تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
چند اہم نکاتکیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔

گذشتہ آیات میں یہودو نصاریٰ اور ان کی عہد شکنیوں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اب ان آیات میں ان سے بلا واسطہ خطاب کے ذریعے انھیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی ہے جس نے ان کے آسمانی دین کو خرافات سے پاک کیا اور انھیں اس راہِ راست کی ہدایت کی جارہی ہے جو پر قسم کے انحراف اور کجروی سے دور ہے ۔
پہلے فرمایاگیا ہے : اے کتاب ! ہمارا بھیجا ہوا تمہاری طرف آیاہے تاکہ آسمانی کتب کے وہ بہت سے حقائق آشکارکرے جنہیں تم نے چھپا رکھا تھا جب کہ بہت سی ایسی چیزیں جنھیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور جو گذشتہ ادوار سے مربوط ہیں ان سے صرف نظر کرے۔
یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنْ الْکِتَابِ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ۔
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بہت سے حقائق چھپارکھے تھے لیکن پیغمبراسلام نے صرف وہ باتیں بیان کیں جن کی اس وقت لوگوں کو احتیاج تھی ۔ مثلاً حقیقت ِ توحید، انبیاء کی طرف نارواء نسبتیں جو کتب عہدین میں ان کی طرف دی گئی تھیں ، سود اور شراب کی حرمت اور اس طرح کے دیگر امور لیکن ان امور سے صرف نظر کرلیا جن کا تعلق گذشتہ امتوں اور زمانوں سے تھا اور موجودہ اقوام کے لئے ان کے بیان کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔
اس کے بعد قرآن مجیدکی نصیحت و عظمت اور نوع بشرکی ہدایت و تربیت کے لئے اس کے گہرے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ خدا کی جانب سے تمہارے پاس نور اور واضح کتا ب آئی ہے ( قَدْ جَائَکُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ ) ۔ وہ نور آیا ہے کہ جس کے ذریعے خدا ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے جو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے در پے ہیں ( یَہْدِی بِہِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ ) ۔
علاوہ ازیں انھیں طرح طرح کی ظلمتوں یعنی شرک، جہالت، پراکندی اور نفاق جیسی تاریکیوں سے توحید، علم اور اتحاد کے نور کی طرف رہبری کرتا ہے (وَیُخْرِجُہُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) ۔
پہلی آیت میں نور سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات ہے اور بعض کے نزدیک قرآن مجید ۔ قرآن مجید مختلف آٰات میں قرآن کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ زیر نظر آیت میں نور سے مراد قرآن حکیم ہی ہے ۔ اس بناء پر ” کتاب مبین“ اس پر لطف ِ تو ضیحی ہے ۔ سورہٴ اعراف آیت ۱۵۷ میں ہے :
فالذین اٰمنوا بہ و عزروہ نصروہ و اتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون۔
وہ لوگ جو پیغمبر پر ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اس کی عظمت کو تسلیم کرلیا ہے اور ان کی مدد کی ہے اور اس نور کی پیروی کی ہے جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے ، اہل نجات اور کامیاب ہیں ۔
سورہ ٴ تغابن آیہ ۸ میں ہے
فامنوا باللہ و رسلہ و النور الذی انزلنا
خدا ، اس کے پیغمبر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے، ایمان لے آوٴ۔
اسی طرح متعدد دیگر آیات بھی ہیں لیکن لفظ نور کا اطلاق پیغمبر اسلام، کی ذات پر قرآن میں نظر نہیں آتا ۔
علاوہ ازیں بعد والی آیت میں ” بہ “ کی ضمیر مفرد ہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ نور او رکتاب مبین ایک ہی حقیقت ہیں ۔
البتہ متعدد روایات میں نور سے امیر المومنین (علیه السلام) یا تمام آئمہ اہل بیت (علیه السلام) مراد لئے گئے ہیں لیکن واضح ہے کہ یہ آیات کے مختلف بطون کے حوالے سے ایک بطن کی تفسیر کی طرح ہے ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری معانی کے علاوہ کچھ باطنی مفاہیم بھی ہیں جنھیں ” بطون ِ قرآن“ کہا جاتا ہے یہ جو ہم نے کہا ہے کہ واضح ہے کہ یہ تفسیربطون قرآن سے مربوط ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت آئمہ موجود نہیں تھے کہ اہل کتاب کو ان پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دوسری آیت رضائے الہٰی کے حصول کے لئے قدم بڑھا نے والوں کو نوید سناتی ہے کہ قرآن کے سائے میں انھیں تین عظیم نعمتیں دی جائیں گی ۔
پہلی نعمت سلامتی کی شاہراہ کی ہدایت ہے  یہ سلامتی در حقیقت ، فرد، معاشرے ، روح ،خاندان اور اخلاق کی سلامتی ہے ( اور یہ سلامتی عملی پہلو رکھتی ہے ) ۔
دوسری نعمت کفر اور بے دینی کی ظلمتوں سے نکال کر نور ایمان کی طرف لے جانا ہے ( یہ اعتقادی پہلو رکھتی ہے ) ۔
تیسری نعمت ان تمام چیزوں کو مختصر ترین اور نزدیک ترین راستے سے انجام دینا ہے ، جسے ” صراط مستقیم “ کہتے ہیں ۔
لیکن یہ سب نعمتیں ان لوگوں کو نصیب ہوں گی جو تسلیم اور حق گوئی کے در وازے سے داخل ہوں گے اور ” من اتبع رضوانہ“ کے مصداق ہوں گے۔ منافقین اور ہٹ دھرم افراد جو حق سے دشمنی رکھتے ہیں انھیں اس سے کوئی فائدہ نصیب نہیں ہوگا، جیسا کہ قرآن کی دیگر آیات گواہی دیتی ہیں ۔
نیز ان سب آثار کا سر چشمہ خدا کا حتمی ارادہ ہے جس کی طرف لفظ” باذنہ“ سے اشارہ کیا گیا ہے ۔


۱۷۔ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ہُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اللهِ شَیْئًا إِنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُہْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاٴُمَّہُ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا یخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ۔
ترجمہ
۱۷۔ یقینا جنھوں نے کہا کہ مسیح بن مریم خدا ہے وہ کافر ہوگئے ہیں ، کہہ دو اگر خدا چاہے کہ مسیح بن مریم ، اس کی ماں اور روئے زمین پر موجود تمام لوگوں کو ہلاک کردے تو اسے کوروک سکتاہے ( ہاں) آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، ان کی حکومت خدا ہی کے لئے ہے جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

 

چند اہم نکاتکیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma