بنی اسرائیل کے خود پرست سرمایہ دار :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 16

حضرت موسٰی علیہ السلام کی عجیب و غریب سرگزشت : اور فرعون کے خلاف ان کے جہاد کے بارے میں کچھ تفصیلات اسی سورت کی گزشتہ آیات میں بیان کی
گئی ہیں اور اس سلسلے مین کہنے کی باتیں کہی جاچکی ہیں .مذکورہ گفتگو بہت ہدایت بخش تھی ۔
اس سورہ کی کچھ ایات بنی اسرا ئیل کے ایک اور مسئلے اور الجھن سے متعلق ہیں. مسئلہ یہ ہے کہ ا ن میں ایک سرکش سرمایہ دار تھا . اس کانام قارون تھا .قار و ن غرور و سرکشی میں مست کردینے والی دو لت کامظہر تھا ۔
اصولی طور پر حضرت موسٰی علیہ السلا م نے اپنی زندگی میں تین متجاو ز طاغوتی طاقتوں کے خلاف جہاد کیا .ایک فرعون تھا جو حکومت و اقتدا ر کامظہر تھ. دوسرا قارون تھا .جو ثروت و دولت کامظہر تھااور تیسراسامری تھاکہ جو مکر و فریب کام ظہرتھا . اگرچہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا سب سے بڑا معرکہ حکومت کے خلاف تھا لیکن دوسرے معرکے بھی اہم تھے او ر وہ بھی عظیم ترین نکات کے حامل ہیں۔
مشہور ہے کہ قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کے قریبی رشتہ دار تھا یا( چچا زاد تھا اوریا خالہ زاد ) . اس نے تورا ت کا خوب مطالعہ کیا تھا . پہلے وہ مومنین میں تھالیکن دولت کا گھمنڈ اسے کفرکی آغوش میں لے گیا اوراسے زمین میںغرق کردیا . اس غرور نے اس پیغمبرخداکے خلاف جنگ پر آمادہ کیااو ر اس کی موت سب کے لیے باعث عبرت بن گیٴ . اس واقعے کی تفصیل ہم زیر بحث آیات میں بڑھیںگے ۔
ارشاد ہوتاہے :قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا لیکن اس نے ان پرظلم کیا ( ان قارون کان من قوم موسٰی فبغٰی علیھم )۔
اس ظلم کاسبب یہ تھا کہ اس نے بہت سی دولت کمالی تھا اور چونکہ اس کاظرف کم تھا اورایمان مضبوط نہ تھا اس لیے فراواں دولت نے اسے بہکادیا اوراسے انحراف و استکبار کی طرف لے گئی ۔
قرآن کہتاہے :ہم نے اسے مال و دولت کے اتنے خزانے دیے کہ انہیں اٹھاناایک طاقتور گروہ کے لیے بھی مشکل تھا . ( واتیناہ منالکنوز ما ان مفاتحہ لتنوء بالعصبة اولی القوة )۔
” مفاتح “ ” مفتح “ ( بروزن ” مکتب “ )کی جمع ہے .اس کامعنی ہے ایسی جگہ جس میں کوئی چیز ذخیرہ کر تے ہیں مثلا صندوق کہ جس میں اموال و اشیاء محفوظ رکھتے ہیں۔
اس معنی کے لحاظ سے آیت کامفہوم یہ ہوگا کہ قررون کے پاس اس قدر سونا چاندی اور قیمتی اموال تھے کہ ان کے صندوقوں کو طاقتور لوگوں کاایک گروہ بڑی مشکل سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتاتھا ۔
توجہ رہے کہ ” عصبہ“ اس گروہ کو کہتے ہیں کہ جس نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوں،جس کے افراد بہت طاقتور ہوں اوراعصاب کی طرح ایک دوسرے کو پکڑ ے ہوں۔
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ قارون کے جواہرات اور گروں قیمت اموال کاجحم کس قدر زیادہ تھا ۔
بعض کہتے ہیں” عصبہ “ دس سے لے کر چالیس افراد تک کے گروہ کوکہتے ہیں۔
لفظ ” تنوء “ ” ننوء “ کے مادہ سے ز حمت و مشقت سے اٹھنے کے معنی ہے او ر بہت وزنی اموال کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے جب انسان اسے اٹھا تاہے تو بوجھ کے باعث ایک طرف سے دوسری طرف چھک جاتاہے ۔
” مفاتح “ کی تفسیر میں جوکچھ ہم نے سطور بالا میں بیان کیاہے اسے مفسرین اور علماء لغت کی ایک جماعت نے قبول کی. جب کہ بعض دوسرے علماء نے ” مفاتح “ کو ” مفتح ‘ ‘ ( بروزن ” منبر“ )کی جمع قرار دیا ہے جس کامعنی ہے چابی . یہ مفسرین کہتے ہیں کہ قارون کے خزانوں کی چابیاں اتنی تھیں کہ کیٴ طاقتور افراد بڑی مشکل سے انہیں اٹھا پاتے تھے ۔
جن لوگوں نے یہ دوسرا معنی اپنایا ہے وہ خود اپنے اس معنی کی توجیہ میں مشکل دوچار ہوگئے ہیں کہ خزانے کی چابیوں کے لیے ایسا کیونکر ممکن ہے . بہر حال پہلی تفسیر زیادہ واضح اور زیادہ صحیح ہے . کیونکہ اس سے قطع نظر کہ اہل لغت نے ” مفتح “ کے بھی کئی معانی بیان کیے ہیں ان میں س ے ایک معنی ” خزانہ “ ہی ہے یعنی مال جمع کرنے کی جگہ لیکن پہلامعنی حقیقت سے نزدیک تر اور ہر قسم کے مبالغہ سے پاک ہے . البتہ ” مفاتیح “ ” مفتاح “ کی جمع ہے جس کامعنی ہے چابی . انالفاظ سے اشتباہ نہیں ہوناچاہیئے (۱) ۔
آیئے اس بحث سے آگے بڑ ھیں او ر دیکھیں کہ بنی اسرئیل نے قارون سے کیاکہا :
قرآن کہتاہے -: ا س وقت کو یاد کر و جب اس کی قوم نے اس سے کہا : تم میں ایسی خوشی نہیں ہونی چاہیئے جس میں تکبر اورغفلت ہو کیونکہ خدا غرو ر میں ڈوبے ہو ئے خوشحال افراد کو پسند نہیں کرت.( اذ قال لہ قومہ لاتفرح اناللہ لا یحب الفرحین ) (۲)۔
اس کے بعد چار اور قیمتی ، سرنوشت ساز اور تربیتی نصیحتیں کرتے ہیں.اس طرح کل پانچ ہوگئیں۔
پہلے کہتے ہیں: اللہ نے جو کچھ تجھے دیاہے اس سے دار آخرت حاصل کر. ( وابتغ فیمااتاک اللہ الدارالاخرة
یہ اس طرف ارشارہ ہے کہ بعض کج فہم افراد کے خیال کے برخلاف ما ل و دولت کوئی بری چیز نہیں ہے .اہم بات یہ ہے کہ وہ کس راستے پرصرف ہورہاہے . اگر اس کے ذریعے دار آخرت کو تلاش کیاجائے توپھر اس سے بہتر کیاہوسکتاہے لیکن اگر وہ غرور ، غفلت ،ظلم ،تجاوز اور ہوس پرستی کاذریعہ بن جائے توپھر اس سے بدتر بھی کوئی چیز نہیں۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ اسلام نے یہی منطق دنیا کے بارے میں اپنے ایک مشہور جملے میں بیان فرمائی ہے : ( من ا لبصربھا بصرتہ و من البصرالیھا اعمتہ ) ۔
اگر کوئی دنیا کو ایک ذریعہ جانتے ہوئے اس کی طرف دیکھے تو یہ اس کی آنکھ کو بنیاد کردیتی ہے مگر جواسے مقصد قرار دیتے ہوئے اس کی جانب دیکھے تو یہ اس ے نابیناکردیتی ہے (۳) ۔
قارون اپنی بے پناہ دولت کی بناء پر بہت سے اجتماعی امور خیر انجام دینے کی صلاحیت رکھتاتھا . لیکن اس کے غرو ر و تکبر نے اسے حقائق دیکھنے کی اجازت نہ دی ۔
انہوں نے مزید کہا: دنیا دسے اپنے حصے کونہ بھول ج. (ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرانسان کااس دنیا میں ایک محدود حصہ ہے یعنی وہ مال جواس کے بدن ،لباس اورمکان کے لیے درکار ہوتاہے اوران پر صرف ہوتاہے اس کی مقدار معین ہے ایک خاص مقدار سے زیادہ اس کے لیے قابل جذب ہی نہیں ہوت. انسان کویہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیئے ۔
ایک انسان کتنی غذاکھاسکتاہے ، کتنا لباس پہن سکتاہے اوراسے کتنے مکانووں اور سواریوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟ مرتے وقت انسان کتنے کفن ساتھ لے سکتاہے ؟ لہذا باقی وہ چاہے نہ چاہے دوسروں کاحصہ ہے . اورانسان اس کا امانت دار ہے . امیر المومنین علی علیہ السلام نے کیا خو ب بیانفرمایاہے :
( یابنادم ماکسبت فوق قوتک فانت فیہ خازن لغیرک )
اے فرزند آدم : جوکچھ تو ... اپنی خوراک کی مقدار سے زیادہ حاصل کرتاہے اس کے بارے میں تو دوسروں کا خزانہ دار ہے (۴) ۔

اسلامی روایات اور کلمات مفسرین میں اس آیت کی ایک اور تفسیر بھی ملتی ہے اور ہوسکتاہے یہ بھی اس کا ایک معنی ہو کیونکہ ایک لفظ ایک سے زیادہ معانی میں استعمال ہوسکتاہے ۔
و ہ تفسیر یہ ہے کہ ... معانی الاخبار میں ہے کہ ” ولاتنس نصیبک من الدینا ) کی تفسیر میں حضرت المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :
ولاتنس صحتک وقدرتک و فراغک و شبابک و نشاطک ان تطلب بھا الا خرة
تندرستی ،قوت ، فراغت ،جوانی اورخوشی کو فراموش نہ کر اور ان( پانچ عظیم نعمتوں) کے ذریعے اپنی آخرت طلب کر ۔
اس تفسیر کے مطابق قرآن حکیم کامذکورہ بالا جملہ تمام انسان کومتنبہ کرتاہے کہ وہ میسرہ صلا حیتوں اور مواقع کو ضائع نہ کردیں کیونکہ مہلت کے لمحے بادلوں کی طرح گزرجاتے ہیں (۵) ۔
تیسری نصیحت یہ ہے : جیسے خدانے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی نیکی کر . ( واحسن کما احسن اللہ الیک ) ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان ہمیشہ اللہ کے احسان پرنظر لگائے ہوئے ہے اوراس کی بارگاہ سے ہر خیرکا تقاضاکر رہاہے اور اسی سے ہر قسم کی توقع باندھے ہوئے ہے تواس سے وہ کیونکر کسی کے صریح تقاضے کو یازبان حال کے تقاضے کو نظر انداز کرسکتاہے اوراس سے کیسے بے اعتنائی برت سکتاہے . دوسرے لفظو ں میںیہ ہے کہ جیسے خدانے تجھ پر عنایت کی ہے توبھی دوسروں س ے نیکی کر . سورہ ٴ نور کی آیت ۲۲ میںعفود در گزر کے بارے میں ایسی ہی بات کہی گئی ہے .ارشاد ہوتاہے : ولیعفوا ولیصفحو ا الا تحبون ان یغفراللہ لکم ۔
مومنین کوچاہیئے کہ عفود در گزر سے کام لیں . کیا تمہیںیہ بات پسند نہیں کہ اللہ تمہیں بخش دے ۔
دوسرے لفظوں میںیہ کہاجاسکتاہے کہ بعض اوقات خدا انسان کو عظیم نعمتیںنہیں دیتاہے جب کہ اسے اپنی ذاتی زندگی میں ان سب کی احتیاج نہیں ہوتی . مثلا کسی کو خدا ایسی عقل دیتاہے کہ جو نہ صرف ایک فردہ نظا م چلانے کے لیے کافی ہوتی ہے بلکہ ایک ملک کوکنٹرول کرسکتی ہے . کسی کو و ہ ایسا علم دیتاہے جو نہ صرف ایک انسان ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک معاشرے کے لیے کار مند ہو سکتاہے . کسی کو وہ ایسا مال دیتاہے کہ جو بڑے بڑے اجتماعی پرو گراموں کے لیے کافی ہوتاہے . اس قسم کی نعمات الہی کا مفہوم یہ ہے کہ یہ سب کی سب تیری ایک ذات سے متعلق نہیں بلکہ انہیں دوسروں کی طرف منتقل کرنے کے لیے تو امانت دار اور وکیل ہے . اللہ نے تجھے یہ نعمت اس لیے دی ہے تاکہ تیرے ہاتھ سے اپنے بند وں کا نظام چلائے ۔
آخرمیں چوتھی نصیحت یہ ہے : کہیں ایسانہ ہو کہ یہ مادہ و سائل تجھے دھوکہ دیں اور تو انہیں گناہ اور دعوت گناہ میںصرف کردے ” زمین میں ہرگز گناہ و فساد نہ کر کیونکہ اللہ مفسدین کو پسند نہیں کرتا “ ( ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لایحب المفسدین)۔
یہ بھ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات دولت منداور سرمایہ دار ہیں زریا بڑ ا بنے کے جنون میں خرابی کرتے ہیں اور معاشرے کو محرو میت اور فقرو فاقہ میں مبتلا کردیتے ہیں. ہر چیز اپنے لیے ہی منحصر کرلیتے ہیں، لوگوں کواپنا غلام بناکر معاشرے سے ایک طرف کردیتے ہیں . خلاصہ یہ کہ معاشرے کو خرابی و تباہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ان ناصحین نے پہلے قارون کا غرو ر ختم کرنے کی کوشش کی ، پھر اسے خبر دار کیا کہ دنیا و سیلہ ہے مقصد نہیں ہے .تیسرمرحلے میں اسے متنبہ کیاکہ جو کچھ تیرے پاس ہے اس میں س ے تو اپنے لیے تھوڑا ساخرچ کرسکتاہے . پھر اسے یہ حقیقت یاد دلائی کہ خدا نے تیرے ساتھ نیکی کی ہے تجھے بھی نیکی کرنے چاہیئے ورنہ وہ اپنی نعمتیں تجھ سے چھین لے گا اور پانچویں مرحلے میں اسے زمین میں خرابی برپاکرنے سے ڈاریا اور یہ آخری بات پہلی چار باتوں کاحاصل ہے ۔
صحیح طور پر معلوم نہیں کہ نصیحت کرنے والے یہ افراد کون تھے .البتہ یہ بات مسلّم ہے کہ وہ اہل علم، پرہیز گار ، زیرک بابصیرت اور خرآت مند افراد تھے . بعض نے یہ احتمال ظاہر کیاہے کہ وہ خودحضرت موسٰی علیہ السلام تھے ، لیکن یہ بات بہت بعید ہے کیونکہ قرآن کہتاہے ۔
اذ قال لہ قومہ
قارون کی قوم نے اس سے کہا :
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس سرکش بنی اسرائیل نے ان ہمدرد وا عظین کو کیا جواب دیا ۔
قارون تو اپنی اس بے حساب ادولت کے نشے میں چو ر تھا اس نے اسی غرور سے کہا: میں نے یہ سب دولت اپنے علم و دانش کے بل بوتے پر حاصل کی ہے : (قال انمااوتیتہ علی علم عندی ) .تمہیں اس سے کیا کہ میں اپنی دولت کیسے خرچ کرتاہوں. جومیں نے کمایا اسے خود کمایا ہے تو پھر صرف کرنے میں بھی مجھے تمہاری راہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے . علاوہ ازیںیقینا خدامجھے اس دولت کے لائق سمجھتاتھا تبھی اس نے مجھے عطاکی ہے اوراسے صرف کرنے کی راہ بھی اس نے مجھے بتائی ہے . میں دوسرں س ے بہتر جانتاہوں.تمہیں اس میں دخیل ہونے کی ضرورت نہیں. ان سب باتوں س ے قطع نظر زحمت میں نے کی ہے ، تکلیف میں نے اٹھائی ہے ، خون جگر پیاہے تب کہیںیہ دولت جمع کی ہے ، دوسروں کے پاس بھی ایسی لیاقت و توانائی ہوتی تو وہ زحمت و کوشش کیوںنہ کرتے . میں نے کوئی ان کا راستہ تو نہیں روک رکھا اور اگر ان میں اس کی لیاقت نہیں ہے تو پھر کیاہی اچھا ہے کہ بھوکے رہیں اور مرجائیں (۶) ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن نے اس باب کو اجمالا بیان کیا ہے کہ قارون کس علم کے بل پردولت جمع کرتاتھا ۔
کیاوہ علم کیمیاتھا ،جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے یاپھر تجارت ، زراعت اورصنعت کاعلم تھا یاپھر کیاوہ انتظامی صلاحیت او ر علم کاحامل تھا یاسب امور تھے . بعید نہیں کہ آیت کا مفہوم وسیع ہو اور یہ ان سب امور کی طرف اشارہ کررہی ہو .( قطع نظر اس کے کہ بات میں کتنی حقیقت ہے کہ علم کیمیا کے ذریعے تانبے کو سونے میں تبدیل کیاجاسکتاہے ) ۔
اس موقع پر قرآن قارون اور اس جیسے دیگر افراد ایک تیکھا جواب دیتاہے : کیااسے معلوم نہ تھا کہ خدانے اس سے پہلے کئی ایسی قوموں کو ہلاک کردیا کہ جواس سے زیادہ طاقتور تھیں، علم میں بڑھ کرتھیں اور سرمایہ بھی ان کے پاس زیادہ تھا ۔
( اولم یعلم ان اللہ قد اھلک من قلبہ من القرو ن من ھواشد منہ قوة واکثرجمعا) ۔
تو کہتاہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میرے علم کی بدولت ہے لیکن تو بھو ل گیا ہے کہ تجھ سے زیادہ علم والے اور زیادہ طاقتور افراد بھی تھے . کیا وہ عذاب الہٰی سے بچ سکے ہیں؟
مااتاکا اللہ ...
اللہ نے جو کچھ تجھے عطاکیاہے :
میرے پاس جو کچھ ہے وہ میرے علم کی بدولت ہے ۔
اللہ تعالی اپنے اراد ے اور مشیت کاذکر کرکے اس کی حیثیت و طاقت کے چھوٹے پن کو ظاہر کرتاہے ۔
آیت کے آخر میں ایک مختصر اور معنی خیز جملے کے ذریعے ایک اور تنبیہ کرتاہے :” عذاب الہٰی کے نزول کے وقت مجرموں س ے ان کے گناہ کے بارے میں س وال نہیں ہوگا “ . اس وقت سوال و جوا ب گنجائش ہرگز نہ ہوگی ، اس وقت تو قاطع ،درد ناک ، تکلیف و ہ اور ناگہانی عذاب ہوگا ( ولایسئل عن ذنوبھم المجرمون) ۔
یعنی ... آج تو بنی اسرائیل کے آگاہ افراد اوراہل دانش قارون کونصیحت کررہے ہیں، اسے غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں اور اس کے پاس جواب دینے کی گنجائش ہے لیکن جب اتمام حجت ہوچکا اور عذاب الہٰی آگیا تو پھر غور و فکر کرنے ، اِدھر اُ دھر کی باتیں کرنے اور غرور و تکبر کے اظہار کی گنجائش نہ ہوگی . پھر عذاب الہٰی آکر رہے گا اور پھر تباہی ناگزیرہے ۔
یہاںیہ سوال سامنے آتاہے کہ یہاں جوکہاگیا ہے کہ مجرمین سے سوال نہ ہوگا ، اس سے کونسا سوال مراد ہے ؟دنیا کایاآخرت کا ؟
بعض مفسرین نے پہلا سوال مراد لیا ہے او ر بعض نے دوسرا لیکن کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں جگہ پر سوال مراد ہو یعنی سزا ئے استحصال کے موقع پردنیا میں ان سے سوال نہ ہوگا تاکہ وہ روگرادانی اور عذرترزشی کریں اور وہ اپنے آپ کو بے گناہ ظاہر کریں اور قیامت میں بھی ان سے سوال نہ ہوگا کیونکہ وہاں س وال کے بغیر ہی سب کچھ واضح ہوگا اور قرآن کے بقول مجرموں کی حالت پرخود ان کے چہرے گواہ ہوں گے :
یعرف المجرمون بسیماھم
یعنی . مجرم تو اپنی کیفت ہی سے پہچانے جائیں گے ۔ ( رحمن ، آیت . ۴۱)
اس طرح زیر بحث آیت سورہ رحمن کی آیت ۳۹ سے ہم آہنگ ہے جس میں فر مایاگیا ہے :
فیومئذ لایسئل عن ذنبہ انس ولاجان
اس دن کسی بھی انسان یاجن سے اس کے گناہ کے بارے میں س وال نہیں ہوگا ۔
اس مقام پر ایک اور سوال سامنے آتاہے .وہ یہ کہ سورہ حجر کی آیت ۹۲ میں تو ہے :
فوربک لنسئلنھم اجمعین
تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے سوال کریںگے ۔
یہ آیت زیربحث آیت سے ہم آہنگ ہے ؟
اس سوال کاجواب دو طریقوں س ے دیاجاسکتاہے :
پہلا : یہ کہ قیامت کے مختلف مرحلے ہوںگے بعض مراحل پرسوال ہوگا اور بعض پرسب چیزیں واضح ہوچکنے کی وجہ سے سوال کی ضرورت نہ رہے گی ۔
دوسرایہ کہ سوال دو قسم کا ہے :
۱۔ سوال تحقیق اور
۲۔ سوال سرزنش
قیامت کے روز تحقیق کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ہر چیز آشکار ہوگی اور بیان کی احتیاج نہ ہوگی لیکن سرزنش آمیز سوال وہاں ہوگا اور یہ خود مجرموں کے لیے ایک طرح کی نفسیاتی سزا ہوگی ۔
یہ باکل ایسے ہے جیسے ایک باپ اپنے ناخلف بیٹے سے پوچھتاہے کہ کیامیں نے تیر ی اتنی خدمت نہ کی تھی . کیا ان خدمات کاصلہ یہ خیانت اور سرکشی تھا ( جب سے باپ اور بیٹا دونوں آگاہ ہوتے ہیں اور باپ کامقصد بیٹے کو سرزنش کرناہوتاہے ) ۔
۱۔ بعض مفسرین نے یہاںچابی کیلئے بھی ایک مجازی معنی ذکر کیاہے اور کہاہے کہ مراد یہ ہے کہ ان تمام اموال کی چابی سنبھالنا اور ان کی حفاظت کرنا طاقتور لوگوںکے لیے بھی مشکل تھالیکن تفسیر بھی بہت بعید معلوم ہوتی ہے . ( اس لفظ کے مفہوم کو تفصیل سے جاننے کے لیے ” لسان العرب “ کی طرف رجوع فرمائیں) ۔
۲ ۔ ” فرحین “ ” فرح “ کی جمع ہے اس کا معنی ہے وہ شخص کہ جو پالینے کی وجہ سے مغرور ہوگیا ہو او ر خوشی سے پھو لانہ سماتاہو ۔
۳ ۔ نہج البلا غہ ،خطبہ ۸۲ ۔
۴ ۔نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، ص ۱۹۲۔
۵ ۔ تفسیر نوراثقلین ، ج۴،ص ۱۳۹ ، بحوالہ معانی الاخبار ۔
۶۔ ” او تیتہ علی علم عندی “ اس جملے میں مذ کورہ بالا ایک یاتینوں معامی ہو سکتے ہیں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma