اس مقام پراس روداد کا آٹھواں حصّہ بیان کیاگیاہے . حضرت موسٰی (علیه السلام) کو
اس مقدّس مقام پر خداکی طرف سے نبوت او ر رسالت کافرمان مل گیا . وہ مصر میں آئے
اوراپنے بھائی ھارون (علیه السلام) کو مطلع کیااوروہ رسالت جس کے لیے آپ مبعوث تھے
، اس کا پیغام اسے پہنچایا . پھر یہ دونوں بھائی فرعون سے ملاقات کے ارادے سے روانہ
ہوئے .آخر بڑی مشکل سے اس کے پاس پہنچ سکے .اس وقت فرعون کے دزرا ء اور مخصوص لوگو
اسے گھیرے ہوئے تھے .حضرت موسٰی (علیه السلام) نے ان سب کو خدا کا پیغام سنایا . اب
ہم یہ دیکھیں گے کہ پیغام حق سنکر ان کارد عمل کیاہوا
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میںخدافرماتاہے کہ جس وقت موسٰی ہمارے روشن معجزات لے
کر ان لوگوں کے پاس گئے توانھوں نے کہا : ” یہ تو جادو کے علاوہ کچھ نہیں ہے جسے غلط
طور پر خداسے منسوب کردیاگیا ہے : ( فلما جاء ھم موسٰی بایاتنا بینات قالو
اماھذاالا سحرمفتری )
۔
ہم نے ایسی بات اپنے بزرگوں میں کبھی نہیں سنی :( وماسمعنا بھذا فی ابائنا الا ولین
)
۔
انھوں نے حضرت موسٰی (علیه السلام) کے روشن معجزات کے مقابلے میں وہی حربہ
اختیارکیا جو پوری تاریخ میںتمام ظالم و جابر اور گمراہ لوگ انبیاء کے معجزات کے
مقابلے میں اختیار کرتے رہے تھے ۔
اوروہ تھا جادو گری کاالزام کیونکہ معجزہ بھی خارق عادت ہوتاہے اور جادو بھی لیکن
یہ کہا اوروہ کہا ں ! جاد و گرگمراہ اور دنیا پرست لوگ ہوتے ہیں ا ن کے عملیات کی
نبیاد تحریف حقائق پرہے اس علامت سے ان کی حقیقت کوخو ب پہچانا جاسکتاہے جبکہ
انبیاکے پیغام حق اوراس کی صداقت پران کے معجزات گواہ ہیں ۔
پھربھی ہے کہ چونکہ ساحروں کابھروسہ پ شری طاقتور پر ہوتاہے اس لیے ہمیشہ ان کا
دائرہ محدود ہوتا ہے . لیکن انبیا کے پاس الہٰی طاقت ہوتی ہے لہذان کے معجزات عظیم
اور نا محدود ہوتے ہیں ۔
قرآن میں ” ایات بینا ت “
بطور جمع استعمال ہواہے . مراد اس سے وہ معجزات ہیں
جوحضرت موسٰی (علیه السلام) کوعطاہوئے تھے . بظاہرذکر دو ہی معجزوں کا ہے . مگر
ممکن ہے انھیں ان دو معجزوں کے علاوہ بھی معجزے دیئے گئے ہوں . یا دو معجزے متعدد
معجزوں سے مرکب ہوں ۔
عصاکااژدھے کی صورت میں متشکل ہوجانا ایک عظیم معجزہ ہے او ر پھر اس کاپہلی حالت
پرواپش آجانا ایک اورمعجز ہ ہے .اسی طرح موسٰی (علیه السلام) کے ہاتھ کاچمک اٹھنا
ایک معجزہ ہے او ر پھر اس کا حالت اصلی اختیار کرلینا دوسرا معجز ہ ہے ۔
کلمہ ” مفتر ی “
کامادہ ” فریہ “
ہے جس کے معنی تہمت اوردروغ کے ہیں .مصر کے لوگوں
نے یہ کلمہ اس لیے استعمال کیاکہ وہ یہ جاہتے تھے کہ موسٰی (علیه السلام) نے
خداکانام لے کر جھوٹ بولا ہے ۔
اوراہل مصر کا یہ کہنا کہ ” ہم نے ایسی بات اپنے باپ دادا سے کبھی نہیں سنی “ ۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) سے قبل اس ملک میںحضرت نوح (علیه
السلام) حضرت ابراہیم (علیه السلام) اورحضرت یوسف (علیه السلام) کو نبوت اور ان کے
پیغام کی شہر ت پہنچ چکی تھی یاممکن ہے کہ انھوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی ہوکہ ان
واقعات کوایک طویل عرصہ گزر چکاتھا اوروہ حق کو فرامو ش کرچکے تھے یاہوسکتاہے کہ ان
کے ذہن میںیہ اخیال ہوکہ اس سے پہلے بھی ہمارے اجداد کوایسا پیغام دیاگیاتھا مگر
انھوں نے قبول نہیں کیا ۔
لیکن حضرت موسٰی نے ان کفارکے جواب میںتہدید آمیز لہجے میں کہا : میرا خداان لوگوں
کے حال سے ، جواس کی طرف سے انسانوں کے لیے ھدایت لاتے ہیں ، خو ب آگا ہ ہے اور اس
شخص کوبھی خوب جانتاہے جس کے لیے دار آخرت ہے :(وقال موسی ربی اعلم بمن جاء بالھدی
من عندہ ومن تکون لہ عاقبة الدار )
۔
اس قول سے حضرت موسٰی (علیه السلام) کامقصود یہ تھا کہ خدا میرے حال سے خوب آگا ہ
ہے ہرچند کہ تم مجھے دروغ گوئی سے مہتم کرتے ہو. مگر یہ نہیں سوچتے کہ خداایک جھوٹے
شخص کوایسے معجزات کیونکہ عطاکرسکتاہے کہ جو اس کے بندوں کوگمراہ کرتاپھرے .خدا
میرے دل کاحال خوب جانتا ہے اور خدا نے مجھے یہ معجزات عطا کیے ہیں وہ میرے پیغام
کی حقّانیت پردلیل دانی ہیں ۔
علاوہ بریں ” جھوٹ “ کے پیر نہیں ہوتے “ جھوٹے آدمی کاکام ایک قلیل مدّت تک ہی
چلتاہے اور پھر اس کاپردہ فاش ہو جاتاہے تم عنقر یب دیکھ لوگے کے ہم میں سے کون
کامیاب ہوتاہے اور شکست و رسوائی کی قسمت میں ہے ۔
مطمئن رہو ، اگر میں دورغ گوہوں توظالم ہوں اورظالموں کوکبھی فلاح نہیں ہوتی :( انہ
لایفلح الظالمون )
۔
اور اس آیت کامضمون سورئہ طٰہٰ کی آیت نمبر ۶۹ کے مطابق ہے جس میںفرمایاگیاہے :
” ولایفلح الساحرحیث اتی “
ساحرجہاں بھی جائے گااسے فلاح نہ ہوگی ۔
اس مقام پر یہ احتمال بھی ہے کہ آیت میںفرعون اوراس کے مفسد اور متکبر ساتھیوں کی
نفسانی حالت کی طرف اشارہ ہو کہ تم لوگ میرے معجزات کودیکھ کر دل میںتو مجھے برحق
سمجھ گئے ہومگراپنی خباثت نفس کی وجہ سے میرے مخالفت کرتے ہو .مگر اچھی طرح سمجھ لو
کہ تم ہر گز کامیاب نہیں ہوسکتے اور انجام کار میرے حق میں ہوگا نہ کہ تمہارے ’
’عاقبة الدار “
سے مراد ممکن ہے کہ دنیا کاانجام یادار آخر ت یاد ونوں ہو ں .
البتہ تیسرے معنی زیادہ جامع اور زیادہ مناسب ہوتے ہیں ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس منطقی اور مہذّب جواب سے ان کی اس دنیا اور آخر ت
دونوں میں روسیاہی کو ان پرواضح کردیا۔