اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی احترام ِ محبت

جیساکہ گذ شتہ آیت کی تفسیر میں اشارہ ہوچکا ہے قرآن کہتا ہے کہ ہر شخص پہلے مرحلہ میں اپنے کام کا جوابدہ ہے نہ کہ دوسروں کا۔ لیکن اس بنا پر کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جائے اس آیت میں کہتا ہے : یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا جوابدہ ہے لیکن جو شخص دوسرے کو نیک کام پر ابھارے تو اس کا حصہ ملے گا اور جو شخص دوسرے کو کسی برے کام پر اکسائے تو اس کا حصہ ( بھی) اس میں ہوگا
(مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَا)
اس بناپر ہر شخص کااپنے اعمال کاجوابدہ ہونے کے معنی یہ نہیں کہ وہ دوسروں کو دعوتِ حق دینے اور فساد کا مقابلہ کرنے سے آنکھیں بند کرلے اور اسلام کی روحِ اجتماعیت کو مجرح کرتے ہوئے تجردد انفرادیت کے ذریعے معاشرے سے بیگانگی کا راستہ اختیار کرے ۔ شفاعت اصل میں مادہ شفع ( بر وزن نفع) سے جفت کے معنی میں ہے اس بناپر ایک چیز کا دوسری میں منضم و مدغم ہوجانا شفاعت کہلاتا ہے البتہ کبھی کبھار یہ راہنمائی اور ارشاد و ہدایت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( جس طرح درج بالا آیت میں ہے ) تو اس وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا معنی دیتا ہے ( شفاعت سیئہ اس کے بر عکس یعنی امر بالمنکر و نہی عن المعروف ہے )لیکن اگر گنہ گاروں کو ان کے انجام سے نجات دینے کا موقع ہو تو یہ ایسے گنہ گار افراد کی مدد کرنے کے معنی میں آتا ہے جو شفاعت کے لئے اہلیت اور لیاقت رکھتے ہوں ، دوسرے الفاظ میں شفاعت کبھی تو عمل کی انجام دہی سے پہلے ہوتی ہے جو رہنمائی کے معنی میں ہے اور کبھی عمل کی انجام دہی کے بعد ہوتی ہے ۔
جہاں عمل کے نتائج سے نجات دینے کے معنی میں ہے بہر حال دونوں طرح سے ایک چیز دوسری کے لئے ضمیمہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ضمناً توجہ رہے کہ آیت اگر چہ ایک کلی مفہوم کی حامل ہے ، نیک اور بد ہر طرح کی دعوت کا مفہوم اس میں شامل ہے لیکن چونکہ یہ جہاد کی آیات کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے لہٰذا شفاعت حسنہ سے پیغمبر اکرم کی طرف سے تشویق جہاد مراد ہے اور شفاعتِ سیئہ سے منافقین کی طرف شوق جہاد دلانا مراد ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ لفظ شفاعت کی تعبیراس موقع پر جہاں ( نیکیوں اور برائیوں کی طرف ) رہبری کے بارے میں گفتگو ہوری ہے ۔ ممکن ہے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو کہ رہبر کی گفتگو ( چاہے خیر کا راستہ بتانے والا رہبر ہو یا شر کا سبق دینے والا ) دوسروں پر اسی صورت میں اثر کرے گی جب وہ اپنے لئے دوسروں کی طرح امتیاز نہ برتے بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کا ہم دوش اور ساتھی قرار دے ۔ یہ ایسا طریقہ ہے ، جو اجتماعی اور معاشرتی مقاصد میں بڑا موٴثر ہوتا ہے ۔ اگر قرآن میں بعض مواقع پرمثلاسورہٴ شعراء، اعراف، ہود ، نمل، عنکبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انبیاء و مرسلین کو جو امتوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے بھیجے گئے ہیں ” اخو ھم “ یا ” اخاھم“یعنی ان کا بھائی کہا ہے ، تو وہ بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن شفاعت حسنہ یعنی اچھے کام کی طرف راغب کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ترغیب دینے والوں کو ” نصیب “ ملے گا ۔ جب کہ ”شفاعت سیئہ“ کے ضمن میں کہتا ہے کہ اسے” کفل “ میسرآئے گا ۔ یہ تعبیر کا اختلاف اس وجہ سے ہے کہ ” نصیب “ کے معنی ہیں مفید اور زیادہ سود مند اور” کفل “کے معنی ہیں پست اور بری چیز ۔۱
۱کفل ( بر وزن طفل ) اصل میں جانور کی پشت کا عقبی اور آخری حصہ ہے جس پر سوار ہونا تکلیف اور سختی کا باعث ہے اس لئے ہر قسم کے گناہ اور برے حصہ کو کفل کہتے ہیں اور ایسے کام کو بھی جس میں بوجھ اور زحمت ہو، کفالت کہتے ہیں ۔
یہ آیت اسلام کے بنیادی اجتماعی مسائل کی ایک منطق کو واضح کرتی ہے ۔ آیت صراحت سے کہتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے اعمال کے معاملے میں ترغیب دینے اور رہنمائی کے عمل میں شریک ہیں اس بنا پر جب بھی کوئی بات یا عمل بلکہ انسان کی خاموشی بھی اگر کسی گروہ کے نیک یا برے عمل کی ترغیب کا باعث بنے تو ترغیب دینے والا اس کام کے نتائج کے قابل ذکر حصہ کا ذمہ دار ہو گا ۔ لیکن اس سے اصل کام کرنے والے کا حصہ کم نہیں ہو جائے گا ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
من امر بمعروف او نھی عن المنکر او دل علی خیر او اشار بہ فھو شریک و من امر بسوء او دل علیہ او اشار بہ فھو شریک ۔
جو شخص کسی اچھے کام کا حکم دے یا برے کام سے روکے یا لوگوں کے لئے عمل خیر کی رہنمائی کرے یا ترغیب دلانے کے لئے کوئی ایسے اسباب فراہم کرے وہ اس عمل میں شریک اور حصہ دار ہے اور اسی طرح جو شخص کسی برے کام کی دعوت دے یا اس کی رہنمائی کرے اور ترغیب وہ بھی اس کام میں شریک ہوگا اس حدیث میں تین مرحلوں میں لوگوں کو نیک یا بد کام کی دعوت دینے کا ذکر ہوا ہے ۔
۱۔ مرحلہ حکم
۲۔ مرحلہ دلالت
۳۔ مرحلہ ارشارہ
یہ تینوں ترتیب دار قوی ، متوسط اور کمزور مرحلے ہیں اس طرح ہر قسم کی دخل اندازی کسی نیک یا برے کام پر ابھارنے کا سبب بنتی ہے اور دخل اندازی کرنے والا اسی نسبت سے اس کے نتائج اور فوائد میں شریک ہوگا۔
اس اسلامی منطق کے مطابق صرف گناہ کرنے والے ہی گنہگار نہیں ہیں بلکہ وہ اشخاص جو کسی کام کی تبلیغ کے مختلف ذرائع استعمال کرکے حالات پیدا کریں ۔ یہاں تک کہ ذراسی ترغیب دلانے والے کا ایک لفظ بھی اسے گناہ کرنے والوں میں شام ل کرلیتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو خیرات اور نیکی اور نیکیوں کے راستے میں اس قسم کا کام کرتے ہیں وہ بھی اس کا اجر حاصل کرتے ہیں ۔
چند نیک روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شفا عت حسنہ یا سیئہ کے معنی میں سے ایک کسی کے حق میں اچھی یا بری دعا کرنا بھی ہے جو کہ بارگاہ ِ خدا وندی میں ایک قسم کی شفا عت ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا :
من دعا لاخیہ الملم بظھر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک فلک مثلاہ فذلک النصیب۔
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کے پس پشت دعا کرے تو وہ قبول ہو گی اور خدا کا فرشتہ اس سے کہے گا اس سے دوگناہ تمہارے لئے بھی ہے اور آیت میں نصیب سے مراد یہی ہے ۔ ( تفسیر صافی آیہ مذکور کے ذیل میں )
یہ تفسیر گذشتہ تفسیر سے اختلاف نہیں رکھتی بلکہ شفاعت کے معنی میں وسعت ہے یعنی جو مسلمان کسی دوسرے کی کسی طرح کی مدد کرے وہ چاہے نیکی کی ترغیب کی صورت میں ہو یا بار گاہ خدا وندی میں دعا کی شکل میں ہو یا کسی اور طرح سے اس کے نتیجہ میں شریک ہو گا ۔ یہ بات اسلامی پروگراموں کی روحِ اجتماعیت کو اجا گر کرتی ہے اور مسلمانوں کو شخصی اور فقط ذاتی حیثیت سے زندگی گزارنے سے منع کرتی ہے ۔
یہ امر اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ انسان دوسروں کی طرف توجہ اور ان کی بہتری کی کو ششوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور اس سے اس کا ذاتی مفاد خطر ے میں نہیں پڑتا ۔ بلکہ وہ اس کے نتائج میں شریک ہوتا ہے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : خدا توانا اور صاحبِ قدرت ہے اور تمہارے اعمال کی حفاظت کرتا اور حساب رکھتا ہے اور حسنات و سیئات کے نتیجے میں مناسب جزا و سزا دے گا ( وکان اللہ علی ٰ کل شیء مقیتاً)خیال رہے کہ ” مقیت“ اصل میں قوت کے مادہ سے ہے جس کے معنی اس غذا کے ہیں جو انسان کی جان کی حفاظت کرتی ہے اس بنا پر ” مقیت“ جو باب افعال کا اسم فاعل ہے اس شخص کے معنی میں ہے جو دوسروں کو روزی دیتا ہے ، چونکہ ایسا شخص اس کی زندگی کا محافظ ہوتا ہے اس لئے لفظ ” مقیت “ محافظ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ نیز وہ شخص جو روزی دیتا ہو یقینا اس پر قدرت اور طاقت بھی رکھتا ہے اسی بنا پر یہ لفظ مقتدر کے معنی میں بھی آتا ہے ، ایسا شخص یقینا اپنے زیر کفالت لوگوں کا حساب بھی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ لفظ حسیب کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ او پر والی آیت میں ممکن ہے کہ لفظ” مقیت“ سے یہ تمام مفاہیم مراد لئے گئے ہوں ۔


۸۶۔ وَإِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِاٴَحْسَنَ مِنْہَا اٴَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللهَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا۔
ترجمہ
۸۶۔ جس وقت کوئی شخص تمہیں تحیہ( اور سلام ) کہے تو اس کا جواب بہتر انداز سے دویا ( کم از کم ) اسی طرح کا جواب دو، خدا ہر چیز کا حساب رکھتا ہے ۔
تفسیر

 

کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی احترام ِ محبت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma