تثلیث کے بارے میں چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
خیالی تثلیث عیسیٰ خدا کے بندے ہیں

1۔ اناجیل میں عقیدئہ تثلیث نہیں ہے : موجودہ کسی انجیل میں بھی مسئلہ تثلیث کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اسی لیے عیسائی محققین کا نظریہ ہے کہ تثلیث کاسر چشمہ اناجیل میں مخفی اور غیر واضح ہے ۔
ایک امر یکی مصنف مسڑباکس کہتا ہے :
لیکن مسئلہ تثلیث عہد عتیق اور عہد جدید میں مخفی اور غیر واضح ہے۔ ۱قا موس مقدس ص ۳۴۵طبع بیروت
جیسا کہ بعض موئر خین لکھا ہے مسئلہ تثلیث تقریباً تیسری صدی کے بعد عیسائیوں میں پیدا ہوا ، یہ ایک بدعت ہے جو ایک طرف سے غلو کی بناپر اور دوسری طرف سے عیسائیوں کے دیگر اقوام سے میل جول کی بنا پر حقیقی مسیحیت میں داخل ہوگئی ۔
بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ عیسائیوں کی تثلیث اصولی طور پر ہندؤوں کی سہ گانہ پر ستی جیسے” ثالوث ہندی “ کہتے ہیں سے لی گئی ہے ۔۱بیسویں صدی کے دائرة المعارف (فرید وجدی )مادہ ثالوث کی طرف رجوع کریں ،ہندؤوں کے تین خدابرہما ، قیشنو اور سیفاتھے ۔
۲۔ عقیدئہ ِ تثلیث خلا ف عقل ہے :تثلیث خصوصاً تثلیث در وحدت (یعنی ۔ایک ہوتے ہوئے تین )ایک ایسا مطلب ہے جو بالکل نامعقو ل اور ہدایت عقلی کے خلاف ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دین کبھی عقل وعلم سے جدا نہیں ہوسکتا ۔حقیقی علم حقیقی مذہب سے ہمیشہ ہم آہنگ ہوتا اور یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں یہ بات کہ مذہب کو عبد ہونے کے ناقے قبول کرلیا جائے بہت ہی غلط ہے کیونکہ اگر کسی مذہب کے اصول قبول کرنے میں عقل کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور عبد ہونے کے حوالے سے ہی اسے قبول کرلیا جائے تو پھر اس مذہب اور دیگر مذاہب میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا ۔ اس موقع پر پھر کون سی دلیل ہے کہ کہا جائے کہ انسان کو خدا پرست ہونا چاہیے نہ کہ بت پرست اور یونہی پھر کیوں آخرمسیحی اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ، لیکن دوسرے مذاہب نہ کریں اور وہ کون سی خصوصیات ہیں جو وہ مسیحیت کے لیے سمجھتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ لوگ اس کی طرف آئیں یہ سب سوالات اس بات کی دلیل ہیں کہ مذہب کو منطق کے ذریعے پہچانا جائے اور یہ بات اس دعویٰ کے بالکل خلاف ہے کہ جس کے مطابق وہ مسئلہ تثلیث میں مذہب کو عقل سے جدا کرتے ہیں ۔
بہر حال مذہب کی بنیا د وں کو تو ڑنے لے لیے اس سے بدتر کوئی بات نہیں کہ ہم کہیں کہ مذہب عقلی و منطقی پہلو نہیں رکھتابلکہ عہد ہونے کے حولے سے اختیار کیا جاتا ہے ۔
۳۔ خدا ہر لحاظ سے یکتا ہے :توحیدکی بحث میں بہت سی دلیلیں پیش کی گئی ہیں جو ذاتِ خدا کی یکتائی اور یگانگی کو ثابت کرتی ہیں اور ہر طرح کی دوگانگی ،سہ گانگی یاتعدد کی نفی کرتی ہیں ۔ خدا ایک ہی ہے جو لا متنا ہی وجود ہے ، جوعلم ، قدرت اور توانائی کے لحاظ سے ازلی وابدی اور غیر محدود ہے ہم جانتے ہیں کہ لا متنا ہی وجود میں تعدد اور دوگانگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اگر دو کولا متنا ہی فرض کریں تو دونوں ہی محدود ہوں گے کیونکہ پہلا وجود دوسرے کی قدرت وتوانائی اور ہتی کا فاقد ہے اور دوسرا وجود اسی طرح پہلے وجود اور اس کے امتیاز ات و خصوصیات کا فاقد ہے یعنی پہلے وجود کا اپنا وجود اور امتیاز ات ہیں اور دوسرے کا اپنا وجود اور امتیازات اس بنا پر پہلا وجود بھی محدود ہوگا اور دوسرا بھی ۔واضح تر الفاظ میں اگر دووجود تمام جہات سے لا متنا ہی فرض کریے جائیں تو یقینا پہلا ”لا متناہی “ وجود جب دوسرے ”لامتناہی“ وجود کی حد تک پہنچے گا تو وہ تمام ہوجائے گا اور دوسرا ” لامتناہی “ وجود جب پہلے ” لامتناہی “ وجود کی حد تک پہنچے گا تو وہ بھی تمام ہو جائے گا ۔ لہذا دونوں محدود اور متناہی ہوں گے ۔
اس کا نیتجہ یہ ہے کہ وہ ذاتِ خدا جو ایک لامتناہی وجود ہے اس میں ہر گز تعدد نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے اگر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ذاتِ خدا تین اقنو م یاتین ذاتوں سے مرکب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ تینوں محدود ہوں نہ کہ غیر محدود اور لامتناہی ۔
علاوہ ازیں ہر مرکب اپنے اجزاء کا محتا ج ہے اور اس کا ودجود ان کے وجود کا معلول ہے ذات ِ خدا بھی تر کیب ما ننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ محتاج اور معلو ل ہو حالانکہ ہم جا نتے ہیں کہ بے نیاز ہے اور عالم ِ ہستی کی پہلی عّلت ہے ۔
۴۔ خدا انسانی لباس میں کیونکر ممکن ہے :ان سب باتوں سے قطع نظر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ذات خدا انسانی روپ میں ظاہر ہوا اور اسے جسم ، مکان ،غذا اور لبا س وغیرہ کی احیتاز پیدا ہوجائے ،خدائے ازلی وابدی کو ایک انسان کے جسم میں محدود کرنا ااور اسے مادر ِ رحم میں جنین کی حالت میں سمجھنا بدترین تہمتوں میں سے ہیں جو ذات ِ مقدسِ الہیٰ سے وابستہ کی جائیں ۔اسی طرح خدا کی طرف بیٹے کی نسبت دینا ایک غیر منطقی اور بالکل نا معقول بات ہے کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ خدا کے لیے مختلف عوارض جسمانی کا قائل ہواجائے یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے مسیحیت کے ماحول میں پرورش پائی اورر بچپن سے اسے ان موہوم اور غلط تعلیمات کی عادت نہیں ہے وہ فطرت وعقل کے خلاف یہ باتیں سن کر کڑھنے لگتا ہے خود عیسائی ” باپ خدا “ اور ” بیٹاخدا“ جیسی باتیں سن کر اس لیے پریشان نہیں ہوتا کیونکہ وہ بچپن سے ان غلط مفاہیم سے مانوس ہو چکا ہوتا ہے ۔
۵۔ پر فریب تشبیہیں :اس دور میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض مسحیی مبلّغین بے خبر لوگوں کو غافل رکھنے کیلیے پر فریب مثالوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ مثلاً وحدت در تثلیث (یعنی تین ہوتے ہوئے ایک ) کو کرّہ آفتاب ، اس کانور اور اس کی حرارت سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی یہ تین چیزیں ہیں اس کے باوجود ایک حقیقت ہیں ۔اسی طرح وہ اسے ایسے وجود سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا عکس تین آیئنو ں میں پڑ رہا ہو باوجود یکہ وہ ایک ہی وجود ہے پھر بھی تین وجود نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح وہ مثلث کی مثال دیتے ہیں جس کے تین زاویے ہوتے ہیں لیکن اگر ان زاویوں کو اندر کو بڑھائیں تو ایک ہی نقطے تک جا پہچنتے ہیں ۔
تھوڑے سے غور وفکر سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان مثالوں کا زیر بحث مسئلے سے کوئی ربط نہیں ۔ مسلّم ہے کہ کرہ آفتاب اور اس کانور دوچیزیں ہیں نور قرمزی رنگ سے مافوق لہروں کو کہتے ہیں وہ سائنسی نقطہ نظر سے حرارت سے مختلف ہے جو کہ امواج ِ مادونِ قرمز ہیں اگر انھیں ایک کہا جا ئے تو یہ غلط فہمی اور مجاز سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا ۔
اس زیادہ واضح جسم اور آئینو ں کی مثال ہے کیونکہ جو عکس آئینوں میں پڑتا ہے وہ انعکاس ِ نور کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں اور مسلّم ہے کہ ورشنی کا انعکاس خود جسم کے علاوہ چیز ہے اس لیے انھیں ایک چیز نہیں کہا جاسکتا اور جس نے بھی کسی سکول میں طبیعا ت ((PHYSISCSکی پہلی کتاب پڑھی ہو وہ یہ بات جانتا ہے ۔
مثلث والی مثال بھی ایسی ہے ،مثلث کے زاویے یقینا متعدد ہوتے ہیں اور مثلث کے اندرونی طرف بڑھتے جانے سے زاویے جب ایک نقطے میں بدل جاتے ہیں تو اس کا مثلث سے کوئی تعلق نہیں ۔
باعث تعجب ہے کہ بعض مشرقی عیسائی توحید در تثلیث کے نظرئیے کو صوفیا 3
کی وحدت ِ وجود کی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر واضح ہے کہ اگر کوئی شخص وحدت ِ وجود کے غلط اور انحرافی عقیدے کو قبول بھی کرے تو بھی اسے چاہیے کہ اس عالم کے تمام موجودات کو ذات ِخدا کا جزو سمجھے بلکہ اس کا عین تصّور کرے اس لیے اس میں سے تثلیث کا تو کوئی مطلب نہیں نکلتا بلکہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام موجودات اس کا جزو یا مظہر قرار پائیں گی ۔ لہٰذا مسیحیت کی تثلیث کا وحدت ِ وجود سے کوئی ربط نہیں اگر اپنے مقام پر صو فیوں کے وحدت الوجود کا نظریہ بھی باطل ہوچکا ہے ۔
۶۔ایک اور اشتباہ :۔بعض اورقات کچھ عیسائی کہتے ہیں کہ ہم جو عیسی کو ابن اللہ کہتے ہیں تو اسی طرح ہے ، جیسے تم امام حسین کو ثاراللہ وابن ثارہ (خون خدا اور فرزند خون خدا )کہتے ہو یا بعض روایات میں حضرت علی کو ” ید اللہ “ (اللہ کا ہا تھ کہا گیاہے )۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ ایک بہت بڑا اشتباہ ہے کہ بعض نے ” ثار“ کا معنی خون کیا ہے کیونکہ لفظ” ثار“ عربی میں کھبی بھی ”خون “ کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس کا معنی ہے ” خون بہا“ عربی میں خون کے لیے ” دم “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لیے ”ثاراللہ “ کا مطلب ہے ”اے وہ شخص جس کا خون بہا اللہ سے تعلق رکھتا ہے اور وہی تیراخونبہالے گا “ یعنی تو کسی ایک خاندان سے تعلق نہیں رکھتا کہ تیرا خون بہا اس خاندان کا سر براہ لے اور نہ ہی تو کسی ایک قبیلے سے تعلق رکھتا ہے کہ سربراہ ِ قبیلہ تیرا خون بہالے ، تو عالم ِ انسانیت سے تعلق رکھتا ہے کہ اور تیرا تعلق تو عالم ِ، ہستی اور خدا کی ذات پاک سے ہے ۔ لہٰذا تیرا خون بہا اسے لینا چاہیے ، اسی طرح تو علی ابن ِ ابی طالب کا بیٹا ہے جو شہید راہ ِ خدا تھے اور ان کا خون بہا بھی خدا ہی کو لینا چاہیے ۔
دوسرا یہ کہ اگر کسی عبادت میں مردانِ خدا کے لیے ” ید اللہ “ یا اسی طرح کا کوئی لفظ آیا ہے تو یہ تشبیہ کنایہ اور مجاز کے طور پر ہے ۔ کیا کوئی حقیقی عیسائی اس بات پر تیار ہے کہ مسیح کے لیے ابن اللہ کہنے کو ایک طرح کا مجاز اور کنایہ قرار دے ۔ مسلماً اایسا نہیں ہے کیونکہ مسیحیت کی اصلی کتب اور مصادر میں انھیں خدا کا حقیقی بیٹا قرار دیا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ صفت مسیح کے ساتھ مخصوص ہے کسی اور کے لیے ایسا نہیں ہے ۔
یہ جو عیسائیوں کی بعض سطحی تبلیغاتی تحریروں میں نظر آتا ہے کہ وہ ” ابن اللہ “ کوکنایہ اور تشبیہ قرار دیتے ہیں یہ زیادہ تر عوام کو فریب دینے کے لیے ہے اس کی وضاحت کے لیے مند رجہ ذیل عبارت کی طرف توجہ کریں ۔ یہ عبارت قاموس کتاب مقدس کے مو لف نے لفظ ” خدا“ کے ضمن میں تحریر کی ہے :
اور ” ابن اللہ “ ہما رے نجات دہندہ اور فدیہ بننے والے کا ایک لقب ہے جو اس کے علاوہ سی اور کے لیے نہیں بولا جا سکتا ، مگر ایسے مقام پر کہ جہاں قرائن سے معلوم ہوکہ مقصد خدا کا حقیقی بیٹا ہے ( قاموس مقدس ص ۲۴۵،طبع بیروت )


۱۷۲۔ لَنْ یَسْتَنکِفَ الْمَسِیحُ اٴَنْ یَکُونَ عَبْدًا لِلَّہِ وَلاَالْمَلاَئِکَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَنْ یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیعًا ۔
۱۷۳۔ فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیہِمْ اٴُجُورَہُمْ وَیَزِیدُہُمْ مِنْ فَضْلِہِ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَہُمْ مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیر
ترجمہ
۱۷۲۔ مسیح اس سے ہرگز پہلو تہی اور انکار نہیں کرتا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ اس کے مقّرب فرشتے (اس کاانکار کرتے ہیں ) اور جو اس کی عبودیت اور بندگی سے پہلو تہی کرے اور تکبر کرے ، بہت جلد وہ ان سب کو اپنی طرف محشور کرے گا (انھیں قیامت میں اٹھا ئے گا ) ۔
۱۷۳۔ باقی رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیے ان کی پوری اجزاانھیں دے گا اور اپنے فضل وبخشش سے انھیں مزید دے گا ۔ لیکن جنھو ں نے پہلو تہی کی تکبر کیا انھیں دردناک سزادے گا اور وہ خدا کے علاوہ اپنے لیے کوئی سر پر ست اور یا ور مددگا ر نہیں پا ئیں گے ۔

شانِ نز ول

بعض مفسرین نے ان آیات اکے سلسلے میں ایک شانِ نزول روایت یہ ہے :
نجرا ن کے کچھ عیسائی پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انھوں نے عرض کیا : ۔
آپ ہمارے پیشوا پر کیو ں تنقید کرتے ہیں ؟
پیغمبر اسلا منے فرفایا : میں نے ان پر کون ساعیب لگایا ہے ؟
وہ کہنے لگے :۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسو ل ہیں ۔
اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور انھیں جواب دیا گیا ۔

 

خیالی تثلیث عیسیٰ خدا کے بندے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma