اسلام کے چند اخلاقی احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
خدا کی سزا انتقامی نہیں انبیا ء میں فرق نہیں ہے

تفسیر

اسلام کے چند اخلاقی احکام
ان دو آیتوں میں اسلام کے کچھ اخلاقی احکام بیان ہو ئے ہیں پہلے فرمایا گیا ہے : خدا پسند نہیں کرتا کہ بد گوئی کی جائے یا بعض لوگوں کے عیب اور برے کام بر ملا بیان کئے جائیں (۔لا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوء ِ مِنَ الْقَوْلِ) ۔
کیونکہ خدا خود ستار العیوب ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کی پر دہ دری کی جائے اور لوگوں کے عیب فاش کئے جائیں اور ان کی عزت و آبروبر باد کی جائے ۔ علاوہ ازیں ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان کے عام طور پر کچھ نہ کچھ کمزور اور مخفی پہلو ہوتے ہیں اگر یہ عیب ظاہر ہو جائیں تو پورے معاشرے میں بد اعتمادی کی ایک ایسی فضا پیدا ہ وجائے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہو جائے لہٰذا اجتماعی رشتوں کا استحکام اور بشری تقاجوں کو ملحوظ نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ کسی صحیح مقصد کے بغیر کسی کے مخفی او رکمزور پہلو وٴں کا اظہار نہ ہو ۔
ضمناً توجہ رہے کہ ” سوء“ سے مراد ہ رطرح کی برائیاور قباحت ہے اور ” جہر“ ، ” من القول “ سے مراد ہر قسم کا لفظی اظہار ہے ، چاہے وہ شکایت کی صورت میں ہو یا چغلی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ جن آیات سے غیبت کی حرمت کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے ان میں زیر نظر آیت بھی شامل ہے لیکن آیت کا مفہوم غیبت میں منحصر نہیں بلکہ اس میں ہر طرح کی بد گوئی کی ممانعت کی گئی ہے ۔
اس کے بعد بد گوئی کی استثنائی صورت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : مگر وہ شخص جو ظلم و ستم کے ہاتھو مجبور ہو( إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ ) ۔
ایسے لوگ حق رکھتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لئے ظالم کے ظلم کی شکایت کریں یا واضح طور پر ظلم و ستم کی مذمت کریں اور ان پر تنقید کریں اور جب تک اپناحق نہ لے لیں ظلم و ستم کا زالہ نہ کریں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں۔
در حقیقت یہ استثناء اس لئے ہے کہ کہیں مندرجہ بالا حکم سے ظالم اور ستمگر غلط فائدہ اٹھائیں یا یہ کہ حکم ظلم و ستم کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا بہانہ نہ بن جائے۔
واضح ہے کہ ایسے مواقع پر صف ظالم کے ظلم اور مظلوم کے دفاع سے مربوط باتوں پر ہی اکتفاء کیا جانا چاہئیے ۔
آیت کے آخر میں قرآن اپنی روش کے مطابق کہ کہیں کوئی مظلوم بن کر اس استثناء سے سوءِ استفادہ نہ کرے اور بلا وجہ لوگوں کے عیب بیان کرتا پھر ے، فرماتا ہے : باتوں کو سنتا او رنیتوں سے واقف ہے (وَ کانَ اللَّہُ سَمیعاً عَلیماً ) ۔
بعد والی آیت میں ا س حکم کے نقطہ کے مقابل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، فرمایا : اگرلوگوں کی نیکیوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تو اس میں کوئی حرج نہیں ( جبکہ برائیاں استثنائی مواقع کے علاوہ مطلقاً چھپائی جانا چاہئیں )نیز اگر برائیوں کے مقابلے میں لوگوں سے عفو و بخشش کی راہ اپنا وٴ تو بہتر ہے کیونکہ در حقیقت یہ الہٰی طرز عمل ہے کہ جو ہر قسم کے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنے اہل بندوں کے ابرے عفو و بخشش سے کام لیتا ہے

 (إِنْ تُبْدُوا خَیْراً اٴَوْ تُخْفُوہُ اٴَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوء ٍ فَإِنَّ اللَّہَ کانَ عَفُوًّا قَدیراً) ۔
دوسری آیت در اصل دو پہلو ٴں سے پہلی آیت کا نقطہ مقابل قرار دی جاسکتی ہے پہلا یہ کہ برائیوں کے اظہار کے مقابلے نیکیوں کا اظہار اور دوسرا جن پر ظلم و ستم ہو ا ان کی طرف سے عفو و بخشش۔
ظالم سے در گذر اس کی تقویت کا سبب نہیں ؟
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ستم گر سے در گذر حقیقت میں اس کے ظلم کی تائید نہیں اور کیا یہ کام ایسے ظلم کے باری رہنے کے لئے تشویق و ترغیب کا باعث نہیں ہو گا او رکیا یہ عمل مظلوموں کے ذہنوں کو سلادینے والا نہیں ہے اور کیا منفی رد عمل پیدا نہیں کرے گا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عفو و در گذر کا اپنا محل و مقام ہے اور اظہار حق اور ظلم کے مقابلے کا موقع جدا ہے ۔ اسی لئے احکامِ اسلامی میں ایک طرف ہے :
” لاتظلمون ولاتظلمون“” نہ ظلم کرواور نہ ظلم گوارا کرو“ ..... (بقرہ....۲۷۹)
اور یہ بھی کہ :۔
”کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا“
یعنی ظالم کے دشمن بنو، اور مظلوم کے ساتھی ۔۱
نیز یہ بھی کہ :۔ فقاتلوا التی تبعی حتی تفیء الیٰ امر اللہ
یعنی .... ظالموں سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ حکم خدا کے سامنے سر نگوں ہو جائیں ۔ ( حجرات۹)
اور دوسری طرف عفو و در گذر اور بخشش کا حکم دیا گیا :
و ان تعفوا قرب للتقوی
اور ..... اگر معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب تر ہے ۔ ( بقرہ ....۲۳۷)
یہ بھی فرمایا کہ :
ولیعفوا ولیصفحوا الاتحبون ان یغفر اللہ لکم
یعنی معاف کردو اور در گذر سے کام لو، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تمہیں بخش دے ۔
ہو سکتا ہے کہ بعض کوتاہ نظر لوگوں کو ابتداء میں ان احکام میں تفاوت اور تضاد نظر آئے لیکن اسلامی مصادر او رکتب میں موجودہ احادیث کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عفو و در گذر کا اپنا مقام ہے اور ظلم کی سرکوبی کے لئے مقابلے کا ایک الگ موقع و محل ہے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ عفو و در گذر اس موقع کے لئے ہے جہاں قدرت اور دشمن پر کامیابی حاصل ہو اور دشمن آخری شکست سے دو چار ہو جائے یعنی جہاں دشمن کی طرف سے کوئی نیاخطرہ محسوس نہ ہوتا ہو ۔ اس موقع پر عفو و در گذر ایک طرح سے اصلاحی اور تربیتی اقدام ہے اور یہ طرز عمل دشمن کو اپنے عمل پر نظر ثانی پر آمادہ کرے گا، تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے مواقع کا تذکرہ موجود ہے حضرت امیر المومنین (علیه السلام) یہ فرمان اس نقطہ نظر پر شاہد ہے ، آپ نے فرمایا:
” اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو عنہ شکراً للقدرة علیہ“
جب دشمن پر کامیابی حاصل کرلو تو عفو و بخشش کو اس کا میابی کی زکوٰة اور شکر کا ذریعہ قرار دو ۔ ۲
دوسری طرف ایسے مواقع جہاں دشمن کا خطرہ ابھی باقی ہو اور احتمال ہو کہ در گذر کرنا اسے جراٴت دے گا اور اس کی حوصلہ افزائی کرے گا یا یہ کہ عفو و بخشش یہاں ظلم کی تائید شمار ہو گی تو اسلام ایسی بخشش او رمعافی کی کبھی اجازت نہیں دیتا اور ایسے مواقع پر رہبرانِ اسلام نے کبھی عفو وبخشش کی راہ نہیں اپنائی ۔

 

 ۱۵۰۔ إ ِنَّ الَّذِینَ یَکْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیدُونَ اٴَنْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللهِ وَرُسُلِہِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ اٴَن ْ
یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا۔
۱۵۱۔ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْکَافِرُونَ حَقًّا وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُہِینًا ۔
۵۲۔ وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ اٴَحَدٍ مِنْہُمْ اٴُوْلَئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیہِمْ اٴُجُورَہُمْ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا ۔
ترجمہ
۱۵۰۔ جو لوگ خدا اور پیغمبر وں کا انکار کرتے ہیں اور ان میں تبعیض اور فرق روا رکھنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان دو کے درمیان کوئی راہ منتخب کریں ۔
۱۵۱۔ وہ پکے کافر ہیں اور کفار کے لئے ہم نے ذلت آمیز سزا فراہم کر رکھی ہے ۔
۱۵۲۔ (لیکن ) وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں اور ان سے کسی کے درمیان فرق روا نہیں رکھتے انھیں عنقریب جزا دیں گے ، خدا بخش نے والا اور مہر بان ہے ۔

 



۱۔نہج البلاغہ، وصیت نامہ نمبر ۴۸۔
۲۔ نہج البلاغة کلمات قصار، کلمہ ۱۰۔
 
خدا کی سزا انتقامی نہیں انبیا ء میں فرق نہیں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma