وما انزل الیھم من ربھم “ سے مراد تمام آسمانی کتب اور خدائی احکام ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو

گذشتہ آیات میں اہل کتاب کے طور طریقوں اور طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے ۔ اب ان دو آیا ت میں تربیتی اصول کے مطابق خدا تعالیٰ اہل کتاب میں سے منحر فین کو راہ ِ راست پر لانے ، انھیں حقیقی راستے کی نشاندہی کرنے اور ان میں سے اقلیت جو ان کے غلب افعال میں ہم قدم نہ تھی کی تعریف کرنے کے لئے کہتا ہے : اگر اہل کتاب ایمان لے آئیں اور تقویٰ اختیار کرلیں تو ہم ان کے گذشتہ گناہوں پر پر دہ ڈال دیں گے اور ان سے صرف ِ نظر کرلیں گے ۔ ( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ ) ۔نہ صرف ان کے گناہ بخش دیں گے بلکہ انھیں طرح طرح کی نعمتوں سے پرباغات ِ جنت میں داخۺ کریں گے (وَلَاٴَدْخَلْنَاہُمْ جَنَّاتِ النَّعِیم)ِ ۔یہ تو معنوی او راخروی نعمتوں کے بارے میں ہے ۔ اس کے بعد ایمان و تقویٰ کے گہرے اثر حتی مادی زندگی میں اس کے اثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اگر وہ تورات اور انجیل کو قائم رکھیں اور زندگی کے دستور العمل کے طور پر انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں او رجو کچھ پر ور دگار کی طرف سے ان پر نازل ہوا ہے اس سب پر عمل کریں چاہے وہ گذشتہ آسمانی کتب ہوں یا قرآن اور ان میں تفریق و تعصب کر راہ نہ دیں تو آسمان و زمین کی نعمتیں انھیں گھیر لیں گی( وَلَوْ اٴَنَّھُمْ اٴَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْھِمْ مِنْ رَبِّہِمْ لَاٴَکَلُوا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اٴَرْجُلِھِمْ ) ۔
اس میں شک نہیں کہ تورات اور انجیل کو قائم اور بر پا رکھنے سے مراد ان کا وہ حقیقی حصہ ہے جو اس زمانے میں ان کے پاس موجود تھا نہ ان کے تحریف شدہ حصے جو کم و بیش قرائن سے پہنچا نے جاتے تھے اور ” وما انزل الیھم من ربھم “ سے مراد تمام آسمانی کتب اور خدائی احکام ہیں کیونکہ یہ جملہ مطلق ہے اور در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ قومی تعصبات کو دینی او رالٰہی مسائل کے ساتھ نہیں ملانا چاہےئے ۔ یہاں عربوں اور یہودیوں کی آسمانی کتب کی بات نہیں ۔ اصل بات تو خدا ئی احکام کی ہے ۔ یہ کہہ کر قرآن چاہتا ہے کہ جس قدر ہو سکے ان کے تعصب کو کم کیا جائے اور ان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں بات اثر کرسکے۔ اسی لئے تمام ضمیریں انھیں کی طرف لوٹتی ہیں (الیھم ، من ربھم ، من فوقھم ، من تحت ارجلھم )یہ سب کچھ اس بنا پر ہے کہ تاکہ وہ ہٹ دھرمی کی سواری اتر پڑیں اور یہ تصور نہ کریں کہ قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے عربوں کے سامنے سر جھا دیا بلکہ اس کا مطلب تو خدائے عظیم کے سامنے جھکا نا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ تورات و انجیل کے احکام کو قائم، کرنے سے مراد ان کے اصول پر عمل کرنا ہے کیونکہ جیسے ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ تعلیمات ِ انبیاء کے اصول تمام جگہ ایک جیسے ہیں اور ان کے درمیان صرف کامل و اکمل کا فرق ہے او ریہ بات اس کے منافی نہیں کہ گذشتہ دین کے بعض احکام بعد والے دین کے بعض احکام کے ذریعے منسوخ ہو جا ئیں ۔
مختصر یہ کہ مندرجہ بالا آیت ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور د ے رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کی پیروری صرف بعد از موت کی زندگی کے اسباب مہیا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کی تمام مادی زندگی کے لئے بھی مفید ہے ۔ یہ پیروی جماعتوں او رگروہوں کی صفوں کو منظم کرتی ہے ، تونائیوں کومجتمع کرتی ہے ،نعمتوں کو با بر کت کرتی ہے ، وسائل کو وسعت دیتی ہے ، زندگی کو خوش حال بناتی ہے اور امن و امان میں پیدا کرتی ہے ۔
ان عظیم مادی مسائل او ر فراوان انسانی توانائیوں پر ایک نظر ڈالی جائے کہ جو آج کی دنیا ئے انسانیت میں تعلیمات ِ انبیاء سے انحراف کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ سب تباہ کن ہتھیار وں ، بے سبب کشمکشوں اور ویران کن مساعی پر صرف ہورہی ہیں ۔آج دنیا کی جتنی دولت اور وسائل دنیا کی تباہی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں وہ اصلاح و فلاح کے لئے استعمال ہونے والے مسائل سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ۔ آج کس قدر دماغی صلاحتیں جو جنگی ہتھیاروں کی تیاری اور استعماری و سامراجی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی ہیں ۔ جو وسائل و ذرائع ، صلاحتیں ، اور توانائیاں فضول اور بے کار صرف ہورہی ہیں ان کی نوع ِ انسانی کس قدر ضرورت مند اور محتاج ہے ۔ یہ سب نہ ہوتا تو دنیا آج خو ب صورت ، زیبا او ررہنے کے قابل ہو تی ۔
ضمنی طور پر توجہ رہے کہ ” من فوقھم “ اور ” من تحت ارجلھم “ سے مراد یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تمام نعمتیں انھیں گھیر لیں گی ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس بات کے لئے کنایہ ہو کہ یہ نعمات عمومیت رکھتی ہیں ۔ جیسا کہ عربی اور غیر عربی ادب میں کہا جاتا ہے کہ ” فلان شخص سر تا پا نعمتوں میں ڈوبا ہو اہے “ یعنی ہر طرف سے نعمتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں ۔
یہ آیت یہودیوں کی اس گفتگو کا جواب بھی ہے کہ جو گذشتہ آیات میں ہم بڑھ چکے ہیں ۔ یعنی اگر تم دیکھتے ہوکہ خد اکی نعمتیں تم سے منقطع ہو چکی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ذات مقدس ِ خدا میں بخل آگیا ہے ۔ او راس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، بلکہ یہ تو تمہارے اعمال ہی ہیں جو تمہاری مادی او رمعنوی زندگی میں منعکس ہو ئے ہیں او رتمہارے اعمال ہی نے تمہاری ہر طرح کی زندگی کو تاریک کردیا ہے اور جب تک تم نہیں پلٹو گے یہ تاریکیاں بھی نہیں پلٹیں گی ۔
آیت کے آخر میں ان میں سے ایک نیک اقلیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : اگر چہ ان میں سے زیادہ تر تو بد کار ہی ہیں لیکن پھر بھی کچھ میانہ رو اور معتدل افراد ان میں موجود ہیں ( جن کا معاملہ خد اکے نزدیک اور مخلوق خدا کے نزدیک دوسروں سے مختلف ہے ( مِنْھُمْ اٴُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِنھُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُونَ ) ۔
اہل کتاب میں سے نیک اور صالح اقلیت کے بارے میں سورہ ٴ اعراف آیہ ۱۵۹ اور ۱۸۱ اور سورہ ٴ آل ِ عمران آیہ ۷۵ میں بھی ایسی تعبیر دکھائی دیتی ہے ۔

اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma