قتل اشتباہ کے احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزاچند اہم نکات

دشمنوں کو منافقین کہہ کر قتل نہ کر دیں یا لاپرواہی سے کسی بے گناہ کا خون نہ بہا دیں ۔ اس آیت میں اور بعد والی آیت میں قتل اشتباہ اور قتل عمد کے احکام بیان ہوئے تاکہ قتل جو اسلام کے نذدیک نہایت سنگین معاملہ ہے اس کے بارے میں تمام لازمی پہلو وٴں کو ملحوظ نظر رکھا جائے ۔
اس آیت کی ابتدا میں کہ جس میں قتل اشتباہ کا ذکر ہے فرماتا ہے : کسی مومن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی صاحب ایمان شخص کو قتل کرے مگر یہ کہ اشتباہ میں ایسا ہو جائے (وَ ما کانَ لِمُؤْمِنٍ اٴَنْ یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَاٴ) ۔ حقیقت میں یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصولی طور پر کوئی مومن یہ نہیں چاہتا کہ اپنے ہاتھ کسی بے گناہ کے خون سے رنگین کرے، کیونکہ حریم ایمان میں تمام افراد ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بدن انسانی کا ایک عضو دوسرے عضو کو سوائے اشتباہ کے کاٹ دے یا اسے کوئی آزار دی جائے ۔ اس سبب سے جو اس قسم کے کام میں مشغول ہیں ان کا ایمان صحیح نہیں ہے اور حقیقت میں وہ ایمان سے بے بہرہ ہیں ۔الاّ خطاٴ ( مگر غلطی سے) کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہ انھیں اجازت ہے کہ شک کی بناپر قتل جیسا عمل کریں کیونکہ شک و شبہ میں انسان دور تک نہیں دیکھ نہیں دیکھ سکتا او رکوئی شخص شک کی حالت میں اپنے اشتباہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ مقصد یہ ہے کہ مومنین شک و شبہ کی حالت کے علاوہ ایسا گناہ کبیرہ نہیں کرسکتے ۔
اس کے بعد قتل اشتباہ کا جر مانہ اور کفارہ تین مراحل میں بیان کیا گیا ہے :۔
پہلی صورت یہ ہے کہ ” بے گناہ شخص جو شک اور شبہ میں قتل ہو گیا ہو، اگر وہ مسلمان خاندان سے تعلق رکھتا ہو تو اس صورت میں قاتل کے لئے دو حکم ہیں ۔ ایک غلام آزاد کرے اور دوسرا یہ کہ مقتول کا خون بہا مقتول کے وارثوں کو ادا کرے ۔ ( وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَاٴً فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَ دِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَہْلِہِ) ۔
مگر یہ کہ مقتول کے وارث دیت کو اپنی رضا اور رغبت سے چھوڑ دیں ( إِلاَّ اٴَنْ یَصَّدَّقُوا ) ۔
دوسری صورت یہ پء کپ مقتول ایسے خاندان سے وابستہ ہو جو مسلمانوں سے دشمنی رکھتا ہو، تو اس صورت میں قتل اشتباہ کا کفارہ صرف غلام آزاد کرنا ہے اور ایسے گروہ کو دیت دینا ضروری نہیں کہ جو مالی طور پر مسلمانوں کے خلاف مضبوط ہو جائے ۔
اس کے علاوہ اسلام ایسے شخص کو اپنے خاندان سے ربط رکھنے سے منع کرتا ہے جس کے خاندان میں سب کے سب اسلام کے دشمن ہوں اس بنا پر یہ نقصان کی تلافی کا مقام نہیں ہے (فَإِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَکُمْ وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ )
تیسری صورت یہ ہے کہ مقتول کا خاندان ایسے کفار میں سے ہو جنھوں نے مسلمانوں سے معاہدہ کر رکھا ہو ۔ اس صورت میں معاہدہ کے احترام میں ایک غلام آزاد کرنے کے علاوہ مسلمان اس کا خون بہا اس کے پس ماندگان کو دیں (وَ إِنْ کانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ میثاقٌ فَدِیَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلی اٴَہْلِہِ وَ تَحْریرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ) ۔
اس بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ کیا مقتول اس صورت میں پہلی دونوں صورتوں کی طرح مرد مومن ہوگا یا یہ حکم کافر اور ذمی کے لئے بھی ہے لیکن بظاہر آیات اور روایات جو اس آیت کی تفسیر میں آئی ہیں ان کے مطابق اس سے مراد بھی ” مقتول مومن “ ہی ہے او رکیا اس قسم کے مسلمان مقتول کی دیت کا فر وارث کو دی جاسکتی ہے جبکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔ آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ دیت اس کے ورثہ کو دی جائے گی چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں یہ مسلمان کے ساتھ ان کے معاہدے کی بنیاد پر ہے ۔ لیکن چونکہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا لہٰذا بعض مفسرین کا یہنظر یہ ہے کہ اوپر والے جملے سے مراد یہ ہے کہ اس کی دیت و خون بہا صرف اس کے مسلمانوں کو دیا جائے نہ کہ کفار وارثوں کو بعض روایات میں بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن (من قوم بینکم و بینھم میثاق)( ایسے گروہ سے جو تمہارے ساتھ معاہدہ کرتے ( غور کیجئے گا ) ۔
آیت کے آخر میں ان لوگوں کے بارے میں میں جو غلام آزاد کرنے کے بارے میں دسترس نہیں رکھتے ( یعنی مالی طور پر استطاعت نہیں رکھتے یا آزاد کرنے کے لئے غلام ملتا ہی نہ ہو موجودہ زمانے کی طرح ۔ فرماتا ہے ایسے افراد کو چاہئیے کہ وہ مسلسل دو ماہ روزے رکھے ( فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیامُ شَہْرَیْنِ مُتَتابِعَیْن)
آخر میں کہتا ہے: یہ غلام آزاد کرنے کی بجائے دو ماہ روزے رکھنے کا حکم ایک قسم کی تخفیف اور خدا کے حضور تو بہ ہے یا یہ کہ جو کچھ قتل اشتباہ کے کفارہ کے طور پر کہا گیا ہے اس سب کو خدا سے توبہ قرار دیا گیا ہے او رخدا ہمیشہ ہر چیز سے باخبر ہے اور اس کے تمام احکام حکمت کے مطابق ہیں

 ( تَوْبَةً مِنَ اللَّہِ وَ کانَ اللَّہُ عَلیماً حَکیما) ۔

 

طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزاچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma