اسلام اور ہجرت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم نماز ِ مُسافر

اس آیت اور قرآن کی بہت سی دوسری آیات کے مطابق اسلام صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ انسان اگر کسی ماحول میں کچھ عوامل و اسباب کی بناپر ذمہ داری نبھا نہ سکے تو دوسرے ماحول او رمقام امن کی طرف ہجرت کرے کیونکہ جہاں ہستی کے باوجود
نتواں مرد بہ ذلت کہ درینجا زادم
( یعنی اس وجہ سے ذلت کے ساتھ کسی جگہ نہیں مرنا چاہےئے کہ یہ میری جائے پیدا ئش ہے )
اور اس حکم کی علت او رسبب واضح ہے کیونکہ انسان کسی خاص مقام کا پابند نہیں ہے وہ کسی معین مقام او رماحول سے وابستہ اور اس میں محدود نہیں ہے اس طرح انسان کا اپنی جائے پیدائش او راس کے ماحول او رعلاقے سے انتہائی لگاوٴ اسلام کے نقطہٴ نظر سے مسلمانوں کی ہجرت سے مانع نہیں ہوسکتے یہی وجہ ہے کہ صدر اسلام میں یہ تمام وابستگیاں اسلام کی حفاظت اور ترقی کے لئے منقطع کر ہی گئیں ایک مغربی موٴرخ کے بقول
قبیلہ او رخاندان و ہ اکیلا درخت سے جو صحرامیں اگتا ہے اور کوئی شخص اس کی پناہ اور سائے کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ہجرت کے ذریعے اس درخت کو جس نے ان کے خاندان کے لئے گوشت او رلہو سے پرورش پائی تھی اپنے پروردگار کے لئے کاٹ دیا

 ( اور قریش سے اپنا رابطہ ختم کردیا ) ۔ ( محمد خاتم پیامبران جلد اوّل ) ۔
علاوہ ازیں تمام زندہ موجودات میں یہ بات مشترک ہے کہ جب وہ اپنے وجود کو خطرے میں دیکھتے ہیں تو ہجرت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اس سے پہلے سے لوگوں نے کسی علاقے کے گرافیائی حالات کے متغیر ہونے کے بعد اپنی زندگی کی بقا کے لیے اپنے وطن اور جائے پیدائش سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کیا ہے نہ صرف انسان بلکہ جانداروں میں بہت سی ایسی انواع ہیں جو مہاجر کے طور پر پہچانی گئی ہیں ۔ مثلاًبعض ہجرت کرنے والے پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی بقا کے لئے بعض اوقات پورے کرہٴ ارض کی سیر کرتے ہیں اور ان میں سے بعض تو قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا سفر طے کرتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کی بقا کے لئے تقریباً ۱۸ہزار کلو میٹر تک پرواز کرتے ہیں اور یہ چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ ہجرت حیات و زیست کو رواں دواں رکھنے کے قوانین میں سے ہے تو کیا ممکن ہے کہ انسان ایک پرندے سے بھی کم تر ہے ؟ یا یہ ہوسکتا ہے کہ جب مقدس مقاصد و اہداف اور حیات معنوی جن کی قدر و قیمت مادی زندگی سے کہیں زیادہ ہے ، خطرے میں پڑجائیں تو انسان اس عذر کی بناپر کہ یہ میری جائے پیدا ئش ہے اپنے اہداف و مقاصد کو چھوڑ دے اپنے آپ کو طرح طرح کی ذلت و خواری ، محرومی اور غلامی کے سپرد کر دے ، یا یہ کہ وہ اس عمومی قانون حیات کے مطابق اس علاقے سے ہجرت کرجانے او رکسی ایسی جگہ منتقل ہو جائے جو اس کی مادی و روحانی نشو ونما اور رشد کے لئے مناسب ہو ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ وہ ہجرت جو اپنی حفاظت کی بجائے دین اسلام کے تحفظ کے لئے ہوئی مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداہے اور یہ ہجرت ہمارے تمام سیاسی ،تبلیغی اور معاشرتی معاملات کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہے باقی رہا یہ سوال کہ ہجرت ِ پیغمبر اکرم کا سال اسلام کی تاریخ کے ابتداکے طور پر کیوں منتخب ہوا ہے ۔
تو یہ بات بھی قابل توجہ ہے ہم جانتے ہیں کہ ہر قوم و ملت کی اپنی ایک تاریخی ابتداہوتی ہے ، عیسائیوں نے اپنی تاریخ کی ابتدا حضرت مسیح (علیه السلام)کے سال پیدائش سے شمار کی ہے اسلام میں باوجودیکہ بہت سے اہم واقعات تھے ۔ مثلاً ولادت پیغمبر اسلام ، آپ کی بعثت ، فتح مکہ اور رحلت پیغمبراکرم ، پھر بھی ان میں سے کوئی واقعہ منتخب نہیں ہوااور صرف ہجرتِ رسولِ خدا تاریخ کی ابتدا کا عنوان ٹھہری ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفہ دوم کے وقت جب اسلام طبعی طورپر وسعت حاصل کر چکا تھا مسلمانوں کو ایسی ابتدا ئے تاریخ کے تعین کی فکر لاحق ہوئی جو عمومی لحاظ سے سب کے لئے یکسان ہو ۔ بہت ردد قد کے بعد حضرت علی (علیه السلام) کے نظریہ کو قبول کرلیا گیا، حضرت علی (علیه السلام) نے ابتدائے تاریخ کے لئے ہجرت کا انتخاب کیا۔۱
حقیقت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا کیونکہ ہجرت وہ روشن قدم تھا جسے اسلام میں عملی جامہ پہنایا گیا اور جو تاریخ اسلام کی فصلِ نوکا آغاز بنا مسلمان جب تک مکہ میںتھے اپنی تعلیم و تربیت کےابتدائی دور سے گذرہے تھے ظاہراً وہاں وہ کسی قسم کی اجتماعی اور سیا سی طاقت نہ تھے لیکن ہجرت کے فوراً بعد اسلامی حکومت کی تشکیل ہوئی اور بڑی تیزی کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ترقی ہوئی اور اگر مسلمان فرمان رسالت کے مطابق اس طرح ہجرت نہ کرتے تونہ صرف یہ کہ اسلام مکہ کے دائرے سے باہر نہ نکلنا بلکہ ممکن تھا کہ وہیں خاموش اور دفن ہو جاتا۔
واضح ہے کہ ہجرت کوئی ایسا حکم نہیں کہ جو زبان ِ پیغمبر اکرم کے ساتھ مخصوص ہو بلکہ ہر عہد اور زمانہ میںکسی جگہ بھی ایسے حالات ہوں تو مسلمانوں کی ذمہ داری فریضہ ہے کہ وہ ہجرت کریں ۔
بنیادی طور پر قرآن ہجرت کو آزادی اور سکون کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ جیسا کہ زیر بحث آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے ۔ سورہ نحل آیة ۴۱ میں بھی یہ حقیقت ایک اور طریقے سے بیان ہوئی ہے :
و الذین ھاجروا فی اللہ من بعد ماظلموا النبو ئنھم فی الدنیا حسنة
اور وہ لوگ جن پر ظلم کئے گئے اور اس کے بعد انھوں نے راہِ خدا میں ہجرت اختیار کی وہ دنیا میں پاکیزہ مقام حاصل کریں گے ۔
اس نکتہ کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ ہجرت اسلام کی نگاہ میں صرف مکانی اور خارجی ہجرت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس ہجرت سے پہلے اندر اور باطن سے ہجرت کا آغاز ہو اور اس ہجرت سے مراد ہجرت اور دوری ہے ان چیزوں سے کہ جو انسان کی اصالت ، اس کے مرتبے اور اعزاز سے ٹکراتی ہوں یہ ہجرت اس لئے ہے کہ تاکہ اس کے زیر اثر انسان خارجی اور مکانی ہجرت کے لئے آمادہ ہوسکے اور یہ ہجرت ضروری ہے تاکہ اگر ہجرت مکانی کی ضرورت پڑے تو اس باطنی ہجرت کے زیر اثر انسان راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو سکے اصولی طور پر روحِ ہجرت وہی ظلمت سے نور، کفر سے ایمان اور گناہ و نافرمانی سے اطاعتِ خدا وندی کے لئے دیوانہ وار نکل پڑنا ہے اسی لئے ہم احادیث میں پڑھتے ہیں کہ وہ مہاجرین جنھوں نے جسمانی طور پر ہجرت کی مگر روحانی ہجرت نہیں کی وہ مہاجرین کی صفوں میں شمار نہیں ہوتے اس کے مقابلے میں وہ لو گ جنھیں مکانی ہجرت کی ضرورت نہیں تھیں لیکن وہ باطنی طور پر ہجرت میں شامل تھے وہ مہاجرین کے زمرے میں داخل ہوگئے ۔ امیر المومنین حضرت علی (علیه السلام) فرماتے ہیں :۔
ویقول الرجل ھاجرت، لہ یھاجر، انما المھاجرون الذین یھجرون السیئات و لم یاٴتو ابھا
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت کی ہے حالانکہ حقیقت میں انھوں نے ہجرت نہیں حقیقی ہجرت کرنے والے وہ ہیں جو گناہوں سے ہجرت اختیار کرتے ہیں اور ان کے مرتکب نہیں ہوتے ۔( سفینة البحار ( ہجر)
پیغمبراکرم نے فرمایا:
من من قو بدینہ من ارض الیٰ الارض و ان کان شبراً من الارض استوجب الجنة و کان رفیق محمد و ابراھیم علیھم السلام
جو شخص اپنے دین کی حفاظت کے لئے ایک سر زمین سے دوسری سر زمین کی طرف ایک بالشت برابر ہجرت کرے تو وہ جنت کا مستحق ہوجاتا ہے اور محمد و ابراہیم علیہہم السلام کیک رفاقت اور جانشینی اسے نصیب ہو گی( کیونکہ یہ دونوں عظیم پیغمبر عالمِ ہستی میں ہجرت کرنیوالوں کے پیشوا اور رہنما تھے )(نو ر الثقلین ،جلد اول صفحہ ۵۴۱) ۔

۱۰۱۔وَ إِذا ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناحٌ اٴَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ اٴَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکافِرینَ کانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبیناً ۔
ترجمہ

۱۰۱۔ اور جس وقت سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیںکہ نماز میں قصر کرو، اگر تمہیں کافروں کے فتنے کا ڈر ہو ، کیونکہ کافر تمہارے واضح دشمن ہیں ۔
تفسیر

 


۱۔تاریخ طبری جلد دوم ص۱۱۲۔
 
ہجرت. اسلام کا ایک اصلاحی حکم نماز ِ مُسافر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma