جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو

ان تین آیات میں خیانت او رتہمت سے متعلق بحث کے بعد جو گذشتہ آیات میں ہوچکی ہے تین مجموعی احکامات بیان ہوئے ہیں ۔
۱۔ پہلے تو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ تو بہ کی راہ بد کار لوگوں کے لئے بہر حال کھلی ہے اور جو شخص اپنے اوپر یا کسی دوسرے پ رظلم کرے اور بعد میں حقیقتاً پشیمان ہو اور خدا سے مغفرت طلب کرے او روہ اس کی تلافی کی کوشش بھی کرے تو خدا کو بخشنے والا او رمہر بان پائے گا۔

 ( وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوء اً اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّہَ یَجِدِ اللَّہَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔
غور کرناچاہئیے کہ آیت میں دو چیزیں بیان ہوئی ہیں ایک ”سوء“ اور دوسری کسی پرظلم ۔ قرینہ مقابلہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور ” سوء“ کے اصل معنی” دوسرے کو نقصان پہچانا) سے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا گناہ جس سے انسان دوسرے کو نقصان پہنچائے یا اپنے کو) وہ حقیقی توبہ اور تلافی کی صورت میں قابلِ بخشش ہے ۔
ضمنی طور پر “ یجد اللہ غفوراً رحیماً“ ( خدا کو بخشنے والا ، مہربان پائے گا ) سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ یہ اثر رکھتی ہے کہ انسان اپنے نفس کے اندر ہی اس کا نتیجہ پالیتا ہے ایک طرف خدا کے غفور ہونے کے تصور سے گناہ کا پریشان کن اثر زائل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف وہ محسوس کرتا ہے کہ معصیت کے سبب وہ رحمت و الطاف الہٰی سے دور ہو گیا تھااور اب اس کی اہمیت کی وجہ سے دوریاں ختم ہو گئی ہیں او روہ خدا کے نزدیک ہو گیا ہے ۔
۲۔ دوسری آیت اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ جس کا اجمال گذشتہ آیات میں ہو چکا ہے او روہ یہ ہے کہ ” انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے نتیجة اس سے اپنے آپ کو ضرور نقصان میں مبتلا کرلیتا ہے (وَ مَنْ یَکْسِبْ إِثْماً فَإِنَّما یَکْسِبُہُ عَلی نَفْسِہِ ) ۔ اور آیت کے آخر میں فرماتاہے کہ خدا عالم ہے اور بندوں کے اعمال سے باخبر ہے اور وہ حکیم و دانا بھی ہے اور ہر شخص کو اس کے استحقاق کے مطابق سزا و جزا دیتا ہے (وَ کانَ اللَّہُ عَلیماً حَکیماً ) ۔
اس طرح گناہ اگر چہ ظاہر میں مختلف ہیں کبھی بھی کسی گناہ کا نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے او رکبھی اس کا نقصان اپنے آپ کو ہوتا ہے ۔ لیکن اس کا حقیقی اور آخری نتیجہ بہر حال خود انسان کے اپنی طرف لوٹتا اور گناہ کے برے اثرات سب سے پہلے خود انسان کی روح اور نفس میں ظاہر ہوتے ہیں ۱
۳۔ آخری آیت میں بے گناہ افراد پر تہمت لگانے کے گناہ کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” جو شخص خطا یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپتا ہے اس نے بہتان باندھا ہے اور واضح گناہ کا ارتکاب کیا ہے

(وَ مَنْ یَکْسِبْ خَطیئَةً اٴَوْ إِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِہِ بَریئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتاناً وَ إِثْماً مُبیناً ) ۔
اس آیت میں وہ گناہ کہ جن کا انسان مرتکب ہوا ہو اور پھر انھیں دوسرے کے سر تھوپ دے ان کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک خطیئة اور دوسرا” اثم “ ان دونوں کے درمیان فرق کے سلسلہ میں مفسرین اور اہل لغت ،میں بہت اختلاف ہے جو معنی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ” خطیئة“خطا“ سے ہے جو در اصل ان گناہوں اور لغزشوں کے معنی میں ہے جو انسان سے قصدارادہ کے بغیر سر زد ہو جائیں اور بعض اوقات ان کا کفارہ اور تاوان ادا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن بتدریج خطیئةکے معنی میں وسعت پید ا ہو گئی اور وہ ہر گناہ کے بارے میں استعما ل ہونے لگا چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ۔ کیونکہ کسی قسم کا گناہ ( چاہے وہ عمداً ہو یا بھول کر ) انسان کی روحِ سلیم کے لئے مناسب نہیں ہے اور اگر اس سے سر زد ہو جائے تو حقیقت میں ایک قسم کی لغزش او رخطاہے جو اس کے مقام و مرتبے کے منافی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خطیئہ کاایک وسیع مفہوم ہے جس میں عمدی اور غیر عمدی گناہ دونوں شامل ہیں ۔ لیکن اثم عموماً عمدی او راختیاری گناہوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ در اصل اثم ایسی چیز کے معنی میں ہے جو انسان کو کسی کام سے باز رکھے اور چونکہ گناہ انسان کو بھلائی کے اور اچھے کاموں سے دور رکھتے ہیں لہٰذا انھیں ” ا ثم “ کہا جاتا ہے ۔
ضمناً توجہ کرنی چاہئیے کہ آیت میں تہمت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر استعمال کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گناہ کو تیر کی طرح قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کی طرف اس کی نسبت دینے کو تیر ہدف کی طرف چھوڑنے کی طرح قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس طرح کسی کی طرف تیر پھینکنا ممکن ہے اسے ختم کردے ، اسی طرح گناہ کے تیر کو بھی ایسے شخص کی طرف چھوڑنا جو گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ممکن ہے کہ اس کی عزت اور آبرو کو بر باد کردے جو در اصل اس کے قتل کی طرح ہے ۔ واضح ہے اس عمل کا بوجھ ہمیشہ کے لئے ایسے شخص کے کندھے پر باقی رہے گا جس نے تہمت لگائی ہے اور” احتمل “ ( اپنے کندھے پر اٹھا تاہے ) یہ لفظ بھی اس ذمہ داری کی اہمیت او را س کے ہمیشہ قائم رہنے کی طرف اشارہ ہے ۔
جرم تہمت کسی بے گناہ پر تہمت باندھنا بد ترین افعال میں سے ہے کہ جس کی اسلام نے شدت سے مذمت کی ہے ، زیر نظر آیت اور متعدد اسلامی روایات جو اس ضمن میں ملتی ہیں اس کے لئے اسلام کا نظریہ واضح کرتی ہیں ۔ امام صادق (علیه السلام) ایک حکیم و دانا سے نقل کرتے ہیں :
البھتان علیالبریٴ اثقل من جبال راسیات
بے گناہ پربہتان باندھنا عظیم پہاڑوں سے بھی زیاہ سنگین ہے ۔ 2
بے گناہ افراد پر بہتان باندھنا روح ایمان کے منافی ہے جیسا کہ امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے :۔
اذا اتھم الموٴمن اخاہ انماث الایمانفی قلبہ کم ینماث الملح فی السماء
جو شخص اپنے مومن بھائی پر تہمت ،لگا تا ہے تو ایمان اس کے دل میں اس طرح گھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔3
حقیقت میں بہتان اور تہمت، جھوٹ کی بدترین اقسام میں سے ہے کہ کیونکہ اس میں جھوٹ کے عظیم مفاسد اور غیبت کے نقصانات بھی شامل ہیں اور یہ ظلم و ستم کی بد ترین قسم بھی ہے اس لئے پیغمبر اسلام سے منقول ہے ، آپنے فرمایا:
من بھت موٴمنة او قال فیھما مالیس فیہ اقامہ اللہ تعالیٰ یوم القیامة علی قل من نار حتی یخرج مماقالہ
جو کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے یاان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جو ان میں نہ ہو تو خد اوند عالم اسے قیامت کے دن آپ کے ایک ٹیلے پر کھڑا کردے گا ۔ یہاں تک کہ وہ اس بات سے بری الذمہ ہو جائے جو اس نے کہی ہے ۔ 4
حقیقت میں اس گھٹیا او ربز دلانہ کام کے رائج ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا نظم و نسق اور اجتماعی او رانصاف برباد ہو جاتاہے حق اور باطل آپس میں غلط ملط ہو جاتے ہیں بے گناہ افراد گرفتار ِ بلا ہو جاتے ہیں گنہ گار افراد بچے رہتے ہیں اور باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔

 

۱۱۳۔وَ لَوْ لا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکَ وَ رَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْہُمْ اٴَنْ یُضِلُّوکَ وَ ما یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنْفُسَہُمْ وَ ما یَضُرُّونَکَ مِنْ شَیْء ٍ وَ اٴَنْزَلَ اللَّہُ عَلَیْکَ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ ما لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَ کانَ فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکَ عَظیماً ۔
ترجمہ
۱۱۳۔ اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شاملِ حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ پختہ ارادہ کرچکا تھا وہ تمہیں گمراہ کردے، لیکن وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے اور وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور خدا نے کتاب و حکمت تم پر نازل کی اور تمہیں اس چیز کی تعلیم دی جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر خدا کا عظیم فضل تھا۔

 


۱- شعلہ ٴ اول نصیبِ دامن ” آتش زنہ“ است۔ ۔۔این سزائے آں کہ بوسد آستانِ ظلم را۔ ۔۔ آگ کا پہلا شعلہ جلانے والے کے دامن کو جلاتا ہے ۔ آستانہ ظلم پربوسہ دینے کی یہی سزا ہے ۔
2-سفینة البحار، جلد اول مادہ” بھت“
3- اصول کافی جلد ۲ ص ۲۶۹ باب التھمة و سوء الظن
4- سفینة البحار جلد اوّل صفحہ ۱۱۱
 
تفسیر اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma