بہن بھائی کی میراث کے چند احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
نو رِ مبین سورةُ المَائدة

زیر نظر آیت میں بھا ئی بہنوں کی میراث کی مقدار بیان کی گئی ہے ۔جیساکہ اس سورہ کے اوائل میں آیت ۱۲ کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں کہ بہنوں اور بھایئوں کی میراث کے بارے میں قرآن حکیم میں دو آییتں ہیں ۔ ایک وہی آیت ۱۲  دوسری یہ آیت جو سورئہ نسا ء کی آخری آیت ہے اگر چہ دونوں آیات میراث کی مقدار کے بارے میں مختلف ہیں لیکن جیسا کہ سورہ کی ابتداء میں بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ان میں ہر ایک بہنوں اور بھایئوں کی الگ الگ قسم کے بارے میں ہے ۔آیت ۱۲ مادری بہن بھایئوں کے بارے میں ہے لیکن زیر بحث آیت پدری مادری یاصرف پدری بہن بھایئوں کے بارے میں ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ عام طور پر کبھی تو کچھ لوگ متوفی سے بالواسطہ ربط رکھتے ہیں ۔ ان کی میراث کی مقدار اسی واسطے سے ہوتی ہے یعنی مادری بہن بھائی ماں کے حصّے کے حساب سے لیتے ہیں جو کہ ایک تہائی ہے اور پدری یا مادری پدری بہن بھائی باپ کی میراث والا حصہ لیتے ہیں جو کہ دوتہائی ہے ۔ آیت ۱۲چو نکہ بہن بھایئوں کی میراث کے متعلق ایک تہائی حصے کے بارے میں ہے اس لیے یہ ان کے بارے میں ہے جو صرف ماں کی طرف سے متوفی کے ساتھ مربوط ہیں جبکہ زیر بحث آیت دو تہا ئی حصے کے بارے میں ہے لیکن یہ ان بہن بھایئوں سے متعلق ہے جو ماں باپ دونوں سے مربوط ہیں ۔ علاوہ ازیں آئمہ اہل بیت سے مروی روایات جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں بہرحال اب اگر ایک تہائی یا دوتہائی میراث بھائی یا بہن سے متعلق ہے باقی ماندہ مال قانون ِ اسلام کے مطابق دیگر ورثہ میں تقسیم ہو گا اب جبکہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان دونوں آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہم ان احکام کی تفسیر شروع کرتے ہیں جو اس آیت میں آئے ہیں ۔
تو جہ ہے کہ یہ آیت کلا لہ (بہن بھائی ) کے بارے میں سوال کے جواب کے طور پر نازل اہوئی ہے ۔ 1
اسی لیے فرمایا گیا ہے : تم سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ خدا کلالہ (بھائی بہن ) کے بارے میں تمھارے لیے حکم بیان کرتا ہے

(یستفتو نک قل اللہ یفتیکم فی الکلالة)اس کے بعد چند احکام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
بہن بھائی کی میراث کے چند احکام
۱۔ جب کوئی مرد دنیا سے چلا جائے ، اس کی کوئی اولاد نہ ہو فقط ایک بہن ہو تو اس کی آدھی میراث اس ایک بہن کو ملے گی

 (ان امرؤ اھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماتر ک
۲۔ اگر کوئی عورت مرجائے ،اس کی اولاد نہ ہو اس کا بس ایک بھائی ہو ( جو پدری ہو یا مادری پد ری ہو ) تو اس کی ساری میراث اس کے اس اکیلے بھائی کو ملے گی (وھو یرثھا ان الم یکن لھا ولد ) ۔
۳۔ اگر کوئی شخص دنیا سے چلا جا ئے اور دو بہنیں پیچھے چھوڑجائے تو وہ اس کی دوتہائی میراث لیں گی (فان کا نتا اثنیتن فلھا الثثان مما تر ک
۴۔ اگر مرنے والے شخص کی چند بہنیں اور چند بھائی ہوں (جو دو سے زیادہ ہوں ) تو وہ اس کی تمام میراث آپس میں تقسیم کرینگے اس طرح سے کہ ہر بھائی کا حصہ ایک بہن سے دوگنا ہوگا (وان کانو ا اخوا ة رجا لا ونساء فللذکر مثل حظ الا نثیین
آیت کے آخرمیں فرماتا ہے : خدا یہ حقائق تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجا ؤ اور سعا دت کی راہ پالو اور (یقینا) جس راستے کی خدا نشاندہی کرتا ہے وہی صیحح اور حقیقی راستہ ہے (کیو نکہ ) وہ ہر چیز سے دانا ہے (یبین اللہ لکم ان تضلوا واللہ بکل شئی علیم)۔2
یہ بات بنا کہے نہ رہ جائے کہ زیر نظر آیت میں بہن بھایئوں کی میراث اس صورت میں بیان کی گئی ہے جبکہ اولاد نہ ہو اور ماں باپ کے ہونے یا نہ ہونے کے متعلق اس میں کوئی بات نہیں آئی ۔ لیکن اس سورہ کی ابتدائی آیات کے مطابق ماںباپ ہمیشہ اولاد کے یعنی میراث کے پہلے طبقے کے ہم پلہ قرار پا تے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت اس مقام کے لیے ہے جب نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ۔
 


1۔کلالة کے لغوی معنی کیا ہیں اور یہ کہ بہن بھایئوں کو کلالة کیوں کہتے ہیں -اس کے بارے میں سورہ نساء آیت ۱۲ کے ذیل میںتفصیلی بحث کی جا چکی ہے ( ۲۱۷ اردو ترجمہ جلد ۳)
2”ان تضلوا “ یہا ں “ ان لا تضلوا“ کے معنی میں ہے یعنی لفظ ”لا “ مقدّر ہے ۔ ایسی تعبیرات قرآن میں اور عربی زبان میں بہت ملتی ہیں ۔
 
نو رِ مبین سورةُ المَائدة
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma