سر گوشیاں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
انبیاء کا چشمہٴ عصمت شانِ نزول

گذشتہ آیات میں بعض منافقین یا ان جیسے لوگوں کے راتوں کے مخفی اور شیطانی جلسوں اور اور میٹنگوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اب اس آیت میں ”نجوی“کے زیر عنوان ذرا تفصیل سے بات کہی گئی ہے ۔
” نجویٰ“ کا معنی صرف کان میں باتیں کرنا یا سر گوشی ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی مخفی اور پوشیدہ میٹنگوں کو بھی ” نجویٰ“ کہتے ہیں کیونکہ اصل میں ” نجویٰ “ ” نجوة“ ( بر وزن دفعہ ) کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے اونچی زمین ، بلند زمینیں چونکہ اپنے اطراف سے جدا ہوتی ہیں اور خفیہ میٹنگیں اور سر گوشیاں بھی اطراف والوں سے جدا ہوتی ہیں لہٰذا انھیں ” نجویٰ “ کہتے ہیں ۔
بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سب الفاظ ” نجات“ کے مادہ سے ہیں جس کا معنی ہے ” رہائی “ اور کیونکہ ایک بلند جگہ سیلاب کے حملے سے نجات ہوتی ہے اور خفیہ میٹنگ اور سر گوشی بھی دوسروں کی اطلاع سے دور ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔
بہر حال آیت کہتی ہے : ان کی زیادہ تر کفیہ میٹنگیں جو شیطانی سازشوں او رمنصوبوں کے تحت منعقد ہوتی ہیں ان میں سے کوئی بھلائی اور فائدہ نہیں ہے (لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواہُمْ ) ۔
اس کے بعد الئے کہ کہیں یہ گمان نہ ہو کہ ہر طرح کی سر گوشی اور مضفی میٹنگ مذموم و ممنوع ہے ایک کلی قانون میں استثنائی صورت کے مواقع بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : مگر یہ کہ کوئی شخص اس کے ذریعے صدقہ کی وصیت کرتا ہو، دوسروں کی مدد کا اقدام کرتا ہو، نیک کام انجام دیتا ہو، یا لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہو، (إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ) ۔
ایسی سر گوشیاں او رمیٹنگیں اگر ریا کاری اور تظاہر کے لئے نہ ہوں بلکہ ان کا مقصد رضائے پروردگار ہو تو خدا ان کے لئے اجرعظیم مقرر فرمائے گا

( وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّہِ فَسَوْفَ نُؤْتیہِ اٴَجْراً عَظیماً ) ۔
اصولی طور پر سر گوشیوں ، کانا پھوسیوں اور خفیہ میٹنگوں کو قرآن نے ایک شیطانی عمل قرار دیا ہے :
”انما النجویٰ من الشیطان “
یعنی ۔” نجویٰ ، شیطان کی طرف سے ہے ۔( مجادلہ۔۱۰)
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا عمل عموماً غلط کاموں کے لئے ہوتا ہے چونکہ نیک مفید او رمثبت کاموں کی انجام دہی کے لئے عموماً کوئی خفیہ اور پوشیدہ چیز نہیں ہوتی ہاں التبہ بعض اوقات خلاف معمول حالات کی کی وجہ سے انسان مجبورہوجاتا ہے کہ نیک کاموں کو مثبت طور پر مخفیانہ بجائے یہ استثنائی صورت بار ہا قرآن میں بیان کی گئی ہے مثلاً:
یا ایھا الذین اٰمنوا اذا تنا جیتم فلا تتناجوا بالاثم والعدوان و معصیة الرسول و تناجوا بالبر و التقویٰ
اے ایمان والو! جب تم سر گوشی یا اخفاء کرو تو گناہ ، ظلم اور پیغمبرکی نافرمانی کے لئے نہ ہو اور صرف نیک کاموں اور پر ہیز گاری کے لئے ، نجویٰ کرو ۔ (مجادلہ۔۹)
بنیادی طور پر اگر سر گوشی او رنجویٰ بعض لوگ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں کریں تو یہ دوسروں میں سوئے ظن پید اکرنے کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات دوستوں میں بد گمانی پیدا کردیتی ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ضرورت کے بغیر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے اور قرآن اور مذکورہ حکم کا فلسفہ بھی یہی ہے ۔ البتہ کبھی آبروئے انسانی کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ مثلاً کسی کی چھپ کر مالی امداد کرنا ، جیسے زیر نظر آیت نے صدقہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔
اسی طرح کبھی امربالمعروف اگر کھلے بندوں کیا جائے تو دوسرے کی شرمندگی کا باعث ہوتاہے او رممکن ہے اس طرح سے وہ نصیحت قبول نہ کرے اور اپنے طریقہ کار پر ہٹ دھرمی دکھائے ۔ آیت میں اس کا ذکر ” معروف“ کے حوالے سے کیا گیا ہے ۔
اس کی ایک اور مثال لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کا موقع ہے ۔بعض اوقات مسائل کو علی الاعلان بیان کیا جائے تو اس سے مصالحت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں طرفین سے محرمانہ اور رازدارنہ طریقے سے گفتگو کرنا چاہئیے تاکہ مصالحت کا مقصد پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ۔
مذکورہ تین مواقع پر او رایسے ہی دیگر مواقع پر ضرورت اس بات کی ہے کہ مثبت کام ” نجویٰ“ کے زیر سایہ انجام دیے جائیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تینوں کام ” صدقہ “ کے مفہوم میں آجاتے ہیں کیونکہ جو شخص امر بالمعروف کرتا ہے وہ علم کی زکوٰة ادا کرتا ہے اور جو صلح و مصالحت کرواتا ہے وہ لوگوں میں موجود اپنے اثر و رسوخ کی زکوٰة دیتا ہے ۔ چنانچہ حضرت علی (علیه السلام) سے منقول ہے :
ان اللہ فرض علیکم زکوٰة جاھکم کما فرض علیکم زکوٰة ما ملکت ایدیکم ۔
یعنی ۔ خدا نے تم پر فرض اور واجب قرار دیا ہے کہ اپنے اثر و رسوخ اور معاشرت حیثیت کی زکوٰة ادا کرو ۔ جیسا کہ اس نے واجب کیا ہے کہ مال زکوٰة اداکرو ۔
( نور الثقلین ، ج۱،صفحہ۔ ۵۵۰ اور دیگر تفاسیر)
نیز پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
الاادلک علی صدقة یحبھا اللہ و رسولہ تصلح بین الناس اذا تفاسدوا و تقرب بینھم تباعدوا
یعنی کیا تجھے ایسے صدقہ سے آگاہ کروں جسے خدا اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں ( اور وہ یہ ہے کہ ) جب لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں تو ان میں صلح کرو اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں تو انھیں نزدیک لاوٴ۔ ۱

 

۱۱۵۔وَ مَنْ یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبیلِ الْمُؤْمِنینَ نُوَلِّہِ ما تَوَلَّی وَ نُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَ ساء َتْ مَصیراً ۔
ترجمہ
۱۱۵۔ جو شخص حق واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے او رراہِ مومنین کے علاوہ کسی راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی راہ پر لئے جاتے ہیں جس پر وہ جارہا ہے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔

 


۱- تفسیر قرطبی، جلد ۳ صفحہ ۱۹۵۵، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

 

انبیاء کا چشمہٴ عصمت شانِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma