یہودیوں کی کچھ اور کار ستانیاں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
یہودیوں کی بہانہ سازی تفسیر

ان آیات میں بنی اسرا ئیل کی کچھ اور کارستانیو ں ، قانو ن شکنیوں ، عداوتوں اور انبیا ءِ الہٰی سے دشمنیوں کاذکر کیا گیا ہے ۔پہلی آیت میں ان میں سے ایک گروہ کی پیمان شکنی ، کفر اور قتل انبیا ء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرفایا گیا ہے :ہم نے انھیں پیمان شکنی کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور کردیا یا اپنی بعض پاکیزہ نعمتوں کو ان پر حرام قرار دے دیا (فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیثَاقَہُم-)  ۱
اس عہد شکنی کے بعد انھوں نے آیات الہی کا انکار کیا اور مخالفت کا راستہ اختیار کیا (وکفرھم بایات اللہ )اور انھوں نے اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ ایک اور بڑے جرم کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہ یہ کہ راہ حق کے ہادیوں یعنی انبیاء کو بلا جواز قتل کیا (و قتلھم الاانبیا ء بغیر حق
وہ خلاف حق اعمال میں اس قدر جسارت مند اور بے باک تھے کہ انبیا ء کی گفتگو کا مذاق اڑاتے تھے اور انھیں صراحت سے کہتے تھے : ہمارے دلوں پر تو پردہ ڈال دیا گیاہے جو تمہا ری دعوت کو سننے اور اسے قبول کرنے میں حائل ہے (و قو لھم قلو بنا غلف )۔یہاں قرآن مجید مزید کہتا ہے : جی ہا ں !ان کے دلوں پر واقعی مہر لگادی گئی ہے ، اب کو ئی حق بات ان میں جاگزیں نہیں ہو سکتی لیکن اس کا عامل ان کا اپنا کفر اور بے ایمانی ہے اس لیے تھوڑے سے افراد جو ایسی ہٹ دھرمیوں میں نہیں پڑے وہی ایمان لائیں گے با قی نہیں (بل طبع اللہ علیھا بکفر ھم فلا یو منون الا قلیلا
ان کی قانون شکیناں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں وہ کفر کی راہ میں اتنے تیز دو ڑتے ہیں کہ انھوں نے مریم جیسی پاک دامن خاتون اور خداکے ایک عظیم پیغمبر کی والدہ جو حکم خدا سے بغیر شوہر کے حاملہ ہوگئی تھی ، پر بہت بڑی تہمت لگائی (وبکفر ھم و قلو لھم علی مریم بھتانا عظیما )۔ یہا ں تک وہ قتل انبیا ء پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے ہم نے مریم عیسی بن مریم اللہ کے رسو ل کو قتل کردیا (وقلولھم انا قتلنا المسیح عیسی بن مریم رسو ل اللہ )۔شاید مسیح کو رسول اللہ تمسخر اور استہزاء کے طور پر کہتے تھے ۔وہ قتل عیسی کے بارے میں اپنے دعوے میں جھوٹے تھے انھوں نے ہر گز مسیح کو قتل نہیں کیا اور نہ سولی پر لٹکایا ، بلکہ ایک اور شخص کو جو ان سے مشا بہت رکھتا تھا اشتباہ میں سولی پر لٹکادیا (وماقتلو ہ وماصلبو ہ الکن شبہ لھم
اس کے بعد قرآن کہتا ہے : مسیح کےء بارے میں اختلاف کرنے والے خود شک میں تھے اور اپنی کہی بات پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ صرف تخمینے اور انداز ے کی پیروی کرتے (وان الذین اختلفم فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الااتباع الظن )۔اس بارے میں انھوں نے کس بات میں اختلاف کیا مفسرین میں اختلاف ہے بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ انھوں نے اختلاف حضرت مسیح کی اصل حیثیت اور مقام کے بارے میں کیا تھا ایک گروہ جناب مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا تھا اور بعض یہودیوں کی طرح انھیں پیغمبرہی نہیں سمجھتے تھے اور یہ سب کے سب اشتباہ میں تھے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے قتل کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہو بعض کہتے ہیں کہ وہ قتل ہو گئے ہیں اور بعض کہتے کہ وہ قتل نہیں ہوئے اور ان میں سے کوئی بھی اپنی بات پر مطمئن نہیں تھا ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسی کے قتل کے مدعی انھیں نہ پہچاننے کی وجہ سے شک میں ہوں اور وہ یہ ہے کہ جسے انھوں نے قتل کیا تھا وہ مسیح ہی تھے یاان کی جگہ کوئی اور شخص تھا ۔
اس پر قرآن تاکید ا کہتا ہے انھوں نے قطعا اسے قتل نہیں کیا بلکہ خدا اسے اپنی طرف اٹھالے گیا اور خداقادر و حکیم ہے (وما قتلو ہ یقینا بل رفعہ اللہ وکان الیہ وکان للہ عزیزا حکیما
مسیح قتل نہیں ہو ئے
زیر نظر آیت میں قرآن کہتا ہے : مسیح قتل نہیں ہے اور نہ سولی پر چڑھے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھیں سو لی پر لٹکادیا ہے حالانکہ یقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا ۔
مو جو دہ چاروں اناجیل (متی ، لوقا ،مرقس اور یوحنا)میں حضرت مسیح کو سو لی پر لٹکائے جانے اور ان کے قتل کا ذکر ہے ۔یہ بات چاروں انجیلوں کے آخری حصوں میں تشریح و تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔ آج کے عام مسیحیوں کا بھی یہی عقیدا ہے بلکہ ایک لحاظ سے تو قتل مسیح اور انھیں مصلوب کیاجانا موجودہ مسیحیت کے اہم ترین بنیادی مسائل میں سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ عیسائی حضرت مسیح کو ایسا پیغمبر نہیں مانتے جو مخلوق کی ہدایت ،تربیت اور ارشاد کے لیے آیا ہو بلکہ وہ انھیں خدا کا بیٹااور تین خداؤں میں سے ایک کہتے ہیں جس کا اس دنیا میں آنے کا اصلی ہدف ہی خداہونا ہے اور اپنی قربانی کے عوض نوع بشر کے گناہو ں کاسوداکرنا ہے ۔ عیسا ئی کہتے ہیں کہ وہ ااس لیے آئے تاکہ ہمارے گناہوں کا فدیہ بن جائیں وہ سولی چڑھے اور قتل ہوئے تاکہ نوع بشر کے گناہوں کو دھوڈالیں اور عالمین کو سزا سے نجات دلائیں ۔اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ راہ نجات مسیح سے رشتہ جوڑنے اور ان کے مصلوب ہونے کاعقیدہ رکھنے میں منحصر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مسیحیت کو” مذہب ِ نجات “ یا ” مذہب خدا“ کہتے ہیں اور مسیح کو ” ناجی“ یا ”فادی“ کہتے ہیں یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی صلیب کا نشان بہت ذیادہ استعمال کرتے ہیں ، اور صلیب ان کا شعار ہے اسی کی وجہ ان کا یہی عقیدہ ہے ۔
یہ تھا حضرت مسیح کی سر نوشت کے بارے میں عیسائیوں کے عقیدے کا خلاصہ ، لیکن کوئی مسلمان بھی اس میں شک نہیں رکھتا کہ یہ عقیدہ باطل ہے اس کی وجوہات یہ ہیں ۔
۱۔حضرت مسیح دیگر انبیا کی طرح ایک پیغمبر تھے نہ وہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے ۔ خدا یکتا و یگانہ ہے اس کا کوئی شبیہ ونظیر مثل و مانند اور بیوی بیٹا نہیں ہے ۔
۲۔گناہوں کا فدیہ بننا بالکل غیر منطقی بات ہے ہر شخص اپنے اعمال کا جوابدہ اور راہ نجات خود انسان کااپنا ایمان اور عمل صالح ہے ۔
۳۔گناہوگار کے فدیہ کا عقیدہ فساد تباہی اور آلودگی کی ترغیب و تشو یق کرتا ہے یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآ ن خصوصیت سے مسیح کے مصلوب نہ ہونے کاذکر کرتا ہے حالانکہ ظاہراً ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فد یے اور امت کے گناہ خریدنے کے بے ہودہ اور فضول عقیدے کی سختی سے سر کوبی کی جائے اور عیسائیو ں کو اس خرافاتی عقیدے سے نکالا جائے تاکہ وہ نجات کے لیے اپنے اعمال کو دورست کریں نہ کہ عقیدئہ صلیب کا سہارا لیں ۔
۴۔بہت سے قرآ ئن ایسے موجود ہیں جو حضرت عیسی کو صلیب دئیے جانے کے عقیدے کی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں ،مثلاً :۔
ا۔ہم جانتے ہیں کہ موجودہ چاروں انجیل جو حضرت عیسی کے مصلوب ہونے کا ذکر کرتی ہیں سب کی سب حضرت عیسی کے بعد ان کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں کے ذریعے لکھی گئی ہیں اور اس بات کا مسیحی مورخ بھی اعتراف کرتے ہیں ۔
نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جناب مسیح کے شاگرد دشمنو ں کے حملے کے وقت بھاگ گئے تھے اور اناجیل بھی اس بات کی گواہ ہیں ۱”اس وقت تمام شاگرد انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے “ انجیل متی باب ۲۶جملہ ۵۷)لہٰذا انھوں نے مسیح کے مصلوب ہونے کے بارے میں عوام میں گردش کرتی ہوئی افواہ یا شہرت سنی اور وہیں سے یہ بات حاصل کی اور جیسا کہ بعد میں بیان کیا جائے گا کہ حالات ایسے پیش آئے کہ مسیح کی جگہ دوسرا شخص اشتباہ میں پکڑلیا گیا
ب۔دوسرا عامل جو یہ امکان ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عیسی کی بجائے اشتباہ میں دوسرا شخص پکڑا گیا ہویہ ہے کہ شہر کے باہر جستیمانی باغ میں جو لوگ جناب عیسی کو گرفتار کرنے کے لیے گئے وہ رومی لشکر کا ایک دستہ تھا یہ لوگ چھاؤنی میں اپنی فوجی ذمہ دایوں میں مشغول تھے یہ لوگ نہ یہودیوں کو پہچانتے تھے نہ وہاں کی زبان اور آداب ورسوم جانتے تھے اور نہ ہی یہ لوگ حضرت عیسی کو ان کے شاگرد وں میں سے پہچان سکتے تھے ۔
ج۔اناجیل کے مطابق حملہ رات کے قت حضرت عیسی کی رہائش گا ہ پر ہو ا اس صورت میں تو اور بھی آسان ہے کہ تاریکی میں اصل انسان نکل جائے اور کوئی دوسرا اس کی بجائے گرفتار ہوجائے ۔
د۔تمام انجیلوں کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ گرفتار شدہ شخص نے دی حاکم پیلاطس کے سامنے خاموشی اختیار کی اوراس کی گفتگو کے جواب میں اپنے دفاع کے لیے بہت کم ہی کچھ کہا ۔یہ بات بہت بعید ہے کہ حضرت عیسی اپنے آپ کو خطرے میں دیکھیں اور اپنے بیان ِ رسا  قوت گویائی اور شجاعت و شہامت کے باوجود اپنا دفاع نہ کریں ۔
تو کیا اس سے یہ احتمال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص ان کی جگہ پکڑا گیا ہو اور وحشت و اضطراب کا ایسا شکار ہوا ہوکہ اپنے دفاع میں کچھ کہہ بھی نہ سکا ہو ۔ قوی احتمال یہ ہے کہ وہ اسخر یوطی یہودی اس واقعے کے بعد دیکھا نہیں گیا اور اناجیل ہی کے مطابق اس نے خودکشی کرلی تھی 2
ر۔جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کے شاگرد انا جیل کی شہادت کے مطابق خطرہ محسوس کرتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے دوست احباب بھی اس دن چھپ گئے ہوں گے اور دور سے حالات پر نظر رکھے ہوں گے ۔لہٰذا گرفتار شدہ شخص رومی فوجیوں کے محاصرے میں تھا اور اس کے دوستوں میں سے کوئی اس کے گرد موجود نہیں تھا ۔اس لیے کون سے تعجب کی بات ہے کہ اشتباہ ہوگیا ہو۔
س۔ اناجیل میں ہے کہ جس شخص کو تختہ دار پر لٹکانے کا حکم دیا گیا اس نے تختہ دار پر خدا سے شکایت کی ۔تونے مجھے کیوں تنہا چھوڑ دیا اور کیوں مجھے قتل ہونے کے لیے دشمن کے ہاتھ میں دے دیا 3
لہٰذا اگر حضرت مسیح دنیا میں اس لیے آئے تھے کہ وہ سولی پر لٹکائے جائیں اور نوع ِ انسانی کے گناہوں کا فدیہ ہوجائیں تو پھر ایسی ناروا باتیں انھیں نہیں کرانا چاہیے تھیں ۔ یہ جملہ واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ وہ شخص نہایت کمزور ، ڈرپوک اور عاجز و ناتواں تھا اسی لیے ایسی باتیں کرہا تھا اور نہ مسیح ہوتے ایسی باتیں ہرگز نہ کرتے ۔4
س۔ مسیحوں کے نزدیک قابل ِ قبول چار انجیلوں کے علاوہ موجود ہ بعض اناجیل مثلاً انجیل بر نا با میں واضح طور پر حضرت عیسی کے مصلوب ہونے کی نفی کی گئی ہے 5
یہا ں تک کہ بعض محققین کا یہ نظریہ ہے کہ عیسی نام کے دو شخص تھے ایک عیسی کو سولی دی گئی تھی اور دوسرے کو نہیں دی گئی تھی اور دوسرے کو نہیں دی گئی تھی اور دونوں میں پانچ سو سال کا فاصلہ تھا ۔6
جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے ، یہ قرائن مجوعی طور پر حضرت مسیح کے قتل اور صلیب دیئے جانے کے بارے میں قرآن کے دعوی اشتبا ہ کو واضح کرتے ہیں ۔

 

۱۵۹۔ وَإِنْ مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا ۔
ترجمہ
۱۵۹۔کوئی اہل کتاب ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا ۔

 


۱”فبما نقضھم “ قواعد ادب کے اعتبار سے جار مجرور ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس کا کوئی عامل ہو ممکن ہے اس کا عامل ”لعناھم“(ہم نے ان پر نعمت کی )محذوف مقدر ہے یا ”حرمنا علیھم -“( ہم نے ان پر حرام کردیا)ہو جوآیة ۱۶۰میںہے اس بنا پر جو کچھ درمیانی کلام میں آیا ہے وہ جملئہ معتر ضہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ایسے مواقع پر کلام کی خوبی اور زیبائی کاباعث ہوتا ہے
2۔انجیل متی باب ۲۷جملہ ۶۔
3 ”-عیسی نے بلند آواز سے پکار کرکہا - ایلی ؛ ایلی ؛ لما سبقتنی یعنی -الہی؛ الہی ؛ تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا (متی باب ۲۷ ،جملہ ۴۶۔ ۴۷)
4۔مند رجہ بالا چند قرآئن کے لیے کتاب ” قہرمان صلیب “ سے استفادہ کیاگیا ہے ۔
5۔تفسیر المنا ر ج ۶ صفحہ ۳۴۔
6۔المیزان ج ۳صفحہ ۲۴۵۔
 
یہودیوں کی بہانہ سازی تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma