گفتگو کاتتمہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

گزشتہ آیات میں مشرکین کاذکر تھ. ان آیات میں ان سوالات کے بارے میں گفتگو تھی جو ان سے کیے گئے تھے . زیر نظر آیات اسی گفتگو کاتتمہ ہیں ۔
پہلے ان کے معبود وں کے بارے میں سوال تھا . اس کے بعد مرسلین کے ساتھ ان کے سلوک سے متعلق ہے . ارشاد ہوتاہے : اس دن کاسوچو جس دن اللہ انہیں پکارے گااور کہے گا ، تم پیغمبروں کوکیا جواب دیاتھا :
( و یوم ینادیھم فیقول ماذااجبتم المرسلین ) ۔
پہلے سوال کی طرح یقنیا اس سوال کابھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں . اگر وہ یہ کہیں کہ ہم نے ان کی دعوت کو قبول کیاتھا . یہ جھوٹ ہے اور اس میدان میں جھوٹ نہیں چل سکت.اور اگروہ یہ کہیں کہ ہم نے ان کی تکذیب کی تھی ، ان پر تہمتیں دھریں تھیں ،انہیں جادو گرکانام دیاتھا ، انہیں دیوانہ کہاتھا ،ان کے خلاف مسلح جنگ کی تھی اور انہیں اور ان کے پیرو کاروں کوقتل کیاتھا ... تو یہ بھی ان کی بدبختی اور رسوائی کاباعث ہے ۔
وہاں تو یہ عالم ہوگا کہ اللہ کے عظیم نبیوں سے جب سوال ہوگا .کہ لوگوں نے تمہاری دعوت کاکیا جواب دیاتھا .تووہ کہیں گے :
تیرے علم کے سامنے تو ہمارا علم کچھ بھی نہیں تو تو علّام لغیوب ہے .( مائدہ . ۱۰۹) ۔
ایسے عالم میں یہ کورد ل مشرک کیاجواب دے سکتے ہیں ؟
اسی لیے اگلی آیت میں فر مایاگیا ہے : ” اس وقت تمام خبریں ان سے پردہٴ اخفامیں ہوں گی “ اور جواب دینے کے لیے کچھ بھی ان کے پاس نہ ہوگا .( فعمیت علیھم الا نباء یومٴذ ) یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے بھی کچھ پوچھ نہ سکیں گے “ اور نہ کسی کا کچھ جواب سن پائیں گے .( فھم لایتساء لون ) ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالاآیت میں ” معی “ یعنی اندھے پن کے نسبت خبروں کی طرف دی گئی ہے نہ کہ خود ان کی طرف .قرآن یہ نہیں کہتاکہ ” وہ اندھے ہوجائیں گے “ بلکہ کہتاہے : ” خبریں ایسی ندھی ہوں گی کہ انہیں تلاش نہ کرپائیں گی کیونکہ بساایساہوتاہے . کہ انسان خود کسی چیز سے باخبرنہیں ہوتا لیکن ایک منہ سے دوسرے کی طرف گردش کرتی ہوئی خبراس تک پہنچ جاتی ہے . معاشرے میں بہت سی خبریں یونہی پھیلتی ہیں لیکن اس جہان میں نہ تو یہ لوگ آگاہی رکھتے ہوں گے . اور نہ ہی پھیلنے کی صلاحیت ۔
ا س طرح تمام خبریں ان سے پوشیدہ رہیں گی .جب ان سے پوچھاجائے گا کہ تم نے ان مرسلین کوکیاجوا ب دیاتھا . توان سے کوئی جواب نہ بن پائے گا اوروہ سراپاسکوت بن جائیں گے ۔
قرآن کی روش یہ ہے . کہ وہ ہمیشہ کافروں اور گنہگاروں پر لوٹ آنے کے راستے کھلے رکھتاہے .تاکہ وہ گناہ کے کسی بھی مرحلے سے راہ حق کی طرف پلٹنا چاہیں توان کے لیے گنجائش موجود ہو . اسی لیے اگلی آیت میں مزید فرمایاگیاہے . البتہ جوشخص توبہ کرلے ، ایمان لے آئے اورعمل صالح بجالائے امید ہے .کہ فلاح یافتگان میں س ے ہوجائے . ( فامامن تاب وامن وعمل صالحا فعسی ان یکون من المفلحین ) ۔
لہذا تمہارے لیے راہ نجات ا ن تین اقدامات میں ہے :
۱ ۔ خداکی طرف باز گشت
۲۔ ایمان
۳۔ عمل صالح
اس کے بعد یقینا فلاح و نجات ہے ۔
”عسٰی “ (امید ہے ) ... اگرچہ جوشخص ایمان و عمل صالح کاحامل ہواس کے لیے فلاح یقینی ہے لیکن یہاں ممکن ہے یہ تعبیراس لیے ہوکہ فلاح اس حالت کے تسلسل سے مشرو ط ہے . اور چونکہ ضرور ی نہیں کہ ہر توبہ کرنے والا اپنی اس حالت پرباقی رہے اس لیے یہاں یہ لفظ لایاگیا ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے کہ جب ” عسٰی “ کی تعبیرکسی ذات کریم سے صادر ہوتو اس میں قطعی اور یقینی ہونے کامفہوم پنہاں ہوتاہے جب کہ اللہ تو اکرم الا کرمین ہے ۔
بعد والی آیت درحقیقت نفی شرک اور مشرکین کے بطلان کی دلیل ہے .ارشاد ہوتاہے :تیرارب جس چیز کوچاہتاہے خلق کرتاہے اورجسے چاہتاہے چن لیتاہے ( وربک یخلق مایشاء ویختار ) ۔
تخلیق اس کے ہاتھ میں ہے تدبیر و اختیار اور انتخاب بھی اسی کے ارادے پر منحصر ے ” وہ اس کے مقابلے میں کوئی اختیار نہیں رکھتے “ ( وکانا لھم الخیرة )(1)۔
خلق کرنے کااختیار اسے حاصل ہے ، اختیار شفاعت کاحامل وہ ہے اور انبیاء و مرسلین بھیجنے کااختیار اسی کے پاس ہے ... خلاصہ یہ کہ تمام چیزوں کااختیار اس کی ذات پاک کے اراد ے سے وابستہ ہے کیونکہ بتوں سے توکچھ ہوہی نہیں سکتاجب کہ فرشتہ اور ا نبیاء بھی اس کی اجازت سے کچھ کرسکتے ہیں ۔
بہر حال یہاں اختیار کااطلاق اس کی عمومیت کی دلیل ہے یعنی اللہ امور تکوینی میں بھی صاحب اختیار ہے اور امور تشریعی میں بھی ... دونوں کاسرچشمہ اس کا مقام خالقیت ہے ۔
جب صورت حال یہ ہے تو پھروہ کیونکر راہ شرک پرچلتے ہیں اور غیرخدا کی طرف کس طرح جاتے ہیں ۔
اسی لیے آیت کے آخرمیں فرمایاگیاہے : اللہ ان شرکاء سے منزہ و برتر ہے جن کے وہ قائل ہوتے ہیں .( سبحان اللہ وتعالیٰ عما یشرکون ) ۔
اہل بیت علیہم السلام کے حوالوں سے پہنچنے والی روایات میں بتایاگیا ہے کہ مذکورہ بالاآیت میں مذکورہ اختیار ، انتخاب اور چناؤ خدا کی طرف سے امام معصوم .علیہ السلام  کے انتخاب کی طرف اشارہ ہے .نیز ” ماکان لھم الخیرة “ ( لوگوں کو ا س سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ) سے بھی یہی مفہوم مراد لیاگیا ہے . ان روایات میں دراصل ایک واضح مصداق بیان کیاگیاہے . کیونکہ دین کی حفاظت کامسئلہ خدا ہی سے مربوط ہے اور ممکن نہیں ہے .کہ اس مقصد کے لیے خدا کے علاوہ کوئی اور معصوم رہبرکاانتخاب کرسکے (۲)۔
اگلی آیت میں اللہ تعالی ٰ کے وسیع علم کے بارے میں بات کی گئی ہے .گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے وسیع اختیار کاذکر ہواتھا . زیر نظر آیت اس کے لیے تاکید یادلیل کی حیثیت رکھتی ہے .ارشاد ہوتاہے : تیرا پروردگار اسے بھی جانتاہے کہ جو وہ اپنے میں چھپائے رکھتے ہیں اوراسے بھی جسے آشکار کرتے ہیں .( وربک یعلم ماتکن صدورھم وما یعلنون ) ۔
یہ ہر چیز پراس کے احاطے اوراختیار کی دلیل ہے نیز ضمنی طور پر مشرکین کے لیے تہدید ہے کہ وہ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ ان کی نیتوں اور سازشوں سے آگاہ نہیں ہے ۔
زیربحث آخر ی آیت درحقیقت گزشتہ آیات کے لیے نفی شرک کے بارے میں اخذنتیجہ اور توضیح کی حیثیت رکھتی ہے .اس میں اللہ تعالیٰ کی ان چار صفات کا بیان ہے جوسب اس کی خالقیت اور اختیار کی فرع ہیں ۔
پہلے فرمایاگیاہے : وہ خد ا ہے کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ( وھواللہ لاالہ الا ھو ) ۔
کیسے ممکن ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود ہو جب کہ خالق صرف وہ ہے اور تمام اختیار ات اسی کے دست ِ قدرت میں ہیں لہذا جولوگ شفاعت وغیرہ کے عذر سے بتوں کے دامن سے متمسک ہیں وہ سخت اشتباہ میں مبتلا ہیں ۔
دوسری صفت یہ کہ تمام نعمتیں ،چاہے اس جہان کی ہوں چاہے اس جہان کی سب اسی کی طرف سے ہیں اور یہ اس کی خالقیت ِ مطلقہ کالازمہ ہے .اس لیے قرآن مزید کہتاہے : ہرحمد و ستائش بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے چاہے اس جہان میں ہو چاہے اس جہان میں . ( لہ الحمد فی الا ولیٰ والاخرة ) ۔
تیسری صفت یہ ہے کہ دونو ں جہانو ں میں وہی حاکم ہے .( ولہ الحمکم ) ۔
چوتھی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ” تم سب کی بازگشت (حساب و اجرکے لیے ) اسی کی طرف ہوگی (والیہ توجعون ) ۔
وہی ہے جس نے تمہین پیدا کیاہے ،وہ تمہار ے اعمال سے آگاہ بھی ہے اور وہی یوم الجزاء کاحاکم ہے لہذا تمہارا حساب کتاب اور تمہاری جزاٴ و سزابھی اسی کے ہاتھ میں ہوگی ۔
۱ ۔ ” ماکان لھم الخیرة “ میں ” ما“ نافیہ ہے .البتہ بعض نے اس احتمال کاذکر یہاں یہ ” ما “ موصولہ ہے اور ” یختار“ کے محذوف مفعول پرمفطوف ہے لیکن یہ احتمال بہت بعید ہے ۔
۲ ۔تفسیر نوار ثقلین ، ج ۴ ، ص ۱۳۶، بحوالہ اصول کافی اورتفسیر علی بن ابراہیم ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma