شانِ نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہےایک سوال اور اس کا جواب

بعض مفسرین نے اس پہلی آیت کی شان ِ نزول میں ابن عباس سے نقل کیا ہے :
یہودیوں کے بڑوں کی ایک جما عت نے آپس میں سازش کی او رکہا کہ محمد کے پاس جاتے ہیں ۔ شاید اسے ہم اس کے دین سے منحرف کردیں ۔ یہ طے کرکے وہ پیغمبر اسلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم یہودیوں کے علماء اور اشراف ہیں ، اگر ہم آپ کی پیروی کرلیں تو مسلم ہے کہ باقی یہودی ہماری اقتداء کریں گے لیکن ہمارے اور ایک گروہ کے درمیان ایک نزاع ہے ( ایک شخص کے قتل یا کسی اور بات کے بارے میں ) اگر اس جھگڑے میں آپ ہمارے فائدے میں فیصلہ کردیں تو ہم آپ پر ایمنا لے آئیں گے ۔
اس پرپیغمبر اسلام نے ایسے ( غیر عادلانہ ) فیصلے سے منہ موڑ لیا ۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی ۔ ( تفسیر المنار ۔ج۶ ص ۴۲۱۔) ۔

تفسیر

اس آیت میں خدا تعالیٰ دوبارہ اپنے پیغمبرکو تاکید کرتا ہے کہ اہل کتاب کے درمیان حکم ِ خدا کے مطابق فیصلہ کریں ، اور ان کی ہوا وہوس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں۔ (وَاٴَنْ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَھْوَائَھُمْ ) ۔
اس حکم کی تکراریا تو ان مطالب کی وجہ سے ہے جو آیت کے ذیل میں آئے ہیں یا اس بناپر کہ اس فیصلے کا موضوع گذشتہ آیات کے فیصلے کے موضوع سے مختلف ہے ۔ گذشتہ آیات میں موضوع زنا ئے محصنہ اور یہاں موضوع قتل یا کوئی اور جھگڑا تھا ۔
اس کے بعد پیغمبر کو متوجہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے سازش کی ہے کہ تمھیں آئیں حق و عدالت سے روگرداں کردیں تم ہوشیار اور آگاہ رہو(وَاحْذَرھُمْ اٴَنْ یَفْتِنُوکَ عَنْ بَعْضِ مَا اٴَنزَلَ اللهُ إِلَیْکَ) ۔
اور اگر اہل کتاب تمہارے عادلانہ فیصلے کے سامنے سر نہیں جھکاتے تو جان لو کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے گناہوں نے ان کا دامن پکڑ رکھا ہے اور اس سے توفیق سلب ہو چکی ہے اور خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے انھیں سزا دے( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اٴَنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُصِیبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِھِمْ) ۔
تمام گناہوں کی بجائے بعض گناہوں کا ذکر ممکن ہے اس بنا پر ہو کہ تمام گناہوں کی سزا اس دنیا میں انجام نہیں پاتی صرف کچھ سزا انسان کو ملتی ہے اور باقی معاملہ دوسرے جہان کے سپرد ہوجاتا ہے۔
انھیں کون سی سزا دامن گیر ہوئی ، اس کی آیت میں کوئی صراحت نہیں ہے لیکن احتمال ہے کہ اسی انجام کی طرف اشارہ ہے ، جس سے مدینہ میں یہودی دو چار ہوئے ۔ وہ اپنی پے در پے خیانتوں کے باعث اپنا گھربار چھوڑ کر مدینہ سے باہر چلے جانے پرمجبورہوئے یایہ کہ سلبِ توفیق ان کے لئے ایک سزا شمار ہوئی ہو۔ دوسرے لفظوں میں پیہم گناہ اور ہٹ دھرمی کی سزا عادلانہ احکام سے محرومی اور بے راہ و سرگردان زندگی کی صورت میں انھیں ملی ہو۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اگر یہ لوگ راہ ِ باطل میں ڈٹے ہو ئے ہیں تو تم پرشان نہ ہونا کیونکہ بہت سے لوگ فاسق ہیں ( وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ) ۔

 

قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہےایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma