ہجرت کرنی چاہیئے :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16
گزشتہ آیا ت میں یہ ذکر تھا کہ مشرکین نے اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں کیاکیامختلف مواقف اختیار کیے مگر زیربحث آیات میں خود مسلمانوں کی حالت بیان کی گئی ہے یعنی ان مشکلات کی حالت میں جو مسلمانوں کوکفار کے نرغے میں ان کی طرف سے اذیت و آزار کی صورت میں پیش آرہی ہیں ،مسلمانوں کا کیافرض ہے ۔
خداوند عالم فرماتاہے : ا ے میرے بندو کہ جو ایمان لائے ہو اوردشمنان اسلام کے نرغے میں فر ائض دینی ادا نہیں کرسکتے ، تومیری زمین وسیع ہے .تم دوسرے مقام کو ہجرت کرجاؤ اوردہاں میری عبادت کرو : ( یاعبادی الذین امنو ان ارضی واسعة فایای فاعبدون ) ۔
یہ امر بدیہی ہے کہ یہ حکم اس زمانے کے صرف مومنین مکہ ہی کے لیے مخصوص نہ تھا اورآیت کی شان نزول اس کے وسیع اوردراز دامن معنی کوجو قرآن کی دوسری آیات سے ہم آہنگ ہے محدود نہیں کرتی ۔
اس جہت سے یہ آیت ایک اصولی کلی کی حامل ہے کہ جس زمانے میں اورجس معاشرہ و مقام میں مسلمانوں کی آزادی کاملاسلب ہو جائے ، وہاں رہنے سے ذلت و خواری کے سوا کچھ حاصل نہ ہو اوروہاں رہ کر الہٰی پروگرام پرعمل نہ ہو سکے تو مسلمانوں کافرض ہے کہ وہاں سے ایسے مقامات کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں وہ مطلق آزادی یانسبتاآزادی کے ساتھ اپنے فرائض دینی اداکرسکیں ۔
بہالفاظ دیگر ... آفرینش انسان کامقصودخداکی عبادت ہے . وہ عبادت جس میں زندگی کے ہر میدان میں انسان کی آزادی ،سرفرازی اور کامیابی کاراز مخفی ہے . ” فایای فاعبدون “ میں اسی طرف اشارہ کیاگیاہے .نیز سورہ ذاریات کی آیت ۵۶ میں یہ الفاظ آئے ہیں ۔
وماخلقت الجن و النس الالیعبدون
جب یہ بنیا دی اورآخری مقصد انسانکے پیش نظر ہوتو ہجرتکے سوا اورکوئی راہ نہیں ر ہتی .خدا کی زمین وسیع ہے .اس لیے کسی اورجگہ قدم رکھناچاہیئے . ایسے مواقع پرقبیلہ و قوم ،وطن اورگھربار کے تعصبات میں مقید رہ کرکسی قسم کی ذالت کوبرداشت نہیں کرنا چاہیئے .کیونکہ ان چیزوں کااحترام اسی وقت تک جائز ہے جب تک مقصودحقیقی کوکوئی خطرہ نہ ہو ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے ایسے ہی مواقع کے لیے فرمایاہے:
لیس بلد باحق بک من بلد خیر البلاد ماحملک
تیرے لیے کوئی شہر بھی دوسرے شہر سے بہتر نہیں ہے . بس بہترین شہروہی ہے جوتجھے قبول کرلے اورتیری ترقی کے اسباب فراہم کردے (۱) ۔
یہ مسلم ہے کہ حب وطن اوراپنی جائے ولادت سے ذہنی تعلق انسان کی شرشت میں داخل ہے . مگر زندگی میں کبھی ایسے مسائل بھی پیش آجاتے ہیں کہ یہ چیز یں حقیر اوربے مقدار ہوجاتی ہیں ۔
ہجرت کے متعلق اسلام کانقطہ ٴ نظر کیاہے . اس سلسلے میں جو روایات ہم تک پہنچی ہیںہم نے انھیں سورہٴ نساء کی آیت ۱۰۰ کے تحت جلد چہار م میں بیان کیاہے ۔
خدانے اپنے بندو ں کو یا” عبادی “ کہاہے . یہ اس کی طرف سے نہایت ہی محبت آمیز خطاب ہے . درحقیقت یہ انسان کے لیے تاج افتخار ہے جومقام رسالت سے بھی برترہے . جیساکہ تشہد میں ہمیشہ ” عبد “ کو شہادت رسالت سے پہلے ادا کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں :
” اشھد ان محمد اعبدہ ورسلہ “
یہ امر جالب توجہ ہے کہ جب خدا نے آدم کو پید اکیاتو اسے ” خلیفة اللہ “ کے لقب سے عزت بخشی . مگر شیطان پھربھی اسے بہکانے سے مایو س نہ ہوا . وہ آدم کے پاس آیااورپھرجو ہوناتھا وہ ہوا . مگرخدا نے آدم کومقام عبودیت پر سرفراز کیاتو شیطان نے اس کے مقابلہ میں ہارمان لی اورکہا :
فبعزتک لاغو ینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین
مجھے قسم ہے تیری عزت کی کہ میں تمام فرزندان آدم کو نہکاؤں گا .مگران میں سے تیرے مخلص بندوں کو نہیں بہکاسکتا ۔( قصص .۸۲ . ۸۳ )
ان عبادی لیس لک علیھم سلطان
تو ہرگز میرے بندوں پر تسلط حاصل نہ کرسکے گا ۔( حجر . ۴۲)۔
اس بناء پر عبودیت خالص کامقام زمین پر خلافت الہٰی کے مقام سے بھی برتر و بالاتر ہے ۔
ہم نے جوکچھ کہااس سے یہ خوب واضح ہوتاہے کہ آیت زیربحث میں کلمہ ” عباد “ سے تمام انسان مراد نہیں ہیں بلکہ صرف وہ انسان مراد ہیں جو مومن ہیں اور آیت میں جملہ ” الذین امنوا“ تاکید اورتوضیح کے لیے استعمال ہوا ہے (۲) ۔
چونکہ ... وہ لوگ جو مشرکین کے شہروں میں رہتے تھے . اورہجر ت کے لیے آمادہ نہ تھے، ان کے دیگر عذروں میں سے ایک یہ تھاکہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے شہرو ں سے نکل جائیں اوردشمنوں کی طرف سے موت یابھوک اوعردیگر خطرات سے دوچار ہوجائیں . علاوہ ازیںہم اپنے خویش و اقارب ، اولاد اورشہرودیار سے جدائی کے غم میں مبتلاہوجائیں ۔
قرآن میں ان کے خطرات کا ایک جامع جواب دیاگیا ہے : آخر کارسب انسانوں کا انجام موت ہے اورہرشخص موت کامزہ چکھنے گا . پھرتم ہمار ی طرف لو ٹ آؤ گے : ( کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون ) ۔
یہ جہان کسی کے لیے بھی ” دار البقا“ نہیں ہے . یہاں سے بعض لوگ جلد اور بعض دیر میں چلے جائیں گے.بہر حال ہر شخص کودوستوں ،اعزاو اقارب اور اولاد کی جدائی کاصدمہ سہنا ہے .توپھر انسان ان زود گزر مسائل کے لیے شرک اور کفر کی آبادی یوں میں ر ہ کرکیوں ذلّت و قید کو برداشت کرے ؟ کیاصرف اس لیے کہ چند روز اورزندہ رہ جائے ؟
ان سب باتوں کے علاوہ ڈر نا اس بات سے چاہیئے کہ قبل اس کے کہ تم ایمان و اسلام کی زمین میں پہنچو تمہیں شرک و کفر کی جگہ موت آجائے . سوچوکہ ایسی موت کتنی خوفناک اوردرد ناک ہے ۔
پھر یہ بھی گمان نہ کرو کہ موت ہی ہر چیز کی انتہاہے .موت تو درحقیقت انسان کی اصلی زندگی کاآغاز ہے . کیونکہ تم سب ہماری طرف لوٹ آؤ گے . یعنی خدائے بزرگ اوراس کی بے پایاں نعمتوں کی طرف ۔
اس کے بعد کی آیت میں ،چند نعمتوں کااس طرح ذکر ہے :
جولوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح انجام دیے ، ہم انھیں بہشت کے بالاخانوں میں جگہیں دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی : ( والذین امنو ا و عملوا الصالحات لنبوئنھم من الجنة غرفا تجری من تحتھا الانھار ) (۳) ۔
وہ لوگ ایسے محلات میں سکونت اختیار کریں گے جنہیں ہر طرف سے جنت کے درخت گھیر ے ہوں گے اورطرح طرح کی نہریں ، جن کے پانی کاذائقہ اور اس کامنظر مختلف ہوگا . جیساکہ قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہے ، درختوں کے جھرمٹ میں سے نکل کر ان محلات کے نیچے رواں ہوں گی ۔
یہ ملحوظ رہے کہ ”عرف “ جمع ہے ” غرفہ “ کی اس کے معنی ہیں : بلند بالاخانہ کہ جواپنے اطراف سے ممتاز ہو ۔
بہشتی بالا خانوں کاامتیاز یہ ہے کہ وہ دنیا وی مکانات اورمحلات کے مانند نہ ہو ں گے کہ جن میں انسان تھوڑی دیر بھی آرام نہیں کرپاتا کہ کوچ کانقارہ گونجنے لگتا ہے بلکہ اہل ایمان اورصالحین ان میںہمیشہ رہیںگے : ( خالدین فیھا ) ۔
آیت کے اخیر میں یہ اضافہ کیاگیا ہے : کیا اچھااجر ہے ان لوگوں کاجو صرف خوشنودیٴ خداکے لیے عمل کرتے ہیں : ( نعم اجر العاملین ) ۔
اس آیت میں مومنین اورصالحین کے اجر کے کا جوذکر ہے اس سے گزشتہ آیات میں کفار اورگناہ گاروں کے متعلق جو کچھ کہاگیا ہے اگر سادہ موازنہ بھی کیاجائے تومومنین اور صالحین کے اجر کی عظمت روشن ہو جاتی ہے ۔
گزشتہ آیات کے مضمون میں کفار کے آگ اورایسے عذاب میں مبتلا ہونے کاذکر تھا کہ جس نے انھیں سرسے پاؤں تک گھیر ہوا ہے . اوران سے بطور سرزنش یہ کہاجاتا ہے کہ تم جوکچھ کرتے تھے . اب اس کا مزہ چکھو . لیکن یہ آیت کہتی ہے کہ مومنین نعمات بہشتی میں غوطہ درہیں اور رحمت پروردگار ہرطرف سے ان کااحاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ملامت بارجملوں کے بجائے ایسے کلمات سنتے ہین جن سے سراسر خدا وند کریم کے لطف و محبت کااظہار ہوتا ہے .ان سے کہاجاتاہے : ” عمل کرنے والوں کااجر کتنا اچھاہے “ !
ظاہرہے کہ ” عاملین “ جملہ ہائے ماقبل کے قرینے کے مطابق وہ لوگ ہیں جن سے یہ کیفیت ایمان عمل صالح سرزد ہوتاہے .ہر چند کہ کلمہ ” عاملین “ اپنے لغوی معنی میں محدود نہیں ہے بلکہ مطلق ہے ۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے :
ان فی الجنة الغرفایری ظھور ھا من بطونھا، و بطونھا من ظھور ھا ۔
بہشت میں ایسے شفاف محلّات ہیں کہ ان کے اندر کے حصہ باہر سے اورباہر کامنظر اندرسے نظر آتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمایا توایک شخص کھڑا ہوااورعرض کی :
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ محلّات کس کی ملکیت ہوں گے :
آنحضرت (ص) نے جواب دیا :
ھی لمن اطاب الکلام و اطعم الطعام وادام الصیام وصلی اللہ باللیل والناس نیام
یہ محلّات اس شخص کے لیے ہیں جو اپنی گفتگو کوپاکیز ہ کرے ، بھوکوں کوکھانا کھلائے ، بکثرت روز ے رکھے اوروقت شب جب سب لوگ محو خواب ہوں تو وہ اللہ کے لیے نماز پڑھے (۴) ۔
اس کے بعد کی آیت مومنین عامل کے اہم اوصاف کوبیان کرتی ہے . یعنی : یہ وہ لوگ ہیں جو مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت کااظہار کرتے ہیں اوراپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں : ( الذین صبرو او علی ربھم یتوکلون ) ۔
یہ لوگ اپنے بیوی بچوں ، دوستوں ، عزیزوں اور گھر بارسے جدا ہوتے ہیں اورصبرکرتے ہیں ۔
یہ مومنین غربت کی تلخیاں ،وطن سے نکل کر بے وطنی سختیاں سہتے ہیں اورصبرکرتے ہیں ، اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے دشمنوں کے آزار کو جان و دل سے برداشت کرتے ہیں اورپنے نفس سے جہاد کی راہ میں،جو جہاد اکبر اورا پنے سے قوی دشمنوں سے لڑائی میں جو کہ جہاد اصغر ہے ، طرح طرح کی مشکلات برداشت کرتے ہیں اورصبر کرتے ہیں ۔
بے شک اورصبرو استقامت ہی میں ان کی کامیابی کاراز ہے اور یہی ان کے شرف کاباعث ہے . کیونکہ صبرو استقامت کے بغیر زندگی میں کوئی تخلیقی اور مثبت عمل نہیں ہو سکتا ۔
علاوہ بریں وہ مومنین نہ اپنے مال و دولت پربھروسہ کرتے ہیں ، نہ اپنے دوستوں اورعزیزوں پر . ان کا توکل صرف خداپر ہے اورصرف اسی پر بھرورسہ کرتے ہیں . اگر ایک ہزار دشمن بھی انھیں ہلاک کرنے کاارادہ کریں تووہ یہ کہتے ہیں :
اے خدا ! اگرتومیرادوست ہے تومجھے دشمنوں سے کچھ خوف نہیں ۔
اگر ہم سچ مچ غور کرین توصبر توکل ہی جملہ فضائل انسانی کی جڑ ہے . ” صبر “ انسان کوموانع اورمشکلات کے مقابلے میں استقامت بخشتا ہے اور ” توکل “ اس راہ پرنشیب و فراز میں انسان کو آمادہ نہ عمل رکھتا ہے . درحقیقت اعمال صالح انجام دینے کے لیے ان دو فضائل اخلاقی یعنی صبروتوکل سے مدد لینی چاہیئے . کیونکہ صبر و توکل کے بغیر وسیع پیمانے پراعمال صالح کاانجام دینا ممکن ہی نہیں ہے (۵) ۔
زیربحث آیات میں سے آخری آیت میں ان لوگوں کے شکوک وشبہات کاجواب ہے جواپنی زبان قال یازبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ : اگر ہم اپنے شہر سے ہجرت کریں گے توہمیں روزی کون دے گا . قرآن میں ان کے اس خوف کا یہ جواب دیاگیاہے : تم روزی کی فکر نہ کرو اورذلت واسارت کے عیب و عار کو برداشت نہ کر و ... روزی رساں خداہے نہ کہ تم بلکہ زمین پر چلنے والے بہت سے جاندار ایسے بھی ہیں جو اپنا رزق اٹھا نہیں س کتے اور نہ اپنے گھونسلوں اور بلوں میں عذاکاذخیرہ کرتے ہیں اورہر روز انہیں روز کی طلب ہوتی ہے مگرخداانہیں بھوکا نہیں
چھوڑ تا اورانہیں رزق دیتاہے . وہی خدا تمہیں بھی رزق دے گا : ( و کاین من دابة لاتحمل رز قھااللہ یرزقھاو ایاکم ) ۔
انسان سے قطع نظر زمین پر حرکت کرنے والوں اورحیوانات و حشر ات میں ، بہت ہی کم ایسی انواع ہیں جو چیو نٹیوں اورشہد کی مکھیوں کی طرح اپنی عذاصحرو بیابان سے لاکر اپنے بل یاچھتے میں ذخیرہ کرتی ہوں . اکثر مخلوقات ” قانع الیوم “ ہیں . یعنی وہ ہرروز اپنے لیے تازہ رزق حاصل کرتی ہیں . اور جو کمایاسو کھایا کے طرزعمل پرزندگی گزارتی ہیں .اس قسم کی کروڑوں مخلوقات ہمارے اطرافاو جوانب میں دور و نزدیک ، بیابانوں ، سمندروں کی گہرائیوں ،پہاڑوں کی بلندیوں اوردردں میں موجود ہیں . یہ سب اپنے پروردگار کے خوان بے دریغ سے اپنا رزق کھاتے ہیں ۔
لہذا ... تواے انسان جوکہ ایسی مخلوق کے مقابلہ میں اپنی روزی حاصل کرنے اوراسے ذخیرہ کرنے کے لیے زیادہ باہوش اورتوانا ہے ، اپنی قطع روزی کے خوف سے ایسی مکروہ اور شرمناک زندگی سے کیوں چمٹا ہوا ہے ؟ اوردنیا میں ہرقسم کے ظلم و ستم اورذلت و خواری کو کیوں برداشت کرتاہے ؟ تو ابھی اس تنگ وتاریک زندگی کے دائرہ سے باہر نکل اور اپنے پروردگار کے وسیع ودستر خوان پر بیٹھ اور روزی کی فکر نہ کر ۔
اس حالت میں جب کہ تواپنی ماں کے شکم میں ایک ناتوان جنین کی شکل میں تھا اورکوئی شخص بھی یہاں تک کہ تیرے باپ اورتیری مادر مہر بان کادست شفقت بھی تجھ تک نہ پہنچ سکتاتھا ، تیر ے خدانے تجھے فراموش نہیں کیااورجس چیز کی تجھے ضرورت تھی وہ بہم پہنچائی .اس وقت توتو ایک توانا او ر طاقتور وجود ہے .نیز چونکہ حاجت مندوں کو روزی پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ روزی رساں ان کی ضرورت سے آگاہ ہو ، اسی لیے آیت کے آخر میں : ( وھو السمیع العلیم ) فرمایاگیا ہے ۔
یعنی وہی سننے والا اورجاننے والاہے ۔
وہ تم سب کی باتیں سنتاہے یہاں تک کہ تمہاری اورتمام حرکت کرنے والے جاندار وں کی زبان حال کو بھی سنتا اور جانتا ہے ، تم سب کی ضرورت سے خوب آگاہ ہے اورکوئی چیز اس کے بے پایاں علم سے پنہاں نہیں ہے ۔
۱ ۔ نہج البلاغہ ،کلمات قصار ، کلمہ نمبر۴۴۲۔
۔ ” فایای فاعبدون “ کاجملہ درحقیقت جزائے جملہ شرطیہ پرعطف ہے جو محذوف ہے اورجملہ مقدّر یہ ہے : ۲
ان ضاقت بکم الارض فاھجرو وامنھاالی الاخری وایای اعبدون ۔
۳ ۔ ” لنبوئنھم “ کامادہ تبوئہ ( بروزن تذکرہ ) ہے اس کا معنی ہے ، بغرض بقائے دوام کس کو سکونت دینا ۔
۴ ۔ تفسیرقرطبی،ذیل آیت زیر بحث ، جلد۷ صفحہ ۷۵،۵۰۔
۵۔ توکل کی حقیقت اوراس کے فلسفہ کے بارے میں مفصل بحث جلد ۱۰ میں سورہٴ ابراہیم کی آیت ۱۲ کے ذیل میں مذکور ہے اور صبرکے بارے میں جلد ۱۰ صفحہ ۱۶۷ ،اور جلد ۶ میں صفحہ ۲۶۴ ( اردو ترجمہ ) دیکھئے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma