تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
یہودیوں میں سے صالح اور غیر صالح افراد کا انجام تفسیر

گذشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہودی انبیا ء میں فرق کرتے تھے بعض کی تصدیق کرتے تھے اور بعض کی تر دید کرتے تھے ۔ زیر نظر آیات میں دوبارہ انھیں جواب دیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ہم نے تجھ پر وحی نازل کی جس طرح نوح اور اس کے بعد والے انبیا ء پر وحی بھیجی اور جیسے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب ، وہ پیغمبر جو اولاد یعقوب میں سے تھے ، عیسی ، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیما ن پر وحی نازل کی تھی اور داؤد کو زبور دی تھی
( إِنَّا اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا اٴَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطِ وَعِیسَی وَاٴَیُّوبَ وَیُونُسَ وَہَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا )لہٰذا ان بزرگ انبیا ء میں کیوں تفریق کرتے ہو جب کہ سب کے سب ایک ہی راستے کے مسافر ہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت کے مخاطب عرب کے مشرکین اور بت پرست ہوں جو پیغمبر اسلام پر نزول ِ وحی پر تعجب کرتے تھے ، آیت کہتی ہے کہ اس میں کون سی تعجب کی بات ہے ، کیا پہلے پیغمبروں پر وحی نازل نہیں ہوئی ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : وہ انبیاء جن پر وحی نازل ہوئی وہ یہی نہیں تھے بلکہ دوسرے پیغمبر کہ جن کاذکر تم سے پہلے کیا جاچکا ہے اور وہ پیغمبر کہ جن کا قصہ ابھی تک بیان نہیں ہوا ۔ سب کی یہی ماموریت تھی اور ان پر بھی وحی نازل ہو تی رہی (ورسلا قد قصصنا ھم علیک من قبل و رسلا لم نقصصھم علیک ) اور اس سے بالا تر یہ کہ خدا نے موسی ٰ سے کلام کیا (وکلمہ اللہ موسیٰ تکلیماً
لہٰذا رشتہ وحی تو ہمیشہ سے نوع ِ بشر میں تھا اور کیسے ممکن ہے کہ ہم نوعِ انسانی کو بغیر را ہبر ورا ہنما کے چھو ڑ دیں ، اور پھر ان کے لیے جو ابدہی اور ذمہ داری کے قائل ہوں ؟ لہٰذا ہم نے ” ان پیغمبروں کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا قرار دیا تاکہ خدا کی رحمت اور ثواب کا لوگوں کو امید وار بنائیں اور اس کی سزاؤں سے ڈارائیں تاکہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہو جائے اور ان کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے “
( رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِاٴَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ )
خدانے ان رہبرو ں کو بھیجنے کا پروگرام نہایت باریک بینی سے منظم اور جاری کیا ہے ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ” وہ تمام چیزوں پر توانائی رکھتا ہے اور حکیم (بھی ) ہے “ (وکا ن اللہ عزیزاً حکیما )اس کی حکمت سبب بنتی ہے کہ یہ کام عملی صورت اختیار کرے او راس کی قد رت راہ ہموار کرتی ہے کیونکہ ایک صیح پر وگرام اگر انجام پذیر نہ ہوتو اس کی وجہ یا عدم حکمت ہوگی یاعدم قدرت ۔۔۔۔حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نقص خدا کی ذات پاک میں نہیں ہے ۔
آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کی دلجوئی اور تسلی کے لیے کہتا ہے ( لکن اللہ بشھد بما انزل الیک )
البتہ اس مقصد کے لیے تمہارا انتخاب بلا وجہ نہیں تھا بلکہ تمہاری اصلیت کو جانتے ہوئے اس نے یہ آیات تم پر نازل کی ہیں (انزلہ بعلمہ
ممکن ہے یہ جملہ ایک اور مفہوم کا بھی حامل ہوا ور وہ یہ کہ جو کچھ تم پر نازل ہواہے اس کاسر چشمہ علم الہی کا دریائے بے کنار ہے اور اس کے مضامین شاہد ہیں کہ ان کاسرچشمہ علم الہی ہے اس لیے تمھارے دعوی کی صداقت کی گواہی خود متن ِ آیات میں ثبت ہے اور کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیسے ممکن ہے جس شخص نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا وہ علم الہٰی کے بغیر ایک ایسی کتا ب لے کر آئے جو اعلی ٰ ترین تعلیمات ، فلسفوف، قوانین ، اخلاقی احکام اور اجتماعی پروگرام پر مشتمل ہو ۔
آخر میں مزید فرماتا ہے : نہ صرف خدا تمھاری حقانیت کی گواہی دیتا ہے بلکہ فرشتگا ن الہی بھی گواہی دیتے ہیں ، اگر چہ خدا کی گواہی کافی ہے

 (والملٰئکة یشھدون وکفٰی باللہ شھیداً)

چند اہم نکات

۱۔اسلام تمام ادیان کی خوبیوں کا امتزاج ہے : بعض مفسّرین ” انا اوحینا الیک کما اوحینا -الخ“ کے جملے سے استفا دہ کرتے ہیں کہ قرآن چاہتا ہے کہ پیغمبر سے یہ نکتہ کہے کہ تمھا رے دین میں تمام خصوصیات اور امتیا زات جمع ہیں جو گذشتہ ادیان میں تھے ۔۔۔۔۔۔۔گو یا
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری
یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو خوبیا ں ان سب میں الگ الگ ہیں وہ تجھ اکیلے میں ہیں
بعض روا یات اہل بیت میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے اور مفسیرین نے بھی در اصل انھیں روایات سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے ۔۱
آسمانی کتب کی اقسام : مند جہ بالا آیت میں ہے کہ زبور آسمانی کتب میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤ د کو دی تھی ۔ یہ بات اس امر کے منافی نہیں جو مسلم اور مشہور ہے کہ نئی شریعت کے حامل اور صا حب کتاب الو العزم پیغمبر پا نچ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ کیونکہ جیسا کہ آیات قرآنی اور روایات ِ اسلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ پیغمبر انِ الہی پر نازل ہونے والی
آسمانی کتب دو طرح کی ہیں
پہلی قسم ۔ ان کتب کی ہے جن میں احکام ِ تشریعی تھے اور جو نئی شریعت کا اعلان کرتی تھیں اور وہ پانچ سے زیادہ نہیں ہیں جو کہ پا نچ اولو العزم پیغمبروں پر نازل ہو ئیں ۔
دو سر ی قسم ۔ان کتب کی ہے جن میں کوئی نئے احکام نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں پند و نصائح ، رہنمائی ، و صّیتیں اور دعائیں ہوتی تھیں ۔ زبور بھی اسی طرح کی کتاب ہے ۔” مزا میر داؤد “ یا ” زبور داؤد “ جو کہ عہد قدیم کی کتب میں شمار ہوتی ہے اس حقیقت پر شاہد ہے اگر چہ یہ کتاب بھی عہد قدیم وجدید کی دیگر کتب کی طرح تحریف و تغّیر سے محفوظ نہیں رہی لیکن پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک وہ اپنی شکل وصورت میں باقی ہے یہ کتاب ایک سو پچاس فصلوں پر مشتمل ہے جن میں ہر ایک کو مزمور کہتے ہیں اس کی تمام فصلیں پند و نصائح اور دعا ومنا جات پر مشتمل ہیں ۔
حضرت ابوزر سے ایک روایت میں منقو ل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ انبیا ء کی تعداد کتنی ہے ؟ تو آپ نے فرفایا :
ایک لاکھ چوبیس ہزار ۔
میں نے عرض کیا : ان میں سے رسو ل کتنے تھے ؟
آپ نے فرمایا : تین سوتیر ہ ، اور باقی صرف نبی تھے ۔
ابوزر کہتے ہیں میں نے پوچھا : آسمانی کتابیں جو ان پر نازل ہوئیں وہ کتنی تھیں
آپ نے فرمایا : وہ ایک سو چار کتابیں ہیں جن میں سے دس کتابیں آدم پر ، پچاس کتابیںشیث پر ، تیس کتابیں ادریس پر اور دس کتابیں ابرا ہیم پر

(جوکل ۱۰۰سو ہوئیں ) اور تورات ، انجیل ، زبور اور قرآن مجید ۔(مجمع البیان ج ۱۰ صفحہ ۴۷۶)
۳۔ اسباط سے کیا مرا د ہے : اسباط جمع ہے سبط (بروزن سَبَد ) کی جس کا مطلب ہے ، بنی اسرائیل کے قبائل ، لیکن یہاں مقصود وہ پیغمبر ہیں جو ان قبائل میں مبعو ث ہوئے تھے۔ 2
۴۔ انبیا ء پر نزول وحی کی کیفیّت :۔ انبیاء پر نزول ِ وحی کی کیفیّت مختلف تھی ۔کبھی نزول وحی کے فرشتے کے ذریعے وحی آتی ، کبھی دل میں الہام کے ذریعے سے اور کبھی آواز سنائی دیتی ۔ اس طرح کہ خدا تعالیٰ فضا میں یا اجسام میں صوتی لہریں پیدا کر دیتا اور اس طرح سے اپنے پیغمبر سے گفتگوکرتا ، ان میں سے کہ جنھیں واضح طور پر یہ امتیاز حاصل ہو ا ایک حضرت موسیٰ بن عمران تھے جو کبھی شجرہ وادیٴ ِ ایمن سے صوتی لہریں سنتے اور کبھی کوہ طو ر سے انھیں آواز سنائی دیتی ۔ اس لیے حضرت موسی ٰ کو کلیم اللہ کا لقب دیا گیا ہے ۔ مندر جہ بالا آیات میں حضرت موسیٰ کا جدا گانہ تذکرہ شاید ان کے اسی امتیاز کی وجہ سے ہو ۔

۱۶۷۔إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلاَلًا بَعِیدًا
۱۶۸۔ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ یَکُنْ اللهُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَلِیَہْدِیَہُمْ طَرِیقًا
۱۶۹۔ إِلاَّ طَرِیقَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیہَا اٴَبَدًا وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرا
ترجمہ
۱۶۷۔ جو لوگ کا فر ہوگئے ہیں اور انھوںنے لوگوں کو راہ خدا سے روکاہے وہ دور درازکی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
۱۶۸۔ جن لوگو ں نے کفر اختیار کیا اور( اپنے اوپر اور دوسرں پر ) ظلم کیا خدا انھیں ہرگز نہیں بخشے گا اورانھیں کسی راستے کی ہدایت نہیں کرے گا ۔
۱۶۹۔ مگر جہنم کے راستے کی کہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ کلام خدا کے لیے آسان ہے۔

 


۱۔تفسیر صافی ص ۱۳۹، تفسیر برہان ج ۱ ص ، ۴۲ اور تفسیر نور الثقیلن ج ۱ص۵۷۳کی طرف رجوع فرمائیں۔
2۔” اسباط “ کے بارے میں تفصیلی وضاحت ، تفسیر نمونہ جلد اوّل میں کی جاچکی ہے ( دیکھیے اردو ترجمہ۲۴۴
 
یہودیوں میں سے صالح اور غیر صالح افراد کا انجام تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma