حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مستکبرین کا طرز جواب :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

ا ب ہم اس مقام پر ہیں کہ یہ دیکھیں کہ اس گم راہ قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان تین دلائل کا جو توحید ، نبوت اور معاد کے متعلق تھے کیاجواب دیا . ان کے پاس کوئی مدلل جواب توتھا نہیں لہذا انھوں نے دیگر تمام منہ زور بے منطق بد معاشوں کی طرح اپنی شیطانی طاقت کا سہارالیا .اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوقتل کرنے کا فیصلہ صادر کردیا . جیساکہ قرآن میں فر مایاگیا ہے : ابراہیم کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ اسے ( ابراہیم کو ) قتل کردو یا جلا دو : ( وماکان جواب قومہ الا ان قالو ااقتلوہ او حرقوہ ) ۔
قرآن کے اس طرز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کی تویہ رائے تھی کہ ابراہیم کو جلادیاجائے او ر کچھ یہ تجویز پیش کررہے تھے کہ انھیں تلواریاکسی اورذریعے سے قتل کردیاجائے . آخر کار ، پہلے گروہ کی رائے مان لی گئی کیونکہ وہ قم یہ سمجھتی تھی کہ کسی مار نے کابد ترین طریقہ یہی ہے کہ اسے جلادیا جائے . اس مقام پریہ احتمال بھی موجود ہے کہ ابتداء میں اس قوم کے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوعام طریقے سے قتل کرنا چاہیئے تھے مگر بعد میں وہ سب اس پرمتفق ہو گئے کہ انھیں شدید ترین عذاب دیاجائے ۔
اس آیت میں یہ ذکر نہیں آیاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کس طرح جلایاگیا تھا .ہم اس جگہ صرف یہ پڑ ھتے ہیں کہ خدانے انھیں آگ سے نجات بخشی : ( فانجاہ اللہ من النار ) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالنے کی تفصیل سورہٴ ابنیاء کی آیات ۲۸ تا ۷۰ میں مذ کورہے .جس پرہم نے تفسیر نمونہ کی تیرھویں جلد میں مفصل بحث کی ہے ۔
آیت کے آخرمیں یہ اضافہ ہے کہ اس ماجرے میں ایمان لانے والوں کے لیے نشانیاں ہیں : ( ان فی ذلک لایات لقوم یوٴ منون ) ۔
صرف ایک نشانی ہی نہیں بلکہ اس وقعے میں بہت سی نشانیاں موجود ہیں . کیونکہ ایک طرف تو یہ روشن معجزہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جسم پر آگ کا اثر نہ ہوا .( اورجیساکہ مشہور ہے ) آگ گلستان میں تبدیل ہوگئی . یہدوسرا معجزہ تھا ۔
تیسرا معجزہ یہ تھا کہ وہ زیر دست اقتدار کے حامل لوگ ایک ایسے فرد کے مقابلے میں جس کا ہاتھ وسیلہٴ ظاہر ی سے خالی تھا قطعی عاجز اور ناتواں ثابت ہوئے ۔
اس عجیب غیر معمولی حادثے کاان سیاہ دلو ں کو طبیعت پرکچھ اثر نہ ہونا ، یہبھی قدرت الہٰی کے ایک نشانی ہے . و ہ یوں کہ خدا نے اس معاند اور مخالف قوم کے افرادسے توفیق خیر کو اس طرح سلب کر لیاتھا . کہ بڑ ی سے بڑی نشانیوں کا بھی ان پر اثر نہ ہوتاتھا ۔
ایک روایت میں ہے کہ . جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ پاؤ ں باندھ کر آگ میں پھینکا گیا تو جوچیز جلی وہ صرف وہی رسی تھی جس سے آپ کو باندھا گیاتھا (۱) ۔
ہاں ، ٹھیک ہے کہ ان دشمنان حق کی آتش جرم و جہالت نے ان چیزوں کو جلادیاجس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قید کیاگیاتھا اور وہ آزاد ہوگئے .اور یہ بھی ایک نشانی ہے . شاید ان وجود کی بناء پر . حضرت نو ح علیہ السلام اوربذریعہ کشتی ان کی نجات کے قصّے میں : جعلناھا ایہ “ بصورت مفر د ، کہاگیا ہے اور اس مقام پر ” لایات “ بصورت جمع آیاہے ۔
بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس آگ سے بہ لطف الہٰی معجزانہ طورپر نجات پائی . اس کے بعد صر یہی نہیں ہوا کہ آپ اپنے مقاصد بنوت اور ہدایت کی تبلیغ سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ اس کے عکس آپ نے اور بھی زیادہ جوش اورسرگرمی سے تبلیغ شروع کردی . حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی مشرک قوم سے کہا: تم نے خدائے برحق کو چھوڑ کراپنی عبادت کے لیے بتوں کو اختیار کرلیاہے . تاکہ وہ دنیا وی زندگی میں تمہارے درمیان دوستی اور محبت کاسبب بنیں لیکن تم متنبہ رہو کہ بروز قیامت تمہاراباہمی رشتہ ٴ محبت بالکل منقطع ہو جائے گا اور تم میں سے ہرایک دوسرے کا انکار کردے گا اورتم آپس میں ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کروگے . پس تم سب کامقام جہنم ہے . اس روز تمہارا کوئی بھی مدد گارنہ ہوگا : ( وقال انما اتخذ تم من دون اللہ اوثانا مودة بینکم فی الحیوة الدنیا ثم یوم القیامة یکفرو بعضکم ببعض ویلعن یعضکم بعضا و ماء اکم النار وما لکم من ناصرین) (۲)۔
بتو ں کاانتخاب بت پرستوں کے درمیان کاسبب کس طرح ہوتاتھا ؟
اس سوال کا چند پہلوؤ ں سے جواب دیاجاسکتاہے ۔
پہلی بات تویہ ہے کہ ہرقوم یاقبیلہ جب ایک ہی بت کی پرستش کرتاتھا . چنانچہ عرب میں زمانہ ٴ جاہلیت میں ہر بت کسی شہر یاقبیلہ سے منسوب تھا . ” ان میں سے بت “ عزّی “ خصوصا قریش سے منسوب تھا ” لات “ قبیلہ تقیفہ ک. اور . ” منات “ اوس وخز رج کاتھا (۳) ۔
دوسرے یہ کہ بتوں کی پرستش اس قوم کا ان کے اجداد اوربزرگوں سے تعلق قائم رکھتی تھی . غالبادین حق کو قبول نہ کرنے کے لیے اسی وجہ سے وہ عذر کرتے تھے .کہ یہ بت ہمارے بزرگوں گی یاد گاریں ہیں . اورہم ان ہی کی پیروی کرتے ہیں ۔
علاوہ بریں کفار کے سردار اور بزرگ اپنے پیرو ؤں کوبتوں کی پرستش تر غیب دیتے تھے . اوران سردار ان قوم اوران کے پیروؤں کے درمیان یہی حلقہ اتصال تھا ۔
لیکن قیامت میں یہ تمام پوچ اور کمزور رشتے ٴ منقطع ہوجائیں گے اور ہر آدمی اپنا گناہ دوسرے کے سرڈالے گا اور ا س پر لعنت اورنفرین کرے گا اوراس کے عمل سے اظہار بیزاری کرے گا . حتی کہ ان کے وہ معبود (بت ) جن کے متعلق ان کاخیال خام یہ تھا کہ وہ ان کے لیے خدا سے ارتباط کا وسیلہ ہیں اور جن کی بابت وہ یہ کہاکرتے تھے :
مانعبد ھم الا لیقربوناالی اللہ زلفی
ہم تو ان کی مخص اس لیے پرستش کرتے تھے کہ وہ ہمیں خداسے نزدیک کردیں گے ۔ زمر . آیت . ۳) ۔
کلا سیکفرون بعباد تھم ویکونون علیھم ضدا
وہ معبود ان باطل بہت جلد اپنے پجاریوں کی عبادت کاانکار کردیں گے اوران دکے مخالف ہو جائیں گے ۔
اوربروز قیامت ایک دوسرے کے انکار ،ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز مشرکین ایک دوسرے سے بیزاری کریں گے اور وہ چیز جو دنیا میں ان کے بے اصل وبے بنیاد محبت کاسبب تھی وہ آخرت میں ان کے لیے باہمی عداوت اوربغض کاباعث بن جائیں گی .جیساکہ سورہٴ زخرف کی آیت ۶۷ میں فر مایاگیاہے :
الاخلاء یو مئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین
اس روز دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے . مگر پر ہیز گا ر ( نہیں ہوں گے ) ۔
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ حکم صرف بت پرستوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ و ہ تمام لوگ بھی اس میں شامل ہیں ،جنھوں نے دنیا میں باطل امام اورباطل پیشوا چنا ہے اور اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے پیمان مودت باندھتے ہیں۔
یہ سب بھی قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے اور ایک دوسرے اظہار بیزار ی کریںگے اور ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ۔
مومنین کا باہمی پیوند محبت جس کی بنیاد میں توحید ،خدا پرستی اوراطاعت فرمان حق پر ہے ،وہ ہمیشہ برقرار رہے گا اور وہاں اور زیادہ محکم ہو جائے گا . یہاں تک کہ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے . کہ بروز قیامت مومنین ایک دوسرے کے لیے استغفار و شفاعت کریں گے .جب کہ مشرکین ایک دوسرے پر لعنت کرنے میں مشغول ہوںگے ۔
اس کے بعد کی آیت ۲۶ میں حضر لوط علیہ السلام کے ایمان کا ذکر ہے . ارشاد ہوتاہے ، لوط ، ابراہیم پر ایمان لائے : ( فامن لہ لوط ) ۔
حضرت لوط خود پیغمبر ان بزرگ میں س ے تھے اورحضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے قریبی رشتہ دار تھے ( کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھانجے تھے ) . اگرایک مرد بزرگ کسی پیغمبرپرایمان لائے اور اس کے احکام کی پیروی کرے تواس کاایمان لانا ایک امت و ملت کے ایمان لانے کے مترادف ہے . خدانے یہاں خصوصیت سے حضرت لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کا ذکرکیاہے . جو ایک عظیم شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاصرتھے تاکہ یہ امر واضح ہو جائے کہ جب ایسا شخص ایمان لے آیا تواذل الناس کاایمان نہ لانہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا ۔
البتہ یہ قیاس ہوتاہے کہ شہر بابل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کوقبول کرنے کے لیے آمادہ دل موجود تھے . جنہوں نے اس معجزہٴ عظیم کودیکھ کرآپ کی اتباع کی . مگر یقینا و ہ لوگ اقلیت میں تھے ۔
اس کے بعدیہ اضافہ فرمایاگیا : ابراہیم علیہ السلام نے کہامیں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کررہا ہوں کیونکہ و ہ عزیز وحکیم ہے : ( و قال انی مھاجرا الی ربی انہ ھوا لعزیز الحکیم ) ۔
ۻظاہر ہے کہ جس وقت ربہر ان الہٰی کسی مقام پراپنا فرض رسالت انجام دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرہ اور سارا ماحول اس قدر آلودہ بہ شرک و جہل ہے اور ظالموں کے دباؤ میں ہے کہ ان کی دعوت حق کا اس مقام پر پھیلنا ناممکن ہوگیاہے تو وہ وہاں سے کسی اور جگہ ہجرت کرجاتے ہیں تاکہ اس مقام پردعوت الہٰی کوپھیلائیں ۔
اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی شہر بابل سے حضرت لوط علیہ السلام اوراپنی اہلیہ کوساتھ لے کر ” خطہ انبیاو توحید “ یعنی ملک شام کی طرف سفر کرگئے تاکہ آپ وہاں ایک جماعت پیدا کرسکیں اور دعوتِ توحیدکووسعت دے سکیں (۴) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جملہ کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہاہوں ” قابل توجہ ہے آپ نے یہ جملہ اس لیے کہاکہ یہ راہ ، راہ پروردگار ، اس کی رضا راہ اور راہ دین و آ ئیں تھی ۔
اگر فعل ”قال “ (کہا ) کامرجع حضرت لوط ہوں . یعنی یہ معنی ہوں کہ ”لوط نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہاہوں “ تو سیاق عبادت اس مفہوم سے بوط ہے . مگر تاریخی اورقرآنی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ” کہا “ فعل میں ضمیر غایب کامرجع حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں اور حضرت لوط علیہ السلام نے ان کے ” ساتھ “ ہجرت کی تھی ۔
اس قول کی تائید سورہ ٴ صافات کی آیت ۹۹ سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول موجود ہے :
انی ذاھب الی ربی سیھدین
میں اپنے رب کی طرف جارہاہوں اور وہ میری راہنمائی کرے گا ۔
زیر بحث آیات میں سے آخری آیت میں ان چار نعمات الہی کاذکر ہے جو خدانے ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کوعطاکیں . پہلی نعمت لائق اورمحترم بیٹے تھے . ایسے فرزند جنھیں یہ توفیق ارزانی ہو ئی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں ایمان اونبوت کا چراغ روشن رکھ سکیں ۔
چنانچہ خدا فرماتاہے : ہم نے اسے اسحاق اوریعقوب بخشے : ( ووھبنا لہ اسحق و یعقوب ) ۔
یہ دونوں نہایت بزرگ اورلائق پیغمبر تھے . ان میں سے ہرایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی راہ بت شکنی پر چلتارہا ۔
دوسری نعمت یہ کہ نبوت اور کتاب آسمانی خاندان ابراہیم علیہ السلام ہی کے اندر مخصوص ہو گئی : ( وجعلنا فی ذریتہ النبوة والکتاب ) ۔
صرف اسحاق و یعقوب (یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے ) ہی پیغمبر نہ تھے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں ر سالتمآب خاتم الانبیاتک رسالت کاسلسلہ جاری رہا . اسی خاندان میں یکے بعد دیگر ے بزرگ پیغمبر پیدا ہوتے رہے جنھوں نے دنیا کو نو ر توحید سے منور کیا ۔
تیسرے یہ کہ ” ہم نے اسے دنیا میں بھی بدلہ دیا “ :
( واتینا ہ اجرہ فی الدنیا ) ۔
اس دنیا وی اجر کا ذکر اشار تا ہواہے . ممکن ہے کہ یہ مختلف امور کی طرف اشارہ ہو . مثلانام نیک اورتمام امتوں میں آپ کاذکر خیر بطور احترام . کیونکہ تمام امتیں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کاایک اولواالعزم پیغمبر کے طور پر احترام کرتی ہیں اور آپ کے وجود پر فخر کرتی ہیں او انھیں شیخ الا نبیاء کہتی ہیں ۔
نیز یہ کہ سر زمین مکہ آپ کی دیاسے س آباد ہوئی . اورہرسال مراسم حج اداکرتے ہوئے حج کے دل آپ کی طرف کھنچتے ہیں . اور سب لوگ آپ کے پر شکوہ ، ایمان آفرین اوارنیک اراددوں کویاد کرتے ہیں . ( یعنی خانہٴ کعبہ کودیکھ کر اس کے بانی کی یاد آتی ہے ) . گویا کہ یہ بھی ایک اجر ہے جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیامیں ملا ۔
چوتھا اکر یہ ہے جو آخر میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا . ( وانہ فی الاخرة لمن الصالحین ) ۔
اور یہ سب باتیں یکجاہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے باعث افتخار ہیں ۔
۱۔ تفسیر روح المعانی جلد ۲۰ ، صفحہ ۱۳۰۔
۲ ۔ ”مودة بینکم “ کے منسوب ہونے کے وجہ یہ ہے کہ وہ ” لاجلہ “ کامفعول ہے . اس ضمن میں مفسرین نے اوربھی احتمالات بیان کیے ہیں ۔
۳ ۔ سیر ت ابن ہشام ، جلد ۱ ، صفحات . ۸۶ . ۸۷ ۔
۴ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بابل سے ملک شام کو ہجرت کرنے کی تفصیل بحث سورہ انبیا ء کی آیت نمبر۷۱ کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی جلد تیرہ میں بیان ہو ئی ہے ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma