جہاد سے متعلق آیات کے بعد اس آیت میں ایک بہت بڑا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اکیلے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں ۔ چاہے ایک شخص بھی میدان میں ان کا ہم قدم نہ ہو ۔ کیونکہ وہ صرف اپنی ذمہ داری کے لئے جوابدہ ہیں اور وہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شوق دلانے اور دعوتِ جہاد دینے کے علاوہ ان کی کوئی مسئولیت نہیں ہے ۔
( فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ)
حقیقت میں یہ آیت ایک اہم اجتماعی حکم خصوصاً رہبروں کے متعلق اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اپنے کام میں اس قدر پختہ عزم ، ثابت قدم اور اٹل ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی شخص بھی ان کی دعوت پ ر” لبیک “ نہ کہے تب بھی وہ اپنے مقدس مقصد اور منزل کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار نہ ہوں ۔ دوسروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دینے کے باوجود اپنے لائحہ عمل کو دوسروں کی مرضی پر نہ چھوڑ یں ۔ کوئی رہبر بھی جب تک ایسے عزم ِ صمیم کا حامل نہ ہو وہ رہبری کے اہل نہیں اور نہ ہی وہ اپنے مقاصد کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے خصوصاً خدا کے مقرر شدہ رہبر و رہنما بلند عزم و حوصلہ اور کردار کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ انھیں خدا کی ذات پر تکیہ ہوتا ہے وہ خدا کہ جو تمام تونائیوں اور طاقتوں کا سر چشمہ ہے ۔
لہٰذا اس حکم کے بعد خدا فرماتا ہے : امید ہے کہ خدا تیری سعی و کوشش کے ذریعے دشمنوں کی قدرت و طاقت کو ختم کردے گاچاہے ان کے مد مقابل تو اکیلا ہی کیوں نہ ہو ۔ کوینکہ اس کی قدرت تمام قدرتوں سے مافوق اور اس کی سزا تمام عذابوں سے بڑھ کر ہے ۔
( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ) ۔۱