”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا یہودیوں کی تحریف

گذشتہ آیت میں بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ کے پیمان لینے کا ذکر ہے ۔ اب اس آیت میں ان کی پیمان شکنی اور اس کے انجام کا تذکرہ ہے، فرمایا گیا ہے: انھوں نے چونکہ اپنا عہد توڑ ڈالا لہٰذا ہم نے انھیں دھکیل کر اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا( فَبِما نَقْضِہِمْ میثاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ۱
۱ ”لعن “ لغت میں دھنکار نے اور دور کرنے کے معنی میں ہے اور جب یہ لفظ خدا کے حوالے سے ہو تو اس کا معنی ہے”رحمت سے محروم کرنا“
وَ جَعَلْنا قُلُوبَہُمْ قاسِیَةً)۱۔
در حقیقت انھیں یہ دو سزائیں عہد شکنی کے جرم میں دی گئی ہیں وہ رحمت الٰہی سے بھی دورہوگئے ہوں گے اور ان کے افکار و قلوب بھی پتھر ہو گئے ہیں اور میلان و انعطاف کے قابل نہیں رہے ۔
اس کے بعد آثار قساوت کی اس طرح تشریح کی گئی ہے : وہ کلمات کی تحریف کرتے ہیں اور انھیں ان کے اصلی مقام سے بدل دیتے ہیں یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِہِ ) ۔
اور جو کچھ ان سے کہا گیا تھا اس کا ایک حصہ فراموش کر دیتے ہیں(وَ نَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ ) ۔
بعید نہیں کہ جو حصہ انھوں نے بھلا دیا وہ پیغمبر اسلام کی نشانیاں اور آثار ہوں جن کی طرف قرآن کی دیگر آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔
ممکن ہے یہ اس طرف اشارہ ہو جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک طویل عرصے تک تورات مفقود رہی پھر چند یہودی علماء نے اسے لکھا ، فطری امر ہے کہ اس کا بہت ساحصہ تو نابود ہو گیا اور کچھ میں تحریف کردی گئی یا فراموش ہو گیا ۔ لہٰذا یہودیوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ کتاب موسیٰ کا کچھ تھا جس میں بہت سے خرافات ملادئے گئے تھے اور انھوں نے یہ حصہ بھی بھلا ڈالا ۔
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : ہمیں ہر روز ان کی ایک نئی خیانت کا پتہ چلتا ہے ہاں البتہ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو ان جرائم سے کنارہ کش ہے لیکن وہ اقلیت میں ہے (وَ لا تَزالُ تَطَّلِعُ عَلی خائِنَةٍ ۲
مِنْہُمْ إِلاَّ قَلیلاً مِنْہُمْ ) ۔
آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ ان سے صرف نظر کرلیں اور چشم پوشی کریں کیونکہ خدا نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے (فَاعْفُ عَنْہُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنین) ۔ آیت کے اس حصے سے کیا مراد ہے کہ اس صالح اور نیک اقلیت کے گذشتہ گناہوں سے صرف نظر کریں یا غیر صالح اکثریت کے گناہوں سے ۔ آیت کا ظاہر دوسرے مفہوم کو تقویت دیتا ہے کیونکہ صالح اقلیت نے تو کوئی خیانت نہیں کی کہ جس سے عفو وبخشش کی جائے ۔ مسلم ہے کہ یہاں در گذر اور عفو ان کا تکالیف سے متعلق ہے جو انھوں نے ذات پیغمبر کو پہنچا ئی تھیں اور یہ معافی اسلام کے ہدف اور اصول سے متعلق نہیں ہے کیونکہ ان میں تو معافی کوئی معنی نہیں ۔

 


۱ لفظ ”قاسیة--“ ”قساوت“ کے مادہ سے ہے، اور سخت پتھروں کے لیے استعمال ہوتاہے اسی مناسبت سے جو لوگ حقائق سے رغبت اور میلان کا کوئی اظہار نہ کریں، ان کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔
۲” خائنة “ اگر چہ اسم فاعل ہے لیکن یہاں مصدری معنی میں استعمال ہوا ہے اور” خیانت“ کا معنی دیتا ہے ، عربی ادب میں اسم فاعل مصدری معنی میں آتا رہتا ہے ۔ مثلاً عافیة و خاطیة اور یہ احتمال بھی ہے کہ ” خائنة“ گروہ کی صفت ہو جو مقدر ہے ۔
 
پیمان شکنی کے باعث انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا یہودیوں کی تحریف
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma