بنی اسرائیل اور سر زمین ِ مقدس

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ایک سوال اور اس کا جوابروئے زمین پر پہلا قتل

ان آیات میں یہودیوں میں روحِ حق شناسی بیدار کرنے ،گذشتہ خطاوٴں کے بارے میں ان کے شعور کو دعوت دینے اور انھیں ان خطاوٴں تلافی پر ابھارا نے کے لئے فرمایا گیا ہے : وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے پیرو کاروں سے کہاکہ خدا نے تمہیں جو نعمتیں بخشی ہیں انھیں فراموش نہ کرو( وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُم) ۔
واضح ہے کہ ” نعمةاللہ “ کا مفہوم پروردگار کی تمام نعمات پر محیط ہے ۔ لیکن یہاں ان کے تین کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔
پہلی یہ کہ بہت سے انبیاء اور رہبران ان میں پیدا ہوئے یہ در اصل ان کے لئے سب سے بڑی نعمت تھی (إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ اٴَنْبِیَاء )یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ صرف حضرت موسیٰ بن عمران کے زمانے میں ستر سے زیادہ پیغمبر تھے ۔ وہ تمام ستر افراد جو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے ہمراہ کوہ طور پر گئے تھے، انبیاء کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اسی نعمت کی برکت سے وہ شرک، بت پرستی اور گوسالہ پرستی جیسی ہولناک مصیبتوں سے رہا ہوئے اور انھوں نے طرح طرح کے خرافات موہومات، قباحتوں اور نجاستوں سے نجات حاصل کی ۔ یہ ان کے لئے عظیم ترین نعمت تھی ۔
ایک عظیم مادی نعمت تھی جو اپنے مقام پر روحانی نعمتوں کے لئے ایک مقدمہ بھی ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : تمہاری جان و مال اور زندگی کا اختیار خود تمہارے ہاتھ میں دے دیا( وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا یعنی خدا نے تم سب کو یہ مقام عطا کیا ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آیت سے مراد ہی کچھ ہے جو ہم نے سطور بالا میں کہا ہے ۔ علاوہ ازیں ” ملک“ ( بر وزن” الف“ ) لغت میں بادشاہ او رصاحب اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ ۱
در منثور میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
کانت بنو اسرائیل اذاکان لاحد ھم کادم و دابة و امراٴة کتب ملکاً
بنی اسرائیل میں سے جس شخص کے پاس غلام ، گھوڑا اور بیوی ہوتی اسے ملک کہتے۔ 2
آیت کے آخر میں کلی طور پر ان اہم نعمتوں کاذکر ہے جو اس زمانے میں کسی اور کو نہیں دی گئی تھی ، تمہیں ایسی چیزیں دی گئیں جو عالمین میں سے کسی کو نہیں دی گئی تھیں (وَآتَاکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اٴَحَدًا مِنْ الْعَالَمِینَ ) ۔
ایسی طرح طرح کی بہت زیادہ نعمتیں تھیں ان میں سے یہ بھی تھیں کہ انھیں معجزانہ طور پر فرعون سے نجات ملی ، ان کے لئے دریا شق ہوا اور امَن و سلویٰ جیسی خاص غذا انھیں مسیر آئی ۔ اس کی تفصیل سورہٴ بقرہ آیت ۵۷ کے ذیل میںجلد اول ( ص۲۱۴، اور دو ترجمہ ) میں گذر چکی ہے ۔
اس کے بعد سر زمین مقدس میں بنی اسرائیل کے حدود کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے : موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تم سر زمین مقدس میں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے داخل ہو جاوٴ، اس سلسلے میں مشکلات سے نہ ڈرو، دا کاری سے منہ نہ موڑو او راگر تم نے اس حکم سے پیٹھ پھیری تو خسارے میں رہو گے
( یَاقَوْمِ ادْخُلُوا الْاٴَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی کَتَبَ اللهُ لَکُمْ وَلاَتَرْتَدُّوا عَلَی اٴَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِین) ۔
آیت میں ارض مقدسہ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے ، بعض بیت المقدس کہتے ہیں کچھ اردن یا فلسطین کانام لیتے ہیں اور بعض سر زمین طور سمجھتے ہیں ، لیکن بعید نہیں کہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس میں تمام مذکورہ علاقے شامل ہیں کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سارا علاقہ انبیاء الہٰی کا گہوارہ، عظیم ادیان کے ظہور کی سر زمین اور طویل تاریخ میں توحید، خدا پرستی اور تعلیماتِ انبیاء کی نشر و اشاعت کا مرکز رہا ہے لہٰذا اسے سر زمین مقدس کہا گیا ہے اگر چہ بعض اوقات خاص بیت المقدس کو بھی ارض مقدس کہا جاتا ہے ۔
کتب اللہ علیکم “ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ نبی اسرائیل سر زمین مقدس میں امن و سکون اور خوشحالی کی زندگی بسر کریں ( اس شرط کے ساتھ کہ اسے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیں اور خود بھی انبیاء کی تعلیم سے منحرف نہ ہوں ) لیکن وہ اگر اس حکم پر کار بند نہ رہے تو انھیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پرے گا ۔ لہٰذا اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی مخاطب نبی اسرائیل کی ایک نسل اس سر زمین میں داخل نہ ہوسکی اور چالیس سال تک بیا بان میں س رگرداں رہی اور ان کی اگلی نسل کو یہ توفیق ملی  تو یہ بات ” کتب اللہ لکم “ ( خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے ) کے مفہوم کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ بات چند شرائط سے مشروط تھی جنہیں انھوں نے پورا نہیں کیا ۔ جیسا کہ بعد والی آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔
بنی اسرائیل نے اس حکم پر حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو وہی جواب دیا جو ایسے موقع پر کمزور ، بزدل اور جاہل لوگ دیا کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ تمام کامیابیاں انھیں اتفاقاً اور معجزانہ طور پر ہی حاصل ہو جائیں یعنی لقمہ بھی کوئی اٹھاکر ان کے منہ میں ڈال دے ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے: آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک جابر اور جنگجوگروہ رہتا ہے جب تک وہ اسے خالی کرکے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے میں قدم تک نہیں رکھیں گے ۔ اسی صورت میں ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور سر زمین ِ مقدس میں داخل ہو ں گے۔
(قَالُوا یَامُوسَی إِنَّ فِیہَا قَوْمًا جَبَّارِینَ 3
وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا حَتَّی یَخْرُجُوا مِنْہَا فَإِنْ یَخْرُجُوا مِنْہَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ) ۔
بنی اسرائیل کا یہ جواب اچھی طرح نشاندہی کرتا ہے کہ طویل فرعونی استعمار نے ان کی نسلوں پر کیسا منحوس اثر چھوڑا تھا ۔ لفظ” لن “ جو دائمی نفی پر دلالت کرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ سر زمین مقدس کی آزادی کے لئے مقابلے سے کس قدر خوفزدہ تھے ۔
چاہیے تو یہ تھاکہ بنی اسرائیل سعی و کوشش کرتے، جہاد و قربانی کے جذبے سے کام لیتے اور سر زمینِ مقدس پر قبضہ کرلیتے اگر فرض کریں کہ سنت الہٰی کے بر خلاف بغیر کسی اقدام کے ان کے تمام دشمن معجزانہ طور پر نوبود ہو جاتے اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے وہ وسیع علاقے کے وارث بن جاتے تو اس کا نظام چلانے اور ا س کی حفاظت میں بھی ناکام رہتے ۔ بغیر زحمت سے حاصل کی ہوئیہ چیز کی حفاظت سے انھیں سرو کار ہو سکتا تھا نہ وہ اس کے لئے تیار ہوتے اور نہ اہل ۔
جیساکہ تواریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں قوم ِ جبار سے مراد قوم عمالقہ 4
ہے یہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی بلند قامت تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی بلند قامت کے بارے میں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے۔ اس سلسلے میں مضحکہ خیز باتیں گھڑی گئیں جن کے لئے کوئی عملی دلیل نہیں ہے ۔
خصوصاً ” عوج“ کے بارے میں خرافات سے معمور ایسی کہانیاں تاریخوں میں ملتی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افسانے جن میں سے بعض اسلامی کتب میں بھی آگئے ہیں ، در اصل نبی اسرائیل کے گھڑے ہوئے ہیں انھیں عام طور پر ” اسرائیلیات“ کہا جاتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود موجودہ تورات کے متن میں ایسے افسانے دکھائی دیتے ہیں ۔ سفر اعداد کی تیرہویں فصل کے آخر میں ہے ۔
اس زمین کے بارے میں جس کے تجسس میں (نبی اسرائیل کے جاسوس) لگے ہوئے تھے انھوں نے آکر ایک بری خبر دی ۔ وہ کہنے لگے کہ جس زمین کے بارے میں ہم تجسس کرنے گئے ہوئے تھے جب ہم اس کے نزدیک سے گزرے تو دیکھا کہ و ہ ایسی زمین ہے جو اپنے رہنے والوں کو تلف کردیتی ہے اور اس میں ہم نے جتنے لوگوں کو دیکھا سب بلند قامت تھے ۔ وہاں ہم نے بلند قد والوں یعنی اولاد عناق جو بلند قامت ہیں و دیکھا ہے ہمیں ایسا لگا جیسے ٹڈی دل ہیں اور خود ان کی نگاہوں میں بھی ہم ایسے ہیں تھے۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اس وقت اہل ایمان میںسے دو افراد ایسے تھے جن کے دل میں خوفِ خدا تھا اور اس بنا پر انھیں عظیم نعمتیں مسیر تھیں ان میں اتقامت و شجاعت بھی تھی، وہ دوراندیش بھی تھے اور اجتماعی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی بصیرت رکھتے تھے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دفاعی تجویز کی حمایت کی اور بنی اسرائیل سے کہنے لگے: تم شہر کے در وازےسے داخل ہو جاوٴ اور اگر تم داخل ہو گئے تو کامیاب ہو جاوٴ گے(قَالَ رَجُلاَنِ مِنْ الَّذِینَ یَخَافُونَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْہِمَا ادْخُلُوا عَلَیْہِمْ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ ) ۔
لیکن ہر صورت میں تمہیں روح ایمان سے مدد حاصل کرنا چاہئیے خدا پر بھروسہ کرو تاکہ اس مقصد کو پالو( وَعَلَی اللهِ فَتَوَکَّلُوا إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ۔
اس بارے میں کہ یہ دوا آدمی کون تھے ؟ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا ( یوفنہ بھی لکھتے ہیں ) تھے جو بنی اسرائیل کے نقیبوں میں سے تھے کہ جن کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔ 5
من الذین یخافونکی تفسیر میں بھی کئی احتمالات پیش کئے گئے ہیں لیکن واضح ہے کہ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ دونوں مرد ایسے تھے جو خدا سے ڈر تے تھے اسی لئے تو انھیں غیر خدا کا کوئی خوف نہ تھا ۔
انعم اللہ علیھماخدا نے ان پر فراوان نعمت کییہ جملہ مندرجہ بالا مفہوم کا شاہد ہے کیونکہ اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو گی کہ انسان صرف اللہ سے ڈرے نہ کہ اس کے غیر سے ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ دو شخص کیسے جانتے تھے کہ اگر بنی اسرائیل اچانک حملہ کرکے شہر میں داخل ہو جائیں تو عمالقہ شکست کھاجائیں گے ۔
شاید یہ اس لئے ہو کہ وہ موسیٰ (علیه السلام) بن عمران کے وعدہٴ فتح و نصرت پر اعتمادرکھتے تھے اور اس کے علاوہ وہ ہ بھی جانتے تھے کہ تمام جنگوں کا ایک یہ اصول ہے کہ اگر حملہ آور فوج اپنے دشمن کے اصلی مرکز پرجاپہنچے یعنی اس کے گھر میں جاکر لڑے، تو عام طور پر کامیاب ہوجاتی ہے ۔ 6
فوا للہ ماغزی قوم فی عقر دار ھم الاذلوا بخداجس قوم پر بھی اس کے گھر میں حملہ کیا گیا ،وہ ذلیل ہوئی ۔ (خطبہ۔ ۲۷)
علاوہ از ایں جیساکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمالقہ ایک تنومند اور قوی ہیکل قوم تھی ( البتہ ان کے بارے میں افسانوی پہلووٴں کا ہم نے انکار کیا ہے ) اور ایسی قوم بیابانی جنگ میں اپنی مہارت کا بہتر مظاہرہ کرسکتی ہے لیکن شہر کے گلی کوچوں میں ویسا نہیں لڑسکتی ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر جیسا کہ کہا جاتا ہے وہ لوگ تنومند اور قوی ہیکل ہو نے کے باوجود ڈر پوک تھے اور اچانک حملے سے جلدی مرعوب ہو جاتے ۔ ان تمام امور کے باعث ان دو افراد نے بنی اسرائیل کی کامیابی کی ضمانت دی تھی ۔ مگر بنی اسرائیل نے یہ تجویز قبول نہ کی اور ضعف و کمزوری جو ان کی روح پر قبضہ کرچکی تھی، کے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسیٰ (علیه السلام) سے کہا: جب تک وہ لوگ اس سر زمین میں ہیں ہم ہر گز داخل نہیں ہو ں گے ، تم اور تمہارا پر وردگار جس نے تم سے کامیابی کا وعدہ کیا ہے ، جاوٴ اور عمالقہ سے جنگ کرو اور جب کامیاب ہو جاوٴ تو ہمیں بنا دیان ہم یہیں بیٹھے ہیں ( قَالُوا یَامُوسَی إِنَّا لَنْ نَدْخُلَہَا اٴَبَدًا مَا دَامُوا فِیہَا فَاذْہَبْ اٴَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَإِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ)
یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ نبی اسرائیل نے اپنے پیغمبرکے سامنے جسارت کی انتہا کردی تھی، کیونکہ پہلے تو انھوں نے لفظ ” لن“ اور ” ابدا“ استعمال کرکے اپنی صریح مخالفت کااظہار کیکا اور پھر یہ کہا کہ تم اور تمہارا پر ور دگارجاوٴ اور جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں  انھوں نے حضرت موسیٰ (علیه السلام) اور ان کے وعدوں کی تحقیر کی یہاں تک کہ خدا کے ان دو بندوں کی تجویز کی بھی پر واہ نہیں کی اور شاید انھیں تو کوئی مختصر سا جواب تک نہیں دیا ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ موجودہ تورات میں بھی اس داستان کے بعض اہم حصے موجود ہیں ۔ یہ واقعہ سر اعداد باب ۱۴ میں ہے ،جہاں مذکورہ ہے :
تمام بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون پر معترض ہو ئے اور سب انھیں کہنے لگے کہ کاش ہم سر زمین مصر ہیں میں مر گئے ہو تے یا پھر کسی جنگل بیابان میں مر جاتے۔ خدا اس زمین میں ہمیں کیوں لے آیا ہے کہ جہاں ہم تلوار زنی کاشکار ہو جائیں اور ہمار ی عورتیں اور بچے لوٹ کا مال بن جا ئیں  پس موسیٰ اور ہارون بنی اسرائیل عوامل کے سامنے منہ کے بل گر پڑے اور یو شع بن نون اور کالیب بن یفتہ جو زمین کے متجسسین میں سے تھے انھوں نے اپنا گریبان چاک کرلیا ۔
اگلی آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بالکل مایوس ہو گئے اور انھوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے اور ان سے علیحدگی کے لئے یوں تقاضا کیا : پر ور دگاررا ! میرا صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ہے : خدا یا ! ہمارے اور اس فاسق و سر کش گروہ میں جدائی ڈال دے تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لیں اور ان کی اصلاح ہو جائے( قَالَ رَبِّ إِنِّی لاَاٴَمْلِکُ إِلاَّ نَفْسِی وَاٴَخِی فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ) ۔
البتہ نبی اسرائیل نے جو کام کیا تھا یعنی اپنے پیغمبر کے حکم صریح کی نافرمانی وہ کفر کی حد تک پہنچی ہو تھی اور اگر قرآن نے انھیں فاسق کا لقب دیا ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ” فاسق“ ایک وسیع معنی رکھتاہے اور اس میں ہر طرح کی عبودیت اور خدا کی بندگی سے خارج ہونے کا مفہوم شامل ہے اسی لئے شیطان کے بارے میں ہے :
ففسق عن امر ربہ
وہ فرمان خدا کے مقابلے ،میں فاسق ہو گیا اور اس نے مخالفت کی ۔ (کہف ۵۰)
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گذشتہ آیات میں ” من الذین یخافون“ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں اقلیت میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو خدا سے ڈرتے تھے ۔ یوشع اور کالیب ایسے ہی افراد میں سے تھے لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیه السلام) اپنا اور اپنے بھائی ہارون (علیه السلام) ہی کا نام لیتے ہیں اور ان دونوں کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ شاید یہ اس لئے ہو کہ حضرت ہارون (علیه السلام) ایک تو حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے جانشین تھے اور دوسرا یہ کہ حضرت مویسٰ (علیه السلام) کے بعد نبی اسرائیل میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا خصوصیت سے ان کا نام لیا گیا ہے ۔
آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور بنی اسرائیل اپنے ان برے اعمال کے انجام سے دو چار ہو ئی ۔ خداکی طرف سے حضرت موسیٰ (علیه السلام) کو وحی ہوئی : یہ لوگ اس مقدس سر زمین سے چالیس سال تک محروم رہیں گے جو طرح طرح کی مادی اور روحانی نعمات سے مالا مال ہے ( قَالَ فَإِنَّہَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْہِمْ اٴَرْبَعِینَ سَنَةً) ۔علاوہ ازیں ان چالس سالوں میں انھیں اس بیابان میں سر گرداں رہنا ہو گا ( یَتِیہُونَ فِی الْاٴَرْض) ۔7
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا ہے : اس قوم کے سر پر جو کچھ بھی آئے وہ صحیح ہے ، ان کے اس انجام پر کبھی غمگین نہ ہونا(ِ فَلاَتَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ۔
آخری جملہ شاید اس لئے ہو کہ جب بنی اسرائیل کے لئے یہ فرمان صادر ہوا کہ وہ چالیس سال تک سزا کے طور پر بیابان میں سر گرداں رہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں جذبہٴ مہربانی پیدا ہوا اور شاید انھوں نے در گاہ خدا وندی میں ان کے لئے عفوو در گذر کی در خواست بھی کی ہو جیسا کہ موجودہ تورات میں بھی ہے لیکن انھیں فوراً جواب دیا گیا کہ وہ اس سزا کے مستحق ہیں نہ کہ عفو و در گذر کے ، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ وہ فاسق اور سر کش لوگ تھے اور جو ایسے ہوں ان کے لئے یہ انجام حتمی ہے ۔
توجہ رہے کہ ان کے لئے چالیس سال کی یہ محرومیت انتقامی جذبے سے نہ تھی( جیسا کہ خدا کی طرف سے کوئی سزابھی ایسی نہیں ہوتی بلکہ یا اصلاح کے لئے ہوتی ہے اور یا عمل کا نتیجہ)در حقیقت اس کا ایک فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک فر عونی استعمار کی ضربیں جھیل چکے تھے ۔ اس عرصے میں حقارت آمیز رسومات، اپنے مقام کی عدم شناخت اور احساسات ِ ذلت کا شکار ہو چکے تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم رہبر کی سر پرستی میں اس تھوڑے سے عر صے میں اپنی روح کو ان خامیوں سے پا ک نہیں کر سکتے تھے اور وہ ایک ہی جست میں افتخار، قدرت اور سر بلندی کی نئی زندگی کے لئے تیار نہیں ہو پاتے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیه السلام) نے انھیں مقدس سر زمین کے حصول کے لئے جہاد آزادی کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہ کرنے کے لئے انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس حقیقت کی واضح دلیل ہے لہٰذا ضروری تھا کہ وہ ایک طویل مدت وسیع بیابانوں میں سر گرداں رہیں اور اس طرح ان کی ناتواں اور غلامانہ ذہنیت کی حامل موجودہ کمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہو جائے اور نئی نسل حریت و آزادی کے ماحول میں اور خدائی تعلیمات کی آغوش میں پر وان چڑھے تاکہ وہ اس قسم کے جہاد کے لئے اقدام کر سکے اور اس طرح سے اس سر زمین پر حق کی حکمرانی قائم ہو سکے۔

 

۲۷۔ وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اٴَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ ۔
۲۸۔ لَئِنْ بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا اٴَنَا بِبَاسِطٍ یَدِی إِلَیْکَ لِاٴَقْتُلَکَ إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ۔
۲۹۔إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ اٴَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِکَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ ۔
ترجمہ
۲۷۔ آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ ان کے سامنے پڑھیے جبکہ ان میں سے ہر ایک نے( پر وردگار کے) تقرب کے لئے کام کیا مگر وہ ایک کا ( عمل )تو قبول ہوگیا لیکن دوسرے سے قبول نہ کیا گیا ( وہ بھائی جس کا عمل قبول نہیں ہوا تھا دوسرے بھائی سے ) کہنے لگا : خدا کی قسم میں تجھے قتل کر دوں گا ۔ (دوسرے بھائی نے کہا: ( میں نے کونسا گناہ کیا ہے ، کیونکہ ) خدا تو صرف پر ہیز گاروں سے قبول کرتا ہے ۔
۲۸۔ اگر تو میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھائے تو میں تو تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاوٴں گا،کیونکہ میں عالمین کے پروردگارسے ڈرتا ہوں ۔
۲۹۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ( تو یہ عمل انجام دے کر ) میرا اور اپنا بوجھ اٹھائے ہو ئے لوٹے اور ( دونوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ) تو جہنمیوں میں سے ہو جائے اور ستمگر وں کی یہی سزا ہے ۔

 


 
۱۔کتب لغت میں ہے : الملک من کان لہ الملک و الملک ھو مایملکہ الانسان و یتصرف بہ ۔ او ۔ العظمة و السلطة ۔مَلِک وہ شخص ہے جو مِلک رکھتا ہو اور مِلک ان سب چیزوں کو کہتے ہیں جس کا انسان مالک ہو اور ان میں تصرف کرے ۔
2۔ المیزان جلد ۵ ص ۳۱۹ ، تفسیر طبرسی ج۶ ص ۱۰۸ میں بھی یہ روایت نقل ہے ۔
3 توجہ رہے کہ لفظ ”جبار“ اصل میں مادہ ” جبر “ سے ہے اس کامعنی ہے کہ کسی چیز کی قوت سے اور زبر دستی اصلاح کرنا، اسی لئے ٹوٹی ہوئے ہڈی باندھنے کو ” جبر“ کہتے ہیں ۔ بعد ا زاں ایک طرف ہر طرح کی اصلاح اور دوسری طرف ہر طرح کے تسلط اور غلبہ کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا خدا کو بھی جبار اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تمام چیزوں پر تلسط رکھتا ہے یا ہر محتاج کی اصلاح کرتا ہے ۔
4عمالقہ ، سام کی اولاد میں سے ایک قوم تھی یہ لوگ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں صحرائے سینا کے نزدیک رہتے تھے وہ مصر پر حملہ آور ہوئے اور مدتوں اس پر قابض رہے ان کی حکومت کا عرصہ تقریباً ۵۰۰ سال تھا ( ۲۲۱۳ ق م سے لے کر ۱۷۰۳ ق م تک ) ۔ ( دائرة المعارف فرید وجدی ج۶ ص ۲۳۲ طبع سوم )
5۔ موجودہ تورات کے سفر تثنیہ باب اول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کے نام یوشع اور کالب تھے ۔
6 ۔ نہج البلاغہ میں بھی خطبہ جہاد میں اس جنگی حکمت ِ عملی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ امیر المومنین (علیه السلام) فرماتے ہیں ۔
7۔”یتھون “ کا مادہ ” تیہ“ ہے جس کا معنی ہے سر گردانی ۔ بعد ازاں ” تیہ“ اس بیا بان کا نام ہو گیا جس میں بنی اسرائیل سر گر داں رہے۔ جیسا کہ ہم تفسیرنمونہ جلد اول ( ص ۲۱۳، ار دو ترجمہ)بیان کرچکے ہیں یہ صحرا، صحرائے سینا کا ایک حصہ ہے ۔
ایک سوال اور اس کا جوابروئے زمین پر پہلا قتل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma