تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
شان نزول شان ِنزول

گذشتہ آیت ان منافقین کے بارے میں تھی جن کی حمایت میں کچھ سادہ لوح مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تھے او ران کی سفارش کرتے تھے جبکہ قرآن نے انہیں اسلام سے بیگانہ قرار دے دیا اور اب اس آیت میں فرماتا ہے : ان کے اندر اس قدر جہالت اور تاریکی ہ کہ نہ صرف وہ خود کافرہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہو جاوٴتاکہ ایک دوسرے کے مساوی ہو جاوٴ ۔
(وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَما کَفَرُوا فَتَکُونُونَ سَواء ً)
اس وجہ سے وہ تو عام کفار سے بھی بد تر ہیں ۔ کیونکہ عام کافر دوسروں کے عقائد باطل کرنے کے در پے رہتے ہیں کیونکہ وہ ایسے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہےئے کہ ان میں سے کسی کو دوست نہ بنائیں
( فَلا تَتَّخِذُوا مِنْہُمْ اٴَوْلِیاء َ)
مگر یہ کہ وہ اپنے اعمال سے با ز آجائیں اور نفاق اور تخریب کا ری سے دستبردارہو جائیں اور اس کا ثبوت اور نشانی یہ ہے کہ وہ کفر اور نفاق کے مرکز سے اسلام کے مرکز ( مکہ سے مدینہ ) کی طرف ہجرت کریں ( حَتَّی یُہاجِرُوا فی سَبیلِ اللَّہِ) ۔
لیکن اگر وہ ہجرت کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر سمجھ لو کہ وہ کفر و نفاق سے دستبردار نہیں ہوئے اور ان کا مسلمان کہلانا صرف جاسوسی اور تخریب کاری کی غرض سے ہے اور اس صورت میں وہ تمہیں جہاں بھی مل جائیں انہیں قید کرلو یا اگر ضروری ہو تو انھیں قتل کردو ( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوہُمْ وَ اقْتُلُوہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ وَ لا تَتَّخِذُوا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَ لا نَصیراً) ۔
درج بالا آیت میں منافقین کے اس گروہ کے بارے میں جو سخت احکام آئے ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ایک زندہ معاشرے کی تشکیل کے لئے جو اصلاح کے راستے پر چلتا ہے ایسے دوست نما خطرناک دشمن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ اسلام غیر مسلم افراد ( مثلاً یہود و نصاریٰ ) چند شرائط کے ساتھ صلح کی اجازت دے دیتا ہے اور ان سے کوئی تعرض نہ کرنے کے لئے تیار ہے مگر منافقین کے اس گروہ کے بارے میں اس قدر شدت سے کام لیتا ہے ۔ بظاہر وہ مسلمان ہیں پھر انہیں قید کرنے بلکہ بوقت ضرورت ان کے قتل کا حکم دیتا ہے ۔ اس امرکی اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسے افراد اسلام کے پردے میں اسلام کو ایسی گزند پہنچا سکتے ہیں جیسی کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا ۔

ایک سوال

ممکن ہے کہا جائے کہ پیغمبر اکرم کا منافقین کے بارے میں یہ رویہ تھا کہ آپ کبھی ان کے قتل کاحکم نہیں دیتے تھے کہ دشمن کہیں آپ کو اپنے اصحاب کے قتل میں ملوث نہ کریں یا کچھ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذاتی دشمنوں کو منافق کہہ کر ان سے نہ الجھیں اور انھیں قتل نہ کردیں ۔

جواب

توجہ رہے کہ پیغمبر اکرم کا یہ رویہ صرف مدینہ کے منافقین اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں تھا جو بظاہر مسلمان تھے، لیکن وہ لوگ جو مکہ کے منافقین کی طرح واضح طور پر اسلام دشمنوں سے ملے ہوئے تھے وہ اس حکم میں شامل نہیں تھے ۔


۹۰۔إِلاَّ الَّذینَ یَصِلُونَ إِلی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ میثاقٌ اٴَوْ جاؤُکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ اٴَنْ یُقاتِلُوکُمْ اٴَوْ یُقاتِلُوا قَوْمَہُمْ وَ لَوْ شاء َ اللَّہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقاتَلُوکُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقاتِلُوکُمْ وَ اٴَلْقَوْا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَما جَعَلَ اللَّہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبیلاً ۔
ترجمہ
۹۰مگر وہ لوگ جنہوں نے تمہارے ہم پیمان لوگوں سے عہد و پیمان باندھا ہے یا وہ جو تمہای طرف آتے ہیں اور تم سے جنگ کرنے یا اپنی قوم سے جنگ کرنے سے عاجز ہیں ( نہ تم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں او رنہ اپنی قوم سے لڑ نے کی طاقت رکھتے ہیں ) اور اگر خدا چاہے تو انھیں تم پر مسلط کردے تاکہ وہ تم سے جنگ کریں ( اب جبکہ )انہوں نے صلح کی پیشکش کی ہے تو خدا تمہیں اجازت نہیں دیتا کہ ان سے تعرض کرو ۔

 

شان نزول شان ِنزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma