یہ غیبی خبریں اللہ نے دی ہیں ۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


سورةقصص میں تنی آیات بھی حضرت موسٰی (علیه السلام) کی سرگشت سے متعلق ہیں ، اس مقام پراس کے دسویں حصے سے متعارف ہوگے ہیں ۔
اس حصے میںحضرت موسٰی (علیه السلام) پر تورات کے نزول اوراحکام عشرہ عطاکرنے کاذکر ہے یعنی جب نفی طاغوت کا زمانہ ختم ہوگیا ( یعنی جب موسٰی اپنی قوت کو بت پرستوں کے نرغے سے نکال لائے ) تووہ عہدشروع ہواجب ان کی دینی نقطئہ نگاہ سے تر بیت و اصلاح اورغیر خداکے انکار کے بعداللہ کی وحدانیت کااقرار سکھاناتھا ۔
چنانچہ خداوند عالم فرماتاہے :ہم نے پچھلی نسلوں کوہلاک کرنے کے بعد موسٰی کو کتاب دی جولوگوں کے لیے بصیرت آفریں اورھدایت ورحمت کاسبب ہے تاکہ وہ غور وفکر کریں :
( ولقد اتینا موسی الکتاب من بعد مااھلکنا القرون الاولی بصائر للناس وھدی ورحمة لعلھم یتذکرون ) ۔
آیت زیرنظر میں ” قرون اولیٰ “ (یعنی اعصار گزشتہ کی وہ اقوام جوہلاک ہوگئیں ) سے کونسی قومیں مراد ہیں ؟ بعض مفسرین اس سے قورم نوح ،عادو ثمود اوران جیسی ہی کافرقومیں مراد لیتے ہیں .کیونکہ مرور زمانہ سے گزشتہ انبیا کے آثار زمین سے محوہوگئے تھے اوراب لازم تھا کہ نوع انسانی کی تربیت کے لےے ایک نئی کتاب بازل کی جائے ۔
بعض کے نزدیک اس سے قوم فرعون کی ہلاکت مراد ہے جوگزشتہ اقوام کی باقیات میں سے تھی کیونکہ خدانے اس قوم کی ہلاکت کے بعد ہی موسٰی پرتوریت نازل کی ۔
لیکن یہ امر تسلیم کرنے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ
” قرون الاولی “ سے اس قسم کی جملہ اقوام مراد ہوں ۔
”بصائر “ جمع ” بصیرت “ کی ہے جس کے معنی ” بینائی “ کے ہیں .مگر اس مقام پرخداکی وہ نشانیاں اور دلائل مراد ہین جو مومنین کے قلب کومنوّر کرنے کاسبب ہوں اورہدایت ورحمت بھی اس بصیرت کے لوازم میں سے ہے .نیز دلوں کی بیداری اور قدرت الہٰی میں غور و فکر اس کا نتیجہ ہے ( ۱)۔
اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ ہم نے جو کچھ موسٰی اورفرعون کی داستان اس کی جزئیات کے ساتھ بیان کی وہ قرآن کی صداقت پر دلیل ہے . کیونکہ تم اس موقع پر موجود نہ تھے اور تم نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے تھے . یہ ہمارالطف وکرم ہے کہ ہم نے مخلوق کی ہدایت کے لیے تم پر یہ آیات نازل کیں ۔
پھر فرماتاہے کہ : جب ہم نے موسٰی کوفرمان نبوت دیاتو تم کوہ طور کے گوشے میں موجود نہ تھے اورتم اس وقعے کے شاہدین میں سے تھے :
( وماکنت بجانب الغربی اذقضیان الی مو سی الا مروما کنت من الشاھدین ) ۔
اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) مدین سے بہ سوئے مصر سفر کرتے ہوئے ( کہ وہ راستہ سرزمین سینا سے گزرتاتھا ) ٹھیک مشرق سے مغرب کی طرف حرکت کررہے تھے ۔
اس کے برعکس جب بنی اسرائیل مصر سے شام کی طرف آئے اور وادی ٴ سینا سے گزرے تو انھوں نے مغرب سے مشرق کی طرف سفر کیا ۔
لہذا بعض مفسرین نے سورہ شعرا ٴ کی آیت ساٹھ
” فاتبعو ھم مشرقین “ (جو کہ فرعون اورا س کی افواج کے بنی اسرائیل کاتعاقب کرنے کے بارے میں ہے ) کایہی مطلب سمجھاہے ۔
اس کے بعد قرآن میںفرمایاگیاہے : ہم نے مختلف زمانوں میں مختلف اقوام کو پیدا کیامگر جب ان پر طویل زمانہ گزرگیا تو انبیا ء کی ہدایت اور ان کی تعلیم کا اثر ان کے قلوب سے محوہوگیا . لہذا تمہیں رسول بنایااورقرآن عطاکیا اورگزشتہ قوموں کے حالات بیان کیے تاکہ وہ انسانوں کے لیے نصیحت کاباعث ہوں :
( ولکنا انشاء نا قرونا فتطاول علیھم العمر) ۔
اورتم ہرگز اہل مدین کے در میان نہ رہتے تھے ( کہ تمہیں ان کی ز ندگی کے حالات معلوم ہوتے ) اور وہ حالات تم انہیں (اہل مکہ کو ) سناتے :
وما کنت ثاویا فی اھل مدین تتلو ا علیھم ایاتنا ) (۲)۔
اسی مفہوم کی تاکید کے لےے اس عبار ت کااضافہ کیاگیاکہ : جب ہم نے موسٰی کوندادی اوراس کے مام فرمان نبوت صادر کیا :
( وما کنت بجانب الطور اذنادینا ) ( ۳)۔
مگر ہم نے تمہیں جن حالات سے مطلع کیاہے وہ اس رحمت کاتقاضا ہے کہ تم ان کے وسیلے سے اس قوم کو ڈراؤ جن کے پاس قبل ازیں کوئی ڈرانے والانہیں پہنچا ، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں
:ولکن رحمة من ربک لتنذ رقوما مااتاھم من نذیر من قلبک لعلھم یتذکرون )۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خداجناب رسالت مآب کومخاطب کرکے فرماتاہے کہ :وہ بیدارکن اورہوش آور واقعا ت جو ماضی بعید کی قوموں پرگزرچکے ہیں اور تم نے انھیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، ہم نے تمہیں ان سے آگاہ کیا ہے تاکہ تم انھیں اس گمراہ قوم کو سناؤ کہ ممکن ہے وہ نصیحت حال کریں ۔
اس مقام پر یہ سوال پید ہوتاہے کہ قرآن میںیہ کس طرح کہاگیاہے کہ :
اس قوم ( زمانہ ٴ رسول کے عربوں ) کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیاتھا ۔
جبکہ یہ بھی مسلم ہے کہ روئے زمین کبھی حجّت الہٰی سے خالی نہیں رہتی . اوراس قوم (عرب ) میں بھی پیمبر ان صاحب کتاب کے اوصیا ء موجود رہے ہیں ۔
اس سوال کا جواب :
اس قوم گمراہ کے پاس ایک صاحب کتاب پیغمبر اورڈرانے والے کوبھیجنے کی غایت واضح ہے . کیونکہ حضرت موسٰی (علیه السلام) اور پیمبرا سلام کے ظہور کے درمیان کئی سال گزر چکے تھے . اس دوران میں کوئی او لوالعزم پیغمبر نہیں آیاتھا اور یہ مفید اورع ملحد عرب اسی بہانے سے را ہ خدا سے منحرف ہوگئے تھے ۔
امیرامومنین علی ابن ابی طالب (علیه السلام) فرماتے ہیں ۔
ان اللہ بعث محمد ا ً ولیس احد العرب یقرہ کتابا ولایدعی مغبوة فسا ق الناس حتٰی بواھم محلتھم وبلغھم منجاتھم
جس وقت خدانے حضرت محمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا (اس وقت یہ حال تھا کہ )
کوئی عرب بھی آسمانی کتاب نہیں پڑ ھتاتھا اوروہاں کوئی بھی مدعی نبوت نہ تھا . آنحضرت نے انھیں و ہ مقام دعطاکیا جوان کے لائق تھا اورانھیں نجات کی منز ل پر پہنچا دیا ( نہج البلاغہ خطبہ ۳۳ ) ۔

۱۔بصائر جمع بصیر ت وابصار جمع بصر ۔
۲۔” ثاوی “ کامادہ ” ثوی “ ہے جس کے معنی ہیں ” مستقل طور پر قیام کرنا “ اسی وجہ سے جائے قرار کو ” مثوی “ کہتے ہیں ۔
۳۔ حضرت موسٰی (علیه السلام) اورجناب ختمی مرتبت رسالت مآب کے درمیان قرینا دوہزار سال کا فاصلہ ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma