وہ لوگ صرف اپنی ہوائے نفس کی پرستش کرتے تھے :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

آیات محرارہ بالاسے قبل کی آیات میں ان لوگوں کاذکر تھا جنہوں نے دنیا کی نعمتوں کے لالچ میں کفر کوایمان پراور شرک کوتوحید پرترجیح دی ... اور زیر نظرآیات میں اس گروہ کی حالت اورراست باز مومنین کی کیفیت میں فر ق بیان کیاگیا ہے ۔
سب سے پہلے ، خدا، ایک مواز نے کے ذریعہ جوبصورت استفہام کیاگیاہے ، تمام لوگوں کے وجدان سے انصاف طلب ہوکرکہتاہے :” وہ آدمی جس سے ہم نے اچھاوعدہ کیا ہے .اوروہ یقینا اس موعود کوپالے گا ، کیااس کے مساوی ہے کہ جسے ہم نے صرف متاع دنیاکا حصہ دیاہے اورقیامت کے دن وہ حساب اور جزائے اعمال کے لیے ہمارے سامنے پیش ہوگا :“
( افمن وعدنا احسنافھولاقیہ کمن متعنا ہ متاع الحیٰو الدنیاثم ھویوم القیامة من المحضرین ) ۔
بدون شک ہروہ شخص جس کا ضمیر پیدار ہے ،وہ خدا کے نیک وعدوں اوراس کی عظیم جاودانی پرکات کواس دنیا کی فانی نعمات اورزود گز ر لذات پر (جن کاانجام جادوانی درروالم ہے ) ترجیح دیتاہے ۔
” ھویوم القیامة من المحضرین “ کامفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے اعمال کاحساب دینے کے لیے محضرالہٰی میں حاضرہوں گے .بعض مفسرین نے ا س کامفہوم یہ بیان کیاہے .کہ آتش دوزخ میں حاضر ہوں گے .مگر پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے بہر حال آیت کے تیوربناتے ہیں . کہ ان گناہ آلودہ لوگوں کوبالجبر اوران کی رغبت کے خلاف کھینچ کرخدا کے حضور لایاجائے گا . اورہونابھی ایساہی چاہیئے کہ حساب اورسزاکاخوف ان کے پور ے وجود پرچھایاہوا ہوگا ۔
کیونکہ کلمہ ” دنیا “ مادٴ ہ ” دنو“ سے مشتق ہے .اس کے وضعی معنٰی ہیں زمان یامکان میں یامنزل یامقام سے نزدیک ہونا .کبھی کلمہ دنیا اوراونٰی ان چھوٹی موجودات کے لیے (جوانسان کے اختیار میں ہوں ) عظیم موجودات کے مقابلہ میں بولاجاتاہے . اورکبھی بلند اورعالی موضوعات کے مقابلہ میں پست موضوعات کے لیے استعمال ہوتاہے .اورکبھی اس کلمہ کااطلاق دور کے مقابلے میں نزدیک پرہوتاہے ۔
چونکہ اس جہان کی زندگی جہان دیگر کے مقابلہ میں خفیف اور بے قدر اورنزدیک ہے . اس لیے اس کو ”حیات دنیا “ کہنا نہایت ہی مناسب ہے ۔
اس کلام کے بعدقرآن شریف میں منظر کشی کی گئی ہے کہ روز حشر کفار کاکیاحال ہوگا . یہ ایسا منظر ہے کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے گھڑے ہوجاتے ہیں .اور انسان کانپنے لگتاہے ۔
چنانچہ خدا وند عالم فرماتاہے : ذرا اس دن کاتصور کرو کہ خدا ان مشرکین کو آوازدے گا اور کہے گاجنہیں تم نے میرا شریک قرار دیاتھا .وہ کہاں میں ؟ ( ویوم ینادیھم فیقول این شرکاء ی الذین کنتم تزعمون ) ۔
ظاہر ہے کہ یہ سوال ملامت اورسرزنش کے لیے ہے . کیونکہ روز محشر تمام پردے اورحجابات اٹھ جائیں گے . اس دن نہ تو شرک کاکوئی مفہو م باقی رہے گا . اور نہ مشرک اپنے عقیدے پر باقی رہیں گے ۔
اس لیے یہ سوال مشرکین کے لیے ایک قسم کی سرزنش اور ان کے کیفرکردار کویاد لانے کے لیے ہے اورایک اورایک طرح کی توبیخ و سزاہے ۔
لیکن قبل ازیں کہ وہ مشرکین جوب میں دیں ، ا ن کے معبود گویا ہوتے ہیں . اوروہ اپنے ستاروں سے متنفّر اور بے زاری کا اظہار کرتے ہیں . ہم جانتے ہیں کہ ان مشرکین کے معبود کبھی تو پتھر یالکڑی کے بت تھے . کبھی مقدس ہستیاں تھیں جیسے فرشتے عیسٰی .علیہ السلام  اور کبھی جنات اور شیاطین تھے ۔
آیة میں جن شرکا ء الہٰی کاذکر ہے .ان میں س ے اس مقام پرتیسرے نمبرکی جماعت (جنات و شیاطین ) گویاہوتے ہیں . ہم ان کی گفتگو آیة مابعد میں اس طرح پڑھتے ہیں : معبود وں کاایک گروہ ،جن کے لئے فرمان عذاب مسلم ہوچکاہے .یوں کہتاہے : اے ہمارے پروردگار ہم نے ان پرستاروں کوگمراہ کیا .صحیح ہے کہ ہم نے انھیں گمراہ کیا . اسی طرح کہ جیسے کہ ہم خود گمراہ تھے .( لیکن ان لوگوں نے اپنی مرضی سے ہماری پیروی کی ) ہم ان سے بیزار ہیں . وہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے . بلکہ در حقیقت وہ اپنی ہوایٴ نفس کی پرستش کرتے تھے :( قال الذین حق علیہم القول ربنا ھٰوٴ لاء الذین اغوینا اغوینا ھم کما غوینا تبراٴ نا الیک ماکانو اایا نا یعبدون ) ۔
اس بناء پر آیة فوق سورہ ٴ یونس کی اٹھائیسویں آیة کی طرح ہے .جسے میں یہ قول ہے :
وقال شرکاوٴ ھم ماکنتم ایانا تعبدون
یہ باطل معبود بروز قیامت اپنے عبادت کرنے والوں کی طرف رخ کرکے کہیں گے تم ہماری پرستش نہیں کرتے تھے ۔
اس طرح یہ گمراہ کرنے والے معبو د ،مثلا : فرعون ، نمروع اورجن و شیاطین ا س قسم کے پرتسارو ں س ے اپنی بیزاری اورنفرت کا اظہار (۱)کریں گے اور اپنی مدافت کریں گے .یہاں تک کہ اپنے اوپر ا ن کی گمراہی کاالزام بھی نہ لیں گے اور کہیں گے کہ ” انھوں نے اپنی مرضی سے ہماری پیروی کی تھی . لیکن یہ بدیہی امر ہے . کہ تو یہ انکار کچھ کارگر ہوگا اور نہ ان کی اپنے پرستاروں سے بیزاری اوراظہار براٴ ت ، بلکہ وہ معبود اپنے عبادت کرنے والوں کے گناہ میں برابر کے شریک اورحصہ دار ہوں گے ۔
اس مقام پرقابل توجہ یہ امر ہے کہ اس رو ز ( بروز حشر ) ان گمراہ اور گنہگار لوگوں میں سے ہر شخص ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کرے گااور ہر شخص کی یہی کوشش ہوگی کی اپنا گناہ دوسرے کے سرتھوپ دے ۔
ہم دنیامیں چھوٹے پیمانے پراس قسم کے واقعات کی نظیر اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ باہم مل کر کسی خلاف اخلاق یاخلاف قانون فعل کے مرتکب ہوتے ہیں . اور جب وہ گرفتار ہوکر عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے بیزار ی کا اظہار خیال کرتے ہیں . اوران میں س ے ہر ایک اپنا گناہ دوسرے کے سرڈالنے لگتاہے ... دنیا اور آخرت میں گمراہ اورغلط عملی کے مرتکب لوگوں کاانجام یہی ہے ۔
جس طرح سے سورہ ابراہیم کی آیت نمبربائیس میں مذکورہے کہ :
وماکان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولو مواانفسکم
میرا تو تمہارے اوپر کچھ زور نہ چلتاتھا . میں نے تو تمہیں صرف دعوت دی تھی. (یعنی امرالہٰی کی مخالف راہ کی طرف بلایاتھا ) تم نے بڑے اشتیاق سے اسے قبول کرلیا ۔
اب تم مجھے نہیں بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ۔
مشرکین کے بارے میں سورہ صافات ” کی تیسویں “ آیت میں ہم یوں پڑھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑ نے لگیں گے .اور ہر ایک دوسرے کوقصور وار ٹھہرائے گا . مگر گمراہ کرنے والے جواب میں واضح طو ر پرکہیں گے :
وماکان لناعلیکم من سلطان بل کنتم قوما طاغین
بہر حال جب ان سے ان کے معبود وں کے متعلق سوا ل کیاجائے گا تو وہ جواب دینے سے عاجز رہ جائیں گے . تب ا ن سے کہاجائے گا .کہ تم اپنے معبود وں کوجنہیں تم خدا کاشریک قرار دیتے تھے بلاؤ تاکہ وہ اس وقت تمہاری مدد کریں ۔
(وقیل ادعوا شرکا ء کم ) ۔
وہ مشرکین یہ جاننے کے باوجود کہ وہ معبود اس وقت ذرہ بھر بھی کام نہیں آسکتے ، انتہائی پریشانی کی وجہ سے یاہر طرف سے مایوس ہوکر یافرمان الہٰی کی اطاعت کی وجہ سے کہ وہ یہ چاہتاہے کہ وہ اس طر ح مشرکوں اوران کے معبودوں کوسب کے سامنے رسواکرے وہ اپنے معبو د وں کی طرف دست تقاضادارز کریں گے .اور انھیں اپنی مدد کے لیے بلائیں گے : ( فدعوھم ) ۔
لیکن وہ جھوٹے معبود ، انھیں کچھ جواب نہیں دیں گے اور ان کے صدائے امداد پر لبیک نہیں کہیں گے :( فلم یستجیبوالھم ) ۔
وہ (مشرکین ) اس وقت عذاب الہٰی کواپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے : ( وراٴ و االعذاب ) . اور یہ آرزو کریں گے کہ کاش ہم زندہ ہوتے اور ہدایت یافتہ ہوتے : ( لوانھم کانوا یھتدون ) ۔

1۔ مذکورہ بالاآیت کی تفسیر کے متعلق یہ خیال بھی ظاہر کیاگیاہے . کہ جواب دینے والے مشرکین کے سردار ہیں . اور کفر و شرک کے معتقد ین مراد ہیں . ( یعنی فقط پرستاروں کاایک گروہ ) یہ لوگ اپنے معبود وں کے متعلق خداکے سوال کاجواب دینے کی بجائے اپنے پیروؤں کاذکر کریں گے او ر اپنی مدافعت کرتے ہوئے عرض کریں گے . خدایاہم توخود گمراہ تھے کہ ہم نے شرک کی راہ اختیار کی . اوراس گروہ نے اپنی مرضی سے ہماری پیروی کی اور ہم نے انھیں گمراہ کیا . لیکن درحقیقت وہ ہماری اطاعت نہ کرتے تھے . بلکہ وہ تو اپنی ہوائے نفس کی اطاعت کرتے تھے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma