وحی کی تابش اوّل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16


اس مقام پراس داستان کاساتواں منظر ہمارے پیش نظر ہے ۔
کوئی آدمی بھی حقیقتا یہ نہیں جانتاکہ ان دس سال میںحضرت موسٰی (علیه السلام) پر کیا گزری .لیکن بلاشک یہ دس سال حضرت موسٰی (علیه السلام) کی زندگی کے بہترین سال تھے . یہ سال دلچسپ ، شیر یں اور آرام بخش تھے نیز دس سال ایک منصب عظیم کی ذمّہ داری کے لیے تربیت اورتیاری کر رہے تھے ۔
درحقیقت اس کی ضرورت بھی تھی کہ موسٰی (علیه السلام) دس سال کاعرصہ عالم مسافرت اورایک بزرگ پیغمبر کی صحبت میں بسر کریں اورچرواہے کا کام کریں تاکہ ان کے دل دوماغ سے محلات ناز پروردہ زندگی کا اثر ماکل محوہوجائے .حضرت موسٰی (علیه السلام) کواتنا عرصہ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے ساتھ گزارنا ضروری تھا تاکہ ان کہ تکالیف اور مشکلات سے آگاہ ہوجائے اور ساکنان محلات کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے (۱)
ایک اولوالعزم پیغمبر کی بعثت کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ یہ مقام کسی کو نہایت آسانی سے نصیب ہوجائے .بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (علیه السلام) کے بعد تمام پیغمبر وں میں سے حضرت موسٰی (علیه السلام) کی ذمّہ داری ایک لحاظ سے سب سے زیادہ اہم تھی .اس لیے کہ :
روی ء زمین کے ظالم ترین لوگوں سے مقابلہ کرنا ، ایک کثیر الافراد قوم کی مدّت اسیرت جو ختم کرنا :
اوران کے اندر سے ایام اسیری میں پیدا ہوجانے والے نقائص کومحور کرناکوئی آسان کام نہیں ہے ۔
توریب اوراسی طر ح اسلامی رویات میں مذکورہ ہے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) نے موسٰی (علیه السلام) کی مخلصانہ خدمات کی قدرشناسی کے طورپر یہ طے کرلیاتھا کہ بھیڑوں کے جوبچّے ایک خاص علامت کے ساتھ پیدا ہوں گے ، وہ موسٰی (علیه السلام) کو دے دیں گے . اتفاقا مدّت موعود کے آخر ی سال میںجبکہ موسٰی (علیه السلام) حضرت شعیب (علیه السلام) سے رخصت ہوکر ملک مصر کو جاناچاہتے تھے توتمام یازیادہ تر بچّےاسی علامت کے پیدائے اورحضرت شعیب (علیه السلام) نے بھی انھیں بڑی محبت سے موسٰی (علیه السلام) کودے دیا ( ۲)۔
یہ امر بدیہی ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) اپنی ساری زندگی چرواہے بنے رہنے پر قناعت نہیں کرتے سکتے تھے .ہر چند ان کے لیے حضرت شعیب (علیه السلام) ک پاس رہنابہت ہی مغتنم تھا مگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے تھے کہ اپنی اس قوم کی مدد کے لیے جائیں جوغلامی کی زنجیروں میں گرفتا ر ہے اور جہالت نادانی اور بے خبری میںغرق ہے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) اپنا یہ فرض بھی سمجھتے تھے کہ مصر میںجوظلم کابازار گرم ہے اسے سردکردیں ، طاغوتیوں کو ذلیل کریں اور توفیق الہٰی سے مظلوموں کو عزّت بخشیں .ا ن کے قلب میںیہی احساس تھا جو مصر جانے پرآمادہ کررہاتھا ۔
آخر کار انھوں نے اپنے اہل خانہ ،سامان واسباب اورپنی بھیڑوں کوساتھ لیااوررخت سفر باندھا اور روانہ ہوگئے ۔
متعدد آیات قرآنی میں کلمہ
” اھل “ آیاہے .اس سے مفہوم ہوتاہے کہ اس سفر میںحضرت موسٰی (علیه السلام) کے ساتھ ان کی ز وجہ کے علاوہ ان کالڑ کا یاکوئی اوراولاد بھی تھی .اسلامی رویات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے . تو ریت کے ” سفر خروج “ میں بھی ذکر مفصل موجود ہے . علاوہ ازیں اس وقت ان کی زوجہ کی امید سے تھی ۔
جب حضرت موسٰی (علیه السلام) مدین سے مصر کو جارہے تھے تواستہ بھو ل گئے .یاغالباشا م کے ڈاکوؤں کے ہاتھ میں گرفتار ہوجانے کے خوف سے بوجہ احتیاط مروج راستے کوچھوڑ کے سفر کررہے تھے ۔
بہر کیف قرآن شریف میںیہ بیان اس طورسے ہو کہ : جب حضرت موسٰی (علیه السلام) اپنی مدّت کوختم کرچکے اوراپنے خاندان کے ساتھ لے کر سفر پرروانہ ہوگئے توا نھیں طور کی جانب سے شعلئہ آتش نظر آیا :
( فلما قضی موسی الاجل وسار باھلہ انس من جا جانب الطور نارا ) ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اپنے اہل خاندان سے کہا . ” تم یہیں ٹھہرو “ مجھے آگ نظر آئی ہے .میں جاتاہوں .شاید تمہارے لیے وہاں سے کوئی خبر لاؤں یاآگ کاایک انگارا لے آؤں تاکہ تم اس سے گرم ہوجاؤ :
( قال لا ھلہ امکثو اانی انست نارا لعلی آتیکم منھا بخیراو جذوة من النار لعلکم تصطلون ) ۔
” انست ‘ ‘ ” ایناس “ سے مشتق ہے جس کے معنٰی مشاھدہ کرنے اور سکون و آرام سے دیکھنے کے ہیں ۔
”جذوة “ ” آگ کاایک انگارا “ بعض لوگوں نے اس کے معنی ” ایندھن کابڑا ٹکڑا “ لکھے ہیں .اور ” اتیکم بخبر “ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ راستہ بھو ل گئے تھے اور ” لعلکم تصطلوم “ مگر تفاسیرا ور رویات میں مذکورہے کہ وہ امید سے تھیں اورانہیں درد زہ ہوریاتھا . اس لیے موسٰی پریشان تھے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) جس وقت آگ کی تلاش میں نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ :
آگ تو ہے مگر معمول کی سی آگ نہیں ہے بلکہ حرارت اور سوزش سے خالی ہے .دہ نور اور تابندگی کااک ٹکڑا معلوم ہوتی تھی ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) اس منظر سے نہایت حیران تھے کہ ناگہاں اس پر برکت سرزمین میں وادی کے داہنی جانب سے ایک درخت میں سے آواز آئی : اے موسٰی (علیه السلام) میں اللہ رب العالمین ہوں
( فلما اتاھا نودی من شاطئی الوادی الایمن فی البقعة المبار کة من الشجر ة ان یاموسٰی انی اللہ رب العالمین )۔
شاطئی : بمعنی ساحل
وادی : بمعنی درّہ یاپہاڑ میں وہ راستہ جہاں سے سیلاب گزرتاہے ۔
ایمن : جانب راست اور یہ
” شاطی “ کی صفت ہے ۔
بقعة : زمین کاواہ حصّہ جواطراف کی زمین سے ممتاز ہو ۔
اس میںشک نہیں کہ یہ خدا کے اختیار میں ہے کہ جس چیز میںچاہے قوّت کلام پیداکر دے .یہاں اللہ نے درخت میںیہ استعداد پیدا کر دی . کیونکہ اللہ موسٰی (علیه السلام) سے ، باتیں کرناچاہتاتھا .ظاہر ہے کہ موسٰی (علیه السلام) گوشت پوست کے انسان تھے ۔ کان رکھتے تھے اور سننے کے لیے انہیں امواج صوت کی ضرورت تھی .البتہ انبیا ء پراکثر یہ حالت بھی گزری ہے کہ وہ بطور الہام درونی پیغام الہٰی کوحاصل کرتے رہے ہیں .اسی طرح کبھی انھیں خواب میں بھی ہدایت ہوئی رہی ہے . مگر کبھی وہ وحی کی بصورت صدابھی سنتے رہے ہیں .بہر کیف حضرت موسٰی (علیه السلام) نے جوآواز سنی اس سے ہم ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ خدا جسم رکھتاہے ۔
بعض رویات میں مذکورہ ہے کہ موسٰی (علیه السلام) آگ کے پاس گئے اور غور کیاتو دیکھا کہ درخت کی سبزشاخوں میں آگ چمک رہی ہے اور لحظ بہ لحظاس کی تابش اور درخشندگی بڑھتی جاتی ہے . جو عصاان کے ہاتھ میںتھا اس کے سہارے جھکے تاکہ اس میں سے تھوڑی سے آگ لے لیں . تو آگ موسٰی (علیه السلام) کی طرف بڑھی .موسٰی (علیه السلام) ڈر ے اورپیچھے ہٹ گئے .اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسٰی (علیه السلام) آّگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف . اسی کشمکش میں ناگہاں ایک صد ابلند ہوئی . اور انھیں وحی کی بشارت دی گئی ۔
اس طرح ناقابل انکار قرائن سے حضرت موسٰی (علیه السلام) کو یقین ہوگیا کہ یہ آواز خداہی کی ہے ، کسی غیر کی نہیں ہے . لیکن اس عظیم ذمّہ داری کے اعتبار سے جوموسٰی (علیه السلام) پرعائد کی گئی تھی لازم تھا کہ اسی کے مطابق انھیں خدا کی طرف سے معجز ات بھی عطا کیے جائیں .چنانچہ ان آیات میں دو اہم معجز ات ذکر کیاگیاہے ۔
اور یہ کہ موسٰی سے کہا گیا کہ : ” اپنے عصاکوزمین پر ڈال دو “ چنانچہ موسٰی نے عصا کو پھینک دیا . اب کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عصا سانپ کی طرح تیزی سے حرکت کررہاہے . یہ دیکھ کر موسٰی ڈر ے اور پیچھے ہٹ گئے . یہاں تک کہ مڑ کے بھی نہ دیکھا :
( وان الق عصاک فلما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبر ولم یعقب ) ۔
جس دن حضرت موسٰی (علیه السلام) نے یہ عصا لیاتھا تاکہ تھکن کے وقت اس کا سہارا لے لیا کریں اور بھیڑو ں کے لیے اس سے پتّے چھاڑ لیاکریں ‘ انھیں یہ خیال نہ تھا کہ قدرت خداسے اس میں یہ خاصیت بھی چھپی ہوئی ہوگی اور یہ بھڑوں کو چرانے کی لاٹھی ظالموں کے محل کو ہلادے گی ۔
موجودات عالم کا یہی حال ہے کہ وہ بعض اوقات ہماری نظر میں بہت حقیر معلوم ہوتی ہیں مگر ان میں بڑ ی بڑی استعد اد چھپی ہو تی ہے . جو کسی وقت خداکے حکم سے ظاہر ہوتی ہے ۔
ا ب موسٰی (علیه السلام) نے دوبارہ آواز سنی جوان سے کہہ رہی تھی : واپس آ اور نہ ڈر توامان میں ہے :
( یاموسٰی ا قبل ولاتخف انک من الا منین ) ۔
” جان “ در اصل اس شے کوکہتے ہیںجو موجود تو ہو مگر نظر نہ آتی ہو . مجاز ا ” جان “ ان چھوٹے سانپوں کوکہتے ہیں جوگھاس کے ڈھیر یازمین کے ڈانڈوں کے اندر سے گز ر تے ہیں ۔
البتہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں
” ثعبان مبین “ (واضح اژدہ ) بھی کہاگیا ہے ۔ ( اعرا ف . ۱۰۷ ، شعرا ء ۳۲)
ہم نے قبل ازیں کہاہے کہ اس سانپ کے لیے جو یہ دو الفاظ ہوئے ہیں ممکن ہے اس کی دو مختلف حالتوں کے لیے ہوں کہ ابتدا ء میں وہ چو ٹا ساہوا او پھر ایک بڑا اژدہ بن گیا ہو ۔ اس مقام پر یہ احتمال تھی ہوسکتاہے کہ موسٰی (علیه السلام) نے جب وادئی طور میں اسے پہلی بارد یکھا تو چھوٹا سا سانپ تھا ، رفتہ رفتہ و ہ بڑا ہوگیا ۔
بہر حال حضرت موسٰی (علیه السلام) پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ درگاہ رب العزّت میں مطلق وامان ہے اورکسی قسم کے خوف و خطرکامقام نہیں ہے ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) کو جو معجزات عطاکیے گئے ہیں ان میں سے پہلا معجزہ خوف کی علامت پرمشتمل تھا .ا س کے بعد موسٰی کوحکم دیاگیا کہ اب ایک دوسرا معجزہ حاصل کر و جونور امید کی علامت ہوگا . اور یہ دونوں معجزے گو یا” اعذار اور بشارت “ تھے ۔
موسٰی (علیه السلام) کوحکم دیاگیا کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو اور باہر نکالو . موسٰی (علیه السلام) نے جب گریبان میں سے ہاتھ باہرنکالا تو وہ سفید تھا ا ور چمک رہاتھا اوراس میں کوئی عیب اور نقص نہ تھا :
( اسلک یدک فی جبیک تخرج بیضاء من غیوسوء ) ۔
حضرت موسٰی (علیه السلام) کے ہاتھ میںیہ شفید ی اور چمک کسی بیماری ( مثلا برص یاکوئی اسی جیسی چیز ) کی وجہ سے نہ تھی . بلکہ یہ نور الہٰی تھا جو باکل ایک نئی قسم کاتھا ۔
جب حضرت موسٰی (علیه السلام) نے اس سنسان کوہسار اوراس تاریک رات میں یہ دو خارق عادت معمول چیزیں دیکھیں توان پر لرزہ طاری ہوگیا . چانچہ اس لیے کہ ان کااطمینان قلب واپس آجائے انھیں حکم دیاگیا کہ اپنے سینے پراپنا ہاتھ پھیریں تاکہ دل کو راحت ہوجائے :
( واضمم الیک جنا حک من الرحب ) ۔
مذکورہ آیت کے متعلق بعض لوگو ں کاخیال ہے کہ اس سے مراد ہے کہ موسٰی (علیه السلام) اپنے فرض کی ادائیگی اور پیام الہٰی کے پہنچا نے میں ثابت قدم اور راسخ العزم رہیں اور کسی مقام اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہ کھائیں ۔
بعض حضرات کاذہن اس طرف منتقل ہواہے کہ جس وقت عصانے سانپ کی شکل اختیار کرلی تو موسٰی (علیه السلام) نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ اپنی مدافت کریں لیکن جناح (بازو ) کا استعمال نہایت فصیح ہے . غالبا اس تشبہ سے مقصود یہ ہے کہ انسان کی حالت میں اس پرندہ کی سی ہے جب وہ کوئی خوفناک منظر دیکھتاہے تو اپنے پر پھڑ پھڑا تاہے . لیکن جب وہ بحالت سکون ہوتاہے تواپنے پراور بازو سمیٹ لیتاہے ۔
اس کے بعد موسٰی نے پھر وہی صدا سنی جوکہہ رہی تھی : خد اکی طرف سے تجھے یہ د و دلیلیں فرعون اوراس کے ساتھیوں کے مقابلے کے لیے دی جارہی ہیں کیونکہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ہیں :
( فذانک برھانان من ربک الی فرعون وملائہ انھم کانوا قوما فاسقین )۔
یہ لوگ خداکی اطاعت سے نکل گئے ہیں اور سرکشی کی انتہاتک جاپہنچے ہیں . تمہارا فرض ہے کہ انھیں نصیحب کرو اور راہ راست کی تبلیغ کرو اور اگروہ تمہاری بات نہ مانیں توان سے جنگ کرو ۔
اس موقع پرموسٰی (علیه السلام) کواپنی زندگی کاوہ اہم حاد ثہ یاد آگیا جومصر میں پیش آیاتھا .یعنی ایک قبطی کوقتل کرنا . اور فرعون کی پولیس کااس قبطی کے خون کابدلہ لینے کے لیے پختہ ارادہ . اگر چہ موسٰی (علیه السلام) ایک مظلوم کی حمایت میں اس قبطی سے لڑ ے تھے مگر فرعون کی منطق میں یہ عذر بے معنی تھا . اب بھی تہیہ کیے ہوئے تھا کہ اگر موسٰی (علیه السلام) اسے کہیں مل جائیں توانھیں بے چون و چراقتل کرادے .اس لیے موسٰی (علیه السلام) عرض کرتے ہیں : خدایا ! میں نے توان میں سے ایک آدمی کو قتل کیاہے .مجھے خوف ہے کہ و ہ اس کے انتقام میں مجھے قتل کردیں گے اورمیں اپنافرض ادانہ کرسکوں گا :
(قال رب انی قتلف منھم نفسا فاخافا ان یقتلون ) ۔
(حضرت موسٰی (علیه السلام) نے درگاہ باری تعالیٰ میں عرض کی ) علاوہ بریں میںتنہا ہوں اور میری زبان بھی فصیح نہیں ہے .تو میرے بھائی ہارون کوبھی میرے ساتھ بھیج کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح زبان ہے .تاکہ وہ میری مدد کرے اور تصدیق بھی مجھے اس بات کاخوف ہے کہ میںتنہا ہوں گا تو لوگ مجھے جھٹلا ئیں گے :
( واخی ھارون ھوا فصح منی لسانافارسلہ معی ردا یصدقنی انی اخاف ان یکذبون ) ۔
” افصح “ کاماد ہ ” فصیح “ ہے .اس کے لغوی معنی کسی چیز کے خالص ہونے کے ہیں . مراد ہے ” سخن خالص “ یعنی ہرقسم کے حشوو زواید سے خالی ۔
” رد ء “ بمعنی معین و یا د ور ۔
بہر حال چونکہ یہ ماموریت بہت اہم اور عظیم تھی ، اس لیے حضرت موسٰی (علیه السلام) کی آرزو تھی کہ انھیں شکست ہرگز نہ ہو .اس لیے انھوں نے خداسے یہ تقاضاکیا ۔
خدانے بھی ان کی دعاکو قبولیت بخشا . انھیں اطمینان دلایا اور فرما : ہم تمہارے بازؤں کوتمہارے بھائی کے وسیلہ سے محکم کریں گے :
( قال سنشد عضدک باخیک ) ۔
اورتمہیں ہرمرحلے پرغلبہ اور برتری عطاکریں گے :
( ونجعل لکما سلطانا ) ۔
قطعی مطمئن رہو ! وہ لوگ ہر گز تم پرغالب نہ ہوں گے اور ان معجزوں کی برکت سے وہ نہ تو تم پرمسلط ہوں گے نہ تمہارے مقابلے میںفتح مند ہوں گے :
( فلایصلون الیکما با یاتنا ) ۔
بلکہ تم اورتمہارے پیرو ہی غالب اور فیروزمند رہیں گے :
( انتما ومن اتبعکما الغالبون ) ۔
یہ کیسی عظیم نوید اور کتنی بزرگ بشارت تھی .ایسی نوید وبشارت جس نے موسٰی کے دل کوگرم ،ان کے ارادہ کو پختہ اور عزم کومحکم کر دیا . اس نوید کے روشن اثر ات کوہم اس داستان کے آئند ہ بیان میںدیکھیں گے (۳)۔

۱۔ایک اور بات بھی ہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کواسرار آفرینش میںغور کرنے اورپنی شخصیف کی تکمیل کے لے بھی ایک طویل وقت کی ضرورت تھی اس مقصد کے لیے بیا بان مدین اور خانئہ شعیب (علیه السلام) سے بہتر اورکونسی جگہ ہوسکتی تھی ۔
۲۔ اعلام قرآن ،ص ۴۰۹۔
۳۔ اسی خوالے سے تفسیر نمونہ کی جلد ۳۱ ، ۶ اور ۱۵ میں بالترتیب سورئہ طٰہٰ ، اعراف اور شعرء کی تفسیر میں مزید مباحث بھی موجود ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma