تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ایک سوال اور اس کا جواب چند اہم نکات

گذشتہ آیات میں جہاد کے متعلق گفتگو ہو تھی یہ دو آیات مجاہدین اور غیر مجاہدین کا تقابل او رموازنہ کرتی ہیں ۔ خدا کہتا ہے : وہ ایمان کہ جو میدان جہاد میں شرکت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں جبکہ انھیں اسی خاص بیماری بھی لاحق نہیں کہ جو انھیں میدان جہاد میں شر کت کرنے سے مانع ہو کبھی ان مجاہدین کے ہم پلہ او ربرابر نہیں ہو سکتے جو راہ خدا میں اور اعلائے کلمہ حق کے لئے اپنی جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ( لا یَسْتَوِی الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنینَ غَیْرُ اٴُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجاہِدُونَ فی سَبیلِ اللَّہِ بِاٴَمْوالِہِمْ وَ اٴَنْفُسِہِمْ)
واضح ہے کہ ” قاعدون“ سے مراد یہاں وہ افراد ہیں جنھوں نے اصول ِ ایمان پر ایمان رکھنے کے باوجود ہمت اور جوانمردی نہ دکھانے کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہیں کی ۔ اگر چہ ان کے لئے یہ جہاد واجب عینی نہیں تھا کیونکہ اگر ان کے لئے واجب ہوتا تو قرآن ان کے بارے میں ایسے نرم اور ملائم لہجے میں بات نہ کرتا او را ٓیت کے آخر میں ان سے بدلے اور جزا کا وعدہ نہ کرتا اس وجہ سے جب یہ صورتحال ہو کہ جہاد واجب عینی نہ ہو” مجاہدین “ قاعدین “ کے مقابلے میں واضح طور پر برتر ہیں بہر حال اس آیت میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو نفاق یا دشمنی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہوئے
ضمنی طور پر یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ” غیر اولی الضرر“کی تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے ، جو ان تمام افراد کو ( جہاد سے ) مستثنیٰ قرار دیتی ہے جوکسی عضو کے نقص ، بیماری یا بہت زیادہ کمزوروی اور ضعف وغیرہ کے سبب جہاد میں شرکت کی سکت نہیں رکھتے اس کے بعد پھر مجاہدین کی بر تری اور فضیلت کو صراحت اور فصاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
خدا ان مجاہدین کو جو جان و مال سے اس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ، ان لوگوں پر عظیم فضیلت بخشتا ہے جو میدان جہاد میں شرکت سے اجتناب او رکنارہ کشی کرتے ہیں ( فَضَّلَ اللَّہُ الْمُجاہِدینَ بِاٴَمْوالِہِمْ وَ اٴَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقاعِدینَ دَرَجَةً)۱
لیکن باوجود اس کے جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ مجاہدین کے گروہ کے مد مقابل وہ افراد ہیں جن پر جہاد ” واجب عینی “ نہیں تھا ۔ یا وہ بیماری، ناتوانی یا د یگر علل کی وجوہ سے میدان جہاد میں شرکت کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔ لہٰذا اس وجہ سے کہ ان کی صالح نیت ایمان او رنیک اعمال نظرانداز نہ ہوں انھیں بھی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے : دونوں گروہوں ( مجاہدین وغیر مجاہدین ) سے اچھائی کا وعدہ کیا گیا ہے ( وَ کُلاًّ وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنی)لیکن واضح ہے کہ وہ اچھائی کا وعدہ دونوں سے کیا گیا ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہے حقیقت میں قرآن اس بیان کے ذریعے نشاندہی کرتا ہے کہ ہر نیک کام کا حصہ اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور بھولنے والا نہیں ۔ خصوصاًجبکہ بحث جہاد سے کنارہ کش ہونے والے ایسے افراد کے متعلق ہے جو جہاد میں شرکت کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک بہت بڑی سعادت اور مقصد سمجھتے تھے لیکن چونکہ یہ واجب عینی نہ تھا اس بناپر وہ ایک بڑی سعادت سے محروم رہ گئے اس کے باوجود وہ جتنا لگاوٴ اس کام ( جہاد) سے رکھتے ہیں اس قدر جزا پائیں گے اس طرح( اولی الضرر) افراد بھی جو ( بیماری یا کسی عضو کے ناقص ہونے کی وجہ سے میدانِ جہاد میں شریک نہیں ہوئے ) مکمل طور پر اس سے لگاوٴ رکھتے تھے وہ بھی مجاہدین کی جزا او ربدلے میں سے قابلِ ذکر حصہ پائیں گے ۔
جیسا کہ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے لشکر اسلام سے فرمایا:
لقد خلفتم فی المدینة اقواماً ماسرتم سیراً ولاقطعتم وادیاً الاکانوا معکم و ھم الذین صحت نیانھم و نصحت جیوھم وھوت افئدتھم الیٰ الجہادو قد منعھم عن المسیر ضرر اوغیرہ
مدینہ میں تم کچھ لوگوں کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو کہ جو اس راہ میں قدم قدم پر تمہارے ساتھ تھے ( اور خدا ئی اجر اور صلے میں شریک تھے ) وہ ایسے لوگ ہیں جن کی نیت پاک ہے اور وہ بہت زیادہ خیر خواہی کرنے والے ہیں اور ان کے دل جہاد کے مشتاق تھے مگر کچھ مجبور یوں مثلاً بیماری اور نقص وغیرہ نے انھیں اس کام سے روک دیا ہے ۔۲
لیکن چونکہ اسلام میں جہاد کی اہمیت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے لہٰذا دوبارہ مجاہدین کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے :
خدا نے مجاہدین کو قاعدین پر اجر عظیم بخشا ہے ( وَ فَضَّلَ اللَّہُ الْمُجاہِدینَ عَلَی الْقاعِدینَ اٴَجْراً عَظیماً) ۔
بعد از آں آیت میں ” اجر عظیم “ کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو خدا کی طرف سے اہم درجات اور اس کی بخشش و رحمت ہے (دَرَجاتٍ مِنْہُ وَ مَغْفِرَةً وَ رَحْمَةً )
اور اگر اس دوران میں کچھ افراد فرائض کی انجام دہی کرتے کرتے ہوئے کچھ لغزشوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنے کئے پر پشمان ہیں تو خدانے انسے بھی بخشش ونجات کا وعدہ کیا ہے ۔ لہٰذا آیت کے آخر میں فرماتا ہے (وَ کانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحیماً) ۔

 


۱-درجہ کا لفظ بطور نکرہ آیا ہے جیساکہ کتب ادب میں ہے کہ ایسے موقع پر نکرہ وظمت و اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے گویا اس قدر انکا درجہ بلند ہے جو مکمل طور پر پہچانا نہیں جاتا اور یہ اس طرح ہے کہ جب کسی چیز کی بہت زیادہ قدر و قیمت بیان کرنی ہو تو کہا جا تا ہے کہ ا س کی قیمت کو ئی نہیں جانتا۔
۲۔ تفسیر صافی، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma