نو رِ مبین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
عیسیٰ خدا کے بندے ہیں بہن بھائی کی میراث کے چند احکام

سابقہ آیات میں توحید اور تعلیماتِ انبیا ء سے اہل کتاب کے انحراف کی بحث تھی ۔ اب ان دوآیتوں میں آخری بات کہی گئی ہے اور راہِ نجا ت کو مشخص و معیّن کردیا گیا ہے پہلے تو اس عالم کے تمام لوگوں کو مخا طب کرتے ہوئے کہتا ہے : اے لوگو ! تمھا رے پر وردگار کی طرف سے تمھارے پاس ایک پیغمبر آیا ہے کہ جس کے پاس واضح دلائل و براہین موجود ہے اور اسی طرح اس کے ساتھ ایک نور ِ آشکار بھیجا گیا ہے جس کا نام قرآن ہے جو تمھا ری راہِ سعادت کو روشن کرتا ہے (یَااٴَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَکُمْ بُرْہَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ نُورًا مُبِینًا
بعض علماء کے نظریئے کے مطابق ” برہان “ ۔”برہ “ (بروزن ” فرح “ ) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے سفید ہو نا اور چونکہ واضح استدلا ل سننے والے کے لیے حق کے چہرے کو آشکار ، نورانی اور سفید کردیتا ہے لہذا سے برہا ن کہا جاتا ہے ۔
جیسا کہ بعض مفسّرین کہتے ہیں اور قرائن بھی گواہی دیتے ہیں کہ زیر نظر آیت میں برہان سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات ِ بابرکت ہے اور نور سے مراد قرآن مجید ہے جبکہ دوسری آیات میں اسے نور سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
تفسیر نور الثقلین ، علی بن ابراہیم اور مجمع البیان میں طرق اہل بیت سے کئی ایک احادیث نقل کی گئی جن میں کہا گیا ہے کہ لفظ برہان پیغمبر اکرم کے لیے ہے اور نور سے مراد حضرت علی ہیں ۔ یہ تفسیر کے منافی نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ نور کا یہاں وسیع مفہوم ہو ، جس میں قرآن بھی شامل ہو اور امیر المو منین علی بھی جو کہ قرآن کے محافظ ، مفسّر اور مدافع ہیں ۔
بعد والی آیت میں اس برہان اور نور کی پیروی کے نتیجے کا ذکر ہے : باقی رہے وہ جو خداپر ایمان لائے اور انھوں نے اس آسمانی کتاب سے تمسک کیا ، بہت جلد وہ انھیں اپنی وسیع رحمت میں داخل کرے گا اور پنے فضل و رحمت سے ان کی جزامیں اضافہ کرے گا اور انھیں صراط ِ مستقیم اور راہِ راست کی طرف ہدایت کرے گا ( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِی رَحْمَةٍ مِنْہُ وَفَضْلٍ وَیَہْدِیہِمْ إِلَیْہِ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا )۔ ۱

 

۱۷۶۔َسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللهُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَةِ إِنْ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ اٴُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِنْ کَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاٴُنثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ اٴَنْ تَضِلُّوا وَاللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ
ترجمہ
۱۷۶۔تجھ سے (بہن بھایئوں کی مراث کے بارے میں ) سوال کرتے ہیں ۔ان سے کہہ دو کہ خدا تمھارے لیے کلالہ (بہن بھائی ) کاحکم بیان کرتا ہے ۔ اگر ایک مرد مرجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی بہن ہوتو وہ ا س کے چھوڑے ہوئے مال سے آدھا (بطور میراث ) لے گی اور (اگر بہن مرجائے اوراس کا وارث صرف ایک بھائی ہو تو ) وہ اس بہن کاسارا مال میراث میں لے گا ۔ اس صورت میں کہ (متوفّی کی)کوئی اولاد نہ ہو اور اگر (متوفّی کی) دو بہنیں باقی ہو ں تو وہ مال کا دو تہائی لیں گی اور اگر بہن بھائی اکٹھے ہوں تو (تما م مال اسطرح سے تقسیم کریں گے کہ ) ہر مذکر کے لیے مئونث کے حصے سے دوگنا ہوگا ۔ خدا تمہارے لیے (اپنے احکام )بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجا ؤ اور خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے

شانِ نزول

بہت سے مفسرین جابر بن عبداللہ انصاری سے اس آیت کی شانِ نزول اس طرح نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں بہت سخت بیمار ہوگیا تھا تو پیغمبر میری عبادت کے لیے تشریف لائے اور وہیں وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑ کا ۔میں چونکہ موت کی فکر میں تھا ، پیغمبر سے عر ض کیا : میر ی وارث فقط میری بہنیں ہیں ، ان کی میراث کس طرح ہو گی ؟
اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،جسے آیت فرائض کہتے ہیں ۔
بعض کے نظریئے کے مطابق احکام ِ اسلام کے بارے میں پیغمبر اکرم پر نازل ہونے والی یہ آخری آیت ہے ۔2

 


۱۔صراط مستقیم کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں سورئہ حمد کی تفسیر کے ضمن میں تفصیل سے گفتگوکی جا چکی ہے (اردوترجمہ ص ۷۳)
2۔تفسیر صافی ، مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

 

عیسیٰ خدا کے بندے ہیں بہن بھائی کی میراث کے چند احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma