حقوق نسواں کے بارے میں مزید گفتگو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرصلح بہتر ہے

زیر نظر آیت میں کچھ لوگوں کے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو انھوں نے عورتوں ( خصوصاً یتیم لڑکیوں )کے متعلق کئے تھے ارشاد ہوتا ہے : اے پیغمبر! تم سے عورتوں سے متعلق احکام پوچھتے ہیں ۔ کہو کہ خدا اس سلسلے میں تمہیں جواب دیتا ہے (وَ یَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّساء ِ قُلِ اللَّہُ یُفْتیکُمْ فیہِن) ۔
مزید ار شاد ہوتا ہے وہ یتیم لڑکیاں جن کے مال پرتم قبضہ کرلیتے تھے نہ ان سے شادی کرتے تھے او رنہ ان کا مال ان کے سپرد کرتے تھے تاکہ وہ کسی اور سے شادی کرلیں ۔ قرآن مجید ان کے بارے میں کچھ اور سوالوں کا جواب دیتا ہے اور اس ظالمانہ روش کی برائی کو واضح کرتا ہے

 ( وَ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فی یَتامَی النِّساء ِ اللاَّتی لا تُؤْتُونَہُنَّ ما کُتِبَ لَہُنَّ وَ تَرْغَبُونَ اٴَنْ تَنْکِحُوہُنَّ) ۔۱
۱۔اس جملے کی مذکورہ تفسیر سے واضح ہوتا ہے کہ ” مایتلیٰ “ مبتداء ہے اور ” یفتیکم فیھن“ اس کی خبر ہے جو آیت کے سابق حصے کے قرینہ سے محذوف ہے اور لفظ” ترغبون“ بھی یہاں مقابلہ نہ ہونے کے معنی میں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ” رغب“ کا مادہ اگر ” عن “ کے ساتھ متعدی ہو تو ہی عدم تما ئل اور اعراض کے معنی دیتا ہے اور اگر ” فی “ کے ساتھ متعدی ہو تو مائل اور و راغب ہونے کے معنی دیتاہے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ” عن“ مقدر ہے ) ۔
اس کے چھوٹے بچوں کے ابرے میں وصیت کی گئی ہے جو کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق میراث سے محروم رہتے تھے فرمایا گیا ہے : خد اتمہیں وصیت کرتا ہے کہ تم کمزور بچوں کے حقوق کا لحاظ رکھو( وَ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الْوِلْدانِ) ۔
ایک مربتہ پھر یتیموں کے حقوق کے بارے میں ایک مجموعی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : خدا تمہیں وصیت کرتا ہے کہ یتیموں سے عدل کرو

( وَ اٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتامی بِالْقِسْطِ) ۔
آخرمیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جیسا عمل خصوصاً یتیموں او رکمزوروں سے متعلق تم سے سر از ہو وہ علم خدا کی نظر سے مخفی نہیں رہتا اور اس کی مناسبت جزا ملے گی ( وَ ما تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّہَ کانَ بِہِ عَلیماً ) ۔
ضمناً اس طرف بھی توجہ رہے کہ ” تستفتونک“ در اصل ” فتویٰ “ اور ” فتیا“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے مشکل مسائل کا جواب دینا لغت میں ا س کی بنیاد چونکہ ” فتیٰ“ ہے جس معنی ہے ” نو جوان “ لہٰذا ممکن ہے پہلے پہل یہ لفظ ان مسائل کے لئے استعمال ہوتا ہو کہ جن کے جوابات جاذب اور تازہ ہوتے ہوں اور بعد ازں ہر طرح کے مسائل کے جواب کے لئے استعمال ہونے لگا ہو ۔


۱۲۸۔ وَ إِنِ امْرَاٴَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِہا نُشُوزاً اٴَوْ إِعْراضاً فَلا جُناحَ عَلَیْہِما اٴَنْ یُصْلِحا بَیْنَہُما صُلْحاً وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ وَ اٴُحْضِرَتِ الْاٴَنْفُسُ الشُّحَّ وَ إِنْ تُحْسِنُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّہَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً ۔
ترجمہ

۱۲۸۔ اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بارے میں اس بات سے خوف زدہ ہو کہ وہ سر کشی یا اعراض کا مرتکب ہو گا تو کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کریں ( اور عورت یا مرد صلح کی خاطر اپنے کچھ حقوق سے صرفِ نظر کرلیں ) اور صلح بہتر ہے اگر چہ یہ لوگ ( حبِّ ذات کی فطرت کے مطابق ایسے مواقع پر) بخل سے کام لیتے ہیں اور اگر نیکی کرو اور پر ہیز گاری اختیار کرو ( اور صلح کی وجہ سے در گذر کردو) تو خدا اس سے آگاہ ہے جو کچھ تم انجام دیتے ہو

( اور تمہیں مناسب جزا دے گا ) ۔

شانِ نزول

بہت سی اسلامی تفاسیر اور کتب احا دیث میں اس آیت کی شانِ نزول یو ں بیان ہوئی ہے :
رافع بن خدیج کی دو بیویاں تھیں ، ایک سن رسیدہ تھی اور دوسری جوان ۔ ( بعض اختلافات کی بنیاد پر) اس نے اپنی سن رسیدہ بیوی کو طلاق دے دی ابھی عدت کی مدت ختم نہ ہوئی تھی کہ رافع نے اس سے کہا: اگر تم چاہوتو میں تم سے مصالحت کرلیتا ہوں البتہ اگر میں نے دوسری بیویکو تجھ پرترجیح دی تو تمہیں صبر کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ چاہو تو پھر عدت کی مدت ختم ہونے تک صبر کرو تاکہ ہم ایک دوسر ے جد اہو جائیں ۔
اس عورت نے پہلی تجویز قبول کرلی، یوں ان کی آپس میں صلح ہو گئی ۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جس میں اس معاملے کے بارے میں حکم شریعت بیان کیا گیا ہے ۔

 

تفسیرصلح بہتر ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma