تفسیر مجمع البیان ، تفسیر ابو الفتوح رازی اور تفسیر فخر الدین رازی میں منقول ہے :
رفاعہ اور سوید مشرکین میں سے تھے ۔ انھوں نے اظہار اسلام کیا او رپھر وہ منافقین کے ہم کاروں میں داخل ہو گئے ۔ بعض مسلمامن ان دونوں سے میل جول رکھتے تھے اور اظہار دوستی کرتے تھے اس پر مندرجہ بالاآیت نازل ہوئیں اور انھیں اس راہ و رسم کے خطرے سے آگاہ کیا گیا تاکہ وہ اس عمل سے پرہیز کریں ۔
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں ولایت بمعنی دوستی ہے نہ کہ ولایت بمعنی سر پرستی و تصرف جو کہ گذشتہ آیات میں تھی ، کیونکہ اس آی کی شانِ نزول ان آیات سے مختلف ہے ۔ لہٰذا انھیں ایک دوسرے کے لئے قرینہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
دوسری آیت جو پہلی کا ضمیمہ ہے ، اس کی شان ِ نزول یہ منقول ہے :
یہودیوں کا ایک گروہ اور کچھ عیسائی جب موٴذن کی اذان کی آواز سنتے او رنماز کے لئے مسلمانوں کا قیام دیکھتے تو تمسخر او راستہزا شروع کردیتے ۔ لہٰذاقرآن مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے پرہیز کاحکم دیتا ہے ۔
اس آیت میں خدا وند عالم دوبارہ مومنین کو حکم دے رہا ہے کہ منافقوں اور دشمنوں کی دوستی سے بچو ، البتہ ان کے جذبات و میلانات کو متحرک کرنے کے لئے یوں فرماتا ہے : اے ایمان والو! جو لوگ تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین و منافقین میںسے ان میں سے کسی کو بھی دوست نہ بناوٴ( یَااٴَیُھَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ ھُزُوًا وَلَعِبًا مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اٴَوْلِیَاءَ ) ۔
آیت کے آخر میں (وَاتَّقُوا اللهَ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔فرماکر تاکید کی گئی ہے کہ تقویٰ او رایمان سے ایسے لوگوں کی دوستی مناسبت نہیں رکھتی ۔
توجہ رہے کہ ” ھزو“(بروزن ”قفل “) کا معنی ہے ” تمسخر آمیز باتیں یا حرکات جو کسی چیز کے بے وقعت ظاہر کرنے کے لئے کی جائیں ” جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے استہزاء ایسے مذاق کو کہتے ہیں جو کسی عدم موجود گی میں اور پس پشت کیا جائے اگر چہ کبھی کبھار کسی کے سامنے اس کا تمسخر اڑانے پربھی یہ لفظ بطور نادر بولا جاتا ہے ۔ ”لعب “ عام طور پر ایسے کاموں کوکہا جاتا ہے جن کے انجام دینے میں کوئی تصحیح غرض کار فرمانہ ہو یا جو بالکل بغیر ہدف اور مقصد کے انجام پائیں ، نہ بچوں کے کھیل کود کوبھی ” لعب “ اسی بنا پر کہتے ہیں ۔
گذشتہ آیت میں منافقین اور اہل کتاب کی ایک جماعت سے دوستی کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ وہ لوگ احکام اسلام کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب اگلی آیت میں شاہد کے طور پر ان کے ایک عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ : جب تم مسلمانوں کو نماز کی دعوت دیتے ہوتو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھتے ہیں ( وَإِذَا نَادَیْتُمْ إِلَی الصَّلاَةِ اتَّخَذُوہَا ہُزُوًا وَلَعِبًا )۱۔
اس کے بعد ان کے عمل کی علت بیان کی گئی ہے : ایسا اس لئے ہے کہ وہ ایک نادان گروہ ہے اور حقائق کا ادراک کرنے کی منزل سے دور ہے (ذَلِکَ بِاٴَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَیَعْقِلُونَ) ۔