6۔تفسیر کبیر فخر رازی . ذیل آیت مورد بحث ۔ 7۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ ” ذبح “ کامادہ فعل ثلاثی مجرد میں متعدی ہے .لیکن اس مقام پروہ باب تفعیل میں استعمال ہواہے کہ کثرت کے مفہوم کوظاہر کرے .نیز یہاں فعل مضارع کااستعمال اس جر کے استمرار کی دلیل ہے ۔ 8۔ تفسیر کبیر از فخر رازی زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔