شانِ نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
جہاد کی انتہائی تاکیدچند اہم نکات

جنگ بدر کی ابتدا سے قبل سر داران قریش نے یہ خطر ناک اعلان کیا تھا کہ مکہ کے تمام رہنے والے جو میدان جنگ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ، مسلمانوں سے جنگ کرنے لئے نکل کھڑے ہو ں اور جو اس کام کی مخالفت کرے گا اس کا گھر ویران کردیاجائے گا اور اس کامال ضبط کرلیا جائے گا اس دھمکی کے بعد کچھ افراد جو بظاہر ایمان لاچکے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں گھر اور مال و متاع انتہائی عزیز تھا وہ ہجرت کے لئے تیار نہ ہوئے او ربت پرستوں کے ساتھ میدان جنگ کی طرف چل پڑے میدان جنگ میں انھوں نے مشرکین کا ساتھ دیا وہ مسلمانوں کی کم تعداد کو دیکھ کر شک و شبے میں مبتلا ہو گئے اورآخر کار میدانِ جنگ میں قتل ہو گئے درج بالا آیت اسی ضمن میں نازل ہو ئی جس میں ان کا عبرت ناک انجام بیان کیا گیا ہے ۔

تفسیر

جہادسے متعلق مباحث کے بعد ان آیات میں ایسے لوگوںکے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ کیا گیا جو اسلام کا دم بھر تے تھے لیکن انھوں نے اسلام کے اہم لائحہ حمل یعنی ” ہجرت“ کو حملاً نظر انداز کئے رکھا جس کے نتیجے میں وہ خطر ناک وادیوں میں پہنچ گئے او رمشرکین کی صفوں میں شامل ہوکر انھوں نے جانیں گنوادیں قرآن کہتا ہے : وہ لوگ کہ ( قبض روح کرنے والے ) فرشتوں نے جن کی روح اس حالت میں قبض کی کہ جب انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کررکھا تھا انھوں نے ان سے پوچھا کہ اگر تم لوگ مسلمان تھے تو پھر کفار کی صفوں میں شامل ہو کر تم نے مسلمانوں سے کیوں جنگ کی (إِنَّ الَّذینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلائِکَةُ ظالِمی اٴَنْفُسِہِمْ قالُوا فیمَ کُنْتُمْ) ۔
وہ جواب میں معذرت خواہی سے کہتے ہیں : ہم اپنے ماحول میں جبر اور دباوٴ میں تھے اس لئے ہم فرمان الہٰی پر عمل کی طاقت نہیں رکھتے تھے ( قالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفینَ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
لیکن ان کی یہ معذرت قابل ِ قبول نہ ہوگی اور فوراً وہ خدا کے فرشتوں سے یہ جواب نسیں گے کہ کیا پروردگار کی زمین وسیع و عریض نہ تھی کہ تم ہجرت کرتے اور اپنے آپ کو اس آلودہ اور گھٹے ہوئے ماحول سے نکال کر لے جاتے( قالُوا اٴَ لَمْ تَکُنْ اٴَرْضُ اللَّہِ واسِعَةً فَتُہاجِرُوا فیہا )
آخر میں اس کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : اس قسم کے لوگ جنھوں نے بیکار عذر داری اور ذاتی مصلحت اندیشوں کے سبب ہجرت نیہں کی اورانھوں نے اس گھٹے ہوئے ماحول میں زندگی گذارنے کو ترجیح دی ہے ان کا ٹھکا نہ جہنم ہے اور وہ بہت برا انجام ہے (فَاٴُولئِکَ مَاٴْواہُمْ جَہَنَّمُ وَ سائَتْ مَصیراً ) ۔
بعد والی آیت میں مستضعفین ، حقیقی کمزور اور عاجز افراد ( نہ کہ جھوٹے مستضعفین ) کے استثناء کے ساتھ فرماتا ہے : وہ مرد عورتیں اور بچے جو اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کا وئی راستہ نہیں پاتے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ لوگ حقیقتاً معذور ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خدا ناقابل حمل ذمہ داری لاگو کردے(إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساء ِ وَ الْوِلْدانِ لا یَسْتَطیعُونَ حیلَةً وَ لا یَہْتَدُونَ سَبیلاً ) ۔
آخری آیت میں فرماتا ہے : ہوسکتا ہے عفو خداوندی ان کے شامل حال ہو اور خدا ہمیشہ سے معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے (فَاٴُولئِکَ عَسَی اللَّہُ اٴَنْ یَعْفُوَ عَنْہُمْ وَ کانَ اللَّہُ عَفُوًّا غَفُوراً ) ۔
یہ بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر یہ افراد حقیقتاً معذور ہیں تو پھر کیوں نہیں فرماتا کہ خدا حتماً او ریقینا انھیں بخش دے گا وہ تو کہتا ہے ” عسیٰ “

 ( شاید ) اس سوال کا جواب وہی ہے جو اس سورہ کی آیت۸۴ کے ذیل میں بیان ہو چکا ہے کہ اس طرح کی تعبیروں سے مراد کیا ہے ۔ اس آیت میں مذکورحکم چند شرائط کے ساتھ آیا ہے جن پر غور کرنے ضرورت ہے ۔
خدا اس قسم کے افراد سے عفو کرتا ہے جنھوں نے موقع ملنے پر ہجرت کے عمل سے تھوڑی سی کوتا ہی بھی نہ کی ہو ۔ اصطلاح کے مطابق اس کام کے ضمن میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو اور اب بھ موقع ملتے ہی ہجرت کرنے پر آمادہ اور تیار ہوں۔

 

جہاد کی انتہائی تاکیدچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma