ے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
کیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔ تفسیر

اس آیت میں گذشتہ مباحث کی تکمیل کی گئی ہے ، یہود و نصاریٰ کی بے بنیاد دعووٴں اور موہوم امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں ( وَقَالَتْ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤُہُ ) ۔
وہ اپنے بارے میں صرف اسی امتیاز کے قائل نہیںبلکہ آیات قرآنی میں بار ہا ان کے اس قسم کے دعووٴں کا ذکر کیا گیاہے سورہٴ بقرہ آیت ۱۱۱ میںان کے دعویٰ کا بھی ذکر ہے کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا او ریہ کہ جنت یہود و نصاریٰ ہی سے مخصوص ہے ۔ سورہٴ بقرہ کی آیت۸۰ میں یہودیوں کے اس دعویٰ کا ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کی آگ چند دن کے سوا ان تک نہیں پہنچے گی ۔اس دعویٰ کے ذکر کے بعد ان کی سر زنش کی گئی ہے ۔
مندرجہ بالا آیت میں ان کے اس موہوم دعویٰ کا تذکرہ ہے کہ وہ خدا کے بیٹے اور خاص دوست ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا حقیقی بیٹا نہیں سمجھتے تھے عیسائی صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں اور بالتصریح اپنے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں ۔ ۱
وہ بات اپنے لئے اس مفہوم میں استعمال کرتے تھے کہ وہ خدا سے خاص ربط رکھتے ہیں اور جو شخص بھی ان کی نسل میں سے ہے یا ان کے گروہ میں داخل ہو جاتا ہے وہ اعمال صالح کے بغیر خود بخود خدا کے دوستوں اور فرزندوں میں شمار ہو جاتا ہے ۔ ۲
ہم جانتے ہیں کہ قرآن ان تمام موہوم امتیازات سے جنگ کرتا ہے او رہر شخص کا امتیاز صرف ایمان ، عمل صالح اور ا س کی پر ہیز گاری میں سمجھتا ہے اسی لئے زیر نظر آیت میں اس دعویٰ کے بطلان کے لئے فرمایا گیا ہے : ان سے کہیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ ) ۔
یعنی تم خود اعتراف کرتے ہو کہ تمہیں تھوڑی سی مدت کے لئے سزا دے گا گناہ گاروں والی جو یہ سزا تمہیں ملے گی اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ تم خدا سے خا ص تعلق رکھتے ہو بلکہ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا شمار کرتے ہو۔ علاوہ ازیں تمہاری تاریخ شاہد ہے کہ خود اسی دنیا میں تم کئی سزاوٴں اور عذابوں میں مبتلاہوئے ہو۔ یہ تمہارے دعویٰ کے بطلان پر دوسری دلیل ہے ۔
اس مفہوم کی تاکیدکے لئے مزید ارشاد ہوتا ہے : تم مخلوقاتِ خدا میں سے دیگر انسانوں جیسے انسان ہو( بَلْ اٴَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَق) ۔
یہ سب کے لئے قانون عام ہے کہ خدا جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( اور مستحق پاتاہے ) ۔ سزا دیتا ہے ( یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ ) ۔
علاوہ ازیں سب خدا کی مخلوق، اس کے بندے او رمملوک ہیں لہٰذا کسی کو خدا کا بیٹا کہنا منطقی اور اصولی بات نہیں ہے (وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا ) ۔اور آخرکار ساری مخلوق نے اسی کی طرف لوٹ جانا ہے (وَإِلَیْہِ الْمَصِیر) ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہودو نصاریٰ نے کہاں ” خدا کے بیٹے“ ہونے کا دعویٰ کیا ہے ( چاہے یہاں بیٹا حقیقی میں نہیں مجازی معنی میں ہی ہو)؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ اناجیل میں یہ بات بار ہا دکھائی دیتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انجیل یوحنا باب ۸ جملہ۴۱ کے بعد درج کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے یہودیوں سے کہا :
” تم اپنے باپ والے کام کرتے ہو“۔
یہودیوں نے جواب دیا :
ہم زنا سے پیدا نہیں ہوئے ، ہمارا ایک باپ ہے جو کہ خدا ہے ۔
عیسیٰ (علیه السلام) نے ان سے کہا:
اگرخدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے دوست رکھتے۔
روایات اسلامی میں بھی ابن عباس سے ایک حدیث مروی ہے :
پیغمبر اسلام نے یہودیوں کی ایک جماعت کو دین اسلام کی دعوت دی اور انھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگے تم ہمیں خدا کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو جب کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں ۔ 3
تفسیرمجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں اس حدیث سے ملتی جلتی ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ : پیغمبر خدا نے خدا کے عذاب سے ڈرایا تو ایک گروہ کہنے لگا ہمیں تہدید نہ کرو او رنہ ڈراوٴ کیونکہ ہم تو خدا کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں اگر وہ ہم پر ناراض بھی ہو تو اس کی یہ ناراضگی ایسی ہے جیسے کوئی انسان اپنے بیٹے پرناراض ہوتا ہے ( یعنی بہت جلد اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے ) ۔

 

۱۹۔یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَی فَتْرَةٍ مِنْ الرُّسُلِ اٴَنْ تَقُولُوا مَا جَائَنَا مِنْ بَشِیرٍ وَلاَنَذِیرٍ فَقَدْ جَائَکُمْ بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ۔
ترجمہ
۱۹۔ اے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہے اور وہ پیغمبروں کے درمیانی عرصے اور فاصلے کے بعد تمہارے لئے حقائق بیان کرتا ہے کہ مبادا( روز قیامت) کہو کہ ہمارے پاس نہ بشارت دینے والا آیا ہے نہ ڈرانے والا( لہٰذا اب ) بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ( پیغمبر) تمہارے پاس آگیا ہے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

 

 

 

 

 


 
۱۔ ” خد اکا بیٹا“  یہ لفظ ہمارے منجی ( نجات دینے والے ) اور فادی( فدیہ بنے والے ) کا ایک لقب ہے جو کسی دوسرے پر نہیں بولا جاسکتا مگر ایسے مقام پر کہ قرآن سے معلوم ہو کہ مقصد خدا کا حقیقی بیٹا نہیں ۔ ( قاموس کتاب مقدس /ص ۳۴۵)
۲۔کچھ عرصہ ہوا ہمارے علاقے میں کچھ افراد نے لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے خاص تبلیغات شروع کررکھی تھیں اور وہ اپنے آپ کو ” خدا کے بیٹے “ کہتے تھے ۔
3 ۔تفسیر مجمع البیان فخر رازی جلد ۱۱ ص ۱۹۲۔
کیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔ تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma