شان ِ نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر چند اہم نکات

مفسرین کی ایک جماعت مثلاً عظیم مفسر طوسی موٴلف” تبیان “ او ر،وٴلفین ” تفسیر قرطبی“ اور ” المنار“ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جب مکہ میں مقیم تھی اور مشرکین کی طرف سے اس پر ظلم و ستم توڑے جارہے تھے اس جماعت کے افراد پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم قبول ِ اسلام سے پہلے محترم اور معزز تھے لیکن قبول اسلام کے بعد ہماری حالت دگر گوں ہ وگئی اور ہم وہ عزت اور احترام کھو بیٹھے ہیں ہمیں دشمن نے اذیت اور مصیبت میں مبتلا کردیا ہے ۔
اگر آپ اجازت دیں تو ہم دشمنوں سے جنگ کریں تاکہ اپنا وقار اور مرتبہ دوبارہ بحال کرسکیں ۔ اس روز پیغمبر نے فرمایا ابھی مجھے جنگ کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن جب مسلمان مدینہ میں جابسے اور مقابلے کے لئے زمین ہموارہو گئی، جہاد کاحکم نازل ہوا تو ان میں سے بعض جو پہلے لڑنے کے لئے تلے بیٹھے تھے اب میدان جہاد میں کانے سے کترانے لگے اور اس دن کا جوش و ولولہ ٹھنڈا پڑگیا تھا۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی او رمسلمانوں میں جذبہٴ شجاعت بیدار کرنے کے لئے اور جہاد سے گریز کرنے والے افراد کو ملامت کرتے ہوئے حقائق بیان کیے ۔

وہ جو صرف باتیں کرنا جانتے ہیں

قرآن یہاں کہتا ہے ، اس گروہ کی حالت واقعاً تعجب خیز ہے جو ایک نامناسب موقع پر بڑی گرم جوشی اور شور و غوغا سے تقاضا کرتا تھا کہ انھیں جہاد کی اجازت دی جائے انھیں حکم دیا گیا کہ ابھی اپنی حفاظت اورتعمیر کا کام کریں ، نماز پڑھیں ، اپنی تعدادبڑھائیں اور زکوٰة دیتے رہیں لیکن جب ہر لحاظ سے فضا ہموار ہو گئی اور جہاد کاحکم نازل ہوا تو ان پرخوف طاری ہو گیا اور وہ اس حکم کے سامنے زبانِ اعتراض دراز کرنے لگے ۔
(اٴَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفُّوا اٴَیْدِیَکُمْ وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمْ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللهِ اٴَوْ اٴَشَدَّ خَشْیَةً )
وہ اعتراض میں صراحت کے ساتھ کہتے تھے خدا یا تونے اتنا جلدی جہاد کا حکم نازل کر دیا کیا اچھا ہوتااگر اس حکم کو تاخیر میں ڈال دیتا یا یہ پیغام ِ رسالت آئندہ کی نسلوں کے ذمہ ڈال دیا جا تا۔ ۱
(وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلاَاٴَخَّرْتَنَا إِلَی اٴَجَلٍ قَرِیبٍ)
قرآن اس قسم کے افراد کو دو طرح کے جواب دیتا ہے ، پہلا جواب یہ ہے کہ جو (یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَةِ اللهِ اٴَوْ اٴَشَدَّ خَشْیَةً )کی عبارت کے دوران دیا جاچکا ہے ۔ یعنی وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدائے قاہر سے ڈریں کمزور اور ناتواں انسانوں سے خوف زدہ ہیں بلکہ وہ ان نحیف و ناتواں لوگوں سے خدا کی نسبت زیادہ ڈرتے ہیں دوسرا یہ کہ ایسے افراد کہا جائے کہ فرض کروں چند دن جہاد نہ کرنے کی وجہ سے آرام و سکون حاصل کرلو گے ، پھر بھی یہ زندگی فانی اور بے قیمت ہے لیکن ابدی اور دائمی جہاں تو پرہیز گار لوگوں کے لئے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے ، خصوصاً جب انھیں مکمل طور پر عوض اور اجر مل جائے گا معمولی سے معمولی ظلم بھی ان پر نہیں ہوگا..
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِمَنْ اتَّقَی وَلاَتُظْلَمُونَ فَتِیلًا۔۲
 


۱-بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت مہدی (علیه السلام) کے قیام کے بارے میں کچھ باتیں سن رکھی تھیں ۔ لہٰذا ان میں سے بعض اس انتظار میں تھے کہ جہاد کا معاملہ قیامِ مہدی (علیه السلام) کے زمانے سے مخصوص ہو جائے ۔ ( نور الثقلین جلد اول ص۵۱۸)
۲-فتیل ایک باریک دھاگہ ہے جو کھجور کے دانے کے درمیان شگاف میں ہوتا ہے جس طرح کہ اس کی تفصیل تیسری جلد میں گزر چکی ہے ۔

 

تفسیر چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma