چور کی سزا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرچند اہم نکات

قبل از ایں چند آیات میں ” محارب “ یعنی ڈرادھمکا کر علی الاعلان مسلح ہو کر لوگوں کی جان و مال او رناموس کے خلاف حملہ کرنے والے شخص کے بارے میں احکام بیان ہوئے ہیں ۔ اسی مناسبت کی بنا پر ان آیات میں چور کہ جو مخفی طور پر لوگوں کا مال لے جاتا ہے ، کے بارے میں حکم بیان ہوا ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : چورمرد اور عورت کا ہاتھ کاٹ دو (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا اٴَیْدِیَہُمَا ) ۔
یہاں چور مرد کو چور عورت پر مقدم رکھا گیا ہے چونکہ چوری کے سلسلے میں اصلی عامل زیادہ تر مرد ہوتے ہیں لیکن ارتکاب ِ زنا کے موقع پر زیادہ اہم عامل اور محرک بے لگام عورتین ہوتی ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : یہ سزا ان کے اعمال پر ہے جو انھوں نے انجام دئیے ہیں اوریہ خداکی طرف سے عذاب ہے (جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِنْ اللهِ ) ۔
اس جملہ میں در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ اول تویہ سزا ان کے اکام کا نتیجہ ہے اور ایسی چیز ہے جو انھوں نے خود اپنے لئے خرید ی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ایک طرح سے پیش بندی اور حق و عدالت کی طرف باز گشت سے کیونکر ” نکال “کا معنی ہے ایسی سزا جو پیش بندی کے لئے ترک گناہ کے مقصد کے لئے ہو۔ در اصل اس لفظ کا معنی ہے ” لگام “ بعدازاں ہر ا سکام کے لئے استعمال ہو نے لگا جو انحراف اور کج روی سے روکے ۔
آیت کے آخر میں اس لئے منادہ یہ وہم ہو کہ مذکورہ سزا عادلانہ نہیں ، فرمایا گیا ہے : خدا قادر و توانا ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی سے انتقام لے اور حکیم بھی ہے اس لئے وہ کسی کو بلا وجہ نہیں دے(وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) ۔
بعد والی آیت میں ان کے لئے لوٹ آنے کا راستہ کھولتے ہوئے فرماتا ہے : اس ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اصلاح و تلافی کو راہ اپنائے خدا اسے بخش دے گا کیونکہ وہ بخشنے والا مہر بان ہے ( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَاٴَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَیْہِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔
کیا توبہ کرنے سے صرف اس کا گناہ بخشا جائے گا یا چوری کی سزا ( ہاتھ کاٹنا) بھی ساقط ہو جائے گی ۔ اس سلسلے میں ہمارے فقہاء میں یہی مشہور ہے کہ اگر وہ اسلامی عدالت میں چوری ثابت ہوجانے سے پہلے کرلے تو چوری کی حد بھی بر طرف ہ وجائے گی لیکن جب دو عادل گواہوں کے ذریعے اس کا جرم ثابت ہوجائے تو پھر تو بہ سے حد ساقط نہیں ہو گی ۔
در اصل حقیقی توبہ جس کی طرف آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ ہے جو عدالت میں ثبوت جرم سے پہلے انجام پائے ورنہ تو ہر چیز چور جب اپنے آپ کو سزا کے سامنے پائے گا اظہار توبہ کرے گا اور اس طرح تو کسی پر سزا جاری ہی نہ ہوگی ۔ دوسرے لفظوں میں ” اخباری توبہ “وہ ہے جو شرعی عدالت میں جرم ثابت ہونے سے پہلے انجا م پائے ورنہ ” اضطراری توبہ “ ہو گی اور اضطراری توبہ تو ایسی ہے جسے عذاب الہٰی یا آثار موت دیکھ کر کی جائے اور ایسی توبہ کی کوئی قیمت نہیں ۔
چوروں کے بارے میں توبہ کا حکم بیان کرنے کے بعد روئے سخن اسلام کے عظیم پیغمبر کی طرف کیا گیا ہے ، فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ا ور جس طرح مناسب سمجھتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے ، جس شخص کو سزا کا مستحق سمجھتا ہے سزا دیتاہے اور جسے بخشش کے لائق سمجھتا ہے بخش دیتاہے اور وہ ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے ( اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) ۔

 

تفسیرچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma