چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
لوگوں کی جان و مال پر حملہ کرنے والوں کی سزاتوسل کی حقیقت

۱۔ خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے کیا مراد ہے ؟
جیسا کہ روایت ِاہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے اور کم و بیش آیت کی شانِ نزول بھی اس کی گواہی دیتی ہے ، خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی ڈرادھمکا کر مسلح ہو کر لوگوں کے جان و مال پر حملہ آور ہو چاہے تو چوروں ڈاکووٴں کی طرح شہروں سے باہر ایسا کرے یا شہر کے اندر۔ اس بناپر وپ بد معاش لٹیرے جو لوگوں کے جان و مال او رناموس پر حملہ کرتے ہیں اب اس حکم میں شامل ہیں ۔
ضمناً توجہ رہے کہ اس آیت میں بند گان خدا کے ساتھ جنگ کرنے کو خدا کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانوں کے حقوق اور ان کے امن و سکون کی کس قدر اہمیت ہے ۔
۲۔ ہاتھ پاوٴں کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟
جیسا کہ روایت اہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے کہ کم و بیش آیت کی شانِ نزول بھی اس کی گواہی دیتی ہے ، خدا اور رسول سے جنگ کرنے سے مراد ہے کہ کوئی ڈرادھمکا کر مسلح ہو کر لوگوں کے جان و مال پر حملہ آور ہوچاہے تو چوروں ڈاکووٴں کی طرح شہروں سے باہر ایسا کرے یا شہر کے اندر ۔ اس بنا پر وہ بد معاش لٹیرے جو لوگوں کے جان و مال او رناموس پر حملہ کرتے ہیں سب اس حکم میں شامل ہیں ۔
ضمناً توجہ رہے کہ اس آیت میں بندگانِ خدا کے ساتھ جنگ کو خدا سے جنگ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانوںکے حقوق اور ان کے امن و سکون کی کس قدر اہمیت ہے۔
۲۔ ہاتھ پاوٴں کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟
جیسا کہ فقہی کتب میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہاتھ پاوٴں کا ٹنے سے مراد اتنی ہی مقدار ہے جو چوری کے بارے میں بیان ہوئی ہے یعنی ہاتھ پاوٴں کی صرف چار انگلیاں کاٹنا ۔ 1
۳۔ کیا چاروں سزائیں اختیاری ہیں :
زیر نظر آیت میں چار سزائیں بیان ہوئی ہیں ۔ اس سلسلے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سزائیں اختیاری حیثیت رکھتی ہیں یعنی حکومت اسلامی ان میں سے جس شخص کے لئے مناسب سمجھے جاری کرے یا جرم کی مناسبت سے ان میں سے سزا اختیار کی جائے گی یعنی اگر حملہ آوروں ( ڈاکووٴں) نے بے گناہ لوگوں کوقتل کیا ہے تو ان کے لئے قتل والی سزا انتخاب ہو گی اور اگر مسلح ہو کر لوگوں کو ڈرا دھمکاکر ان کا مال لوٹا ہے تو ان کی انگلیاں کاٹی جائیں گی اور اگر انھوں نے قتل بھی کیا ہے اور مال بھی چرایا ہے تو انھیں قتل کیا جائے گا اور لوگوں کی عبرت کے لئے ان کی لاشیں کچھ عرصے کے لئے سولی پر لٹکائی جائیں گی اور لوگوں کے خلاف ہتھیار لے کرنکلے ہیں لیکن انھوں نے خون نہیں بہایا اور چوری بھی نہیں کی تو انھیں دوسرے شہر کی طرف جلا وطن کیا جائے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ دوسرا معنی حقیقت سے زیادہ قریب ہے اور یہی مفہوم آیمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول چند احادیث میں بھی آیا ہے ۔ 2
یہ صحیح ہے کہ کچھ احادیث میں اس سلسلے میں حکومتِ اسلامی کو اختیار حاصل ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے لیکن جن احادیث کی پہلے بات کی گئی ہے ان کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اختیار سے مراد یہ نہیں ہے کہ حکومت اسلامی ان چار میں سے خودہی کوئی سزا منتخب کرے اور جرم کی کیفیت کو پیش نظر نہ رکھے کیونکہ یہ بہت بعیدہے کہ قتل اور سولی دیئے جانے کو جلا وطنی کا ہم پلہ قرار دیا جائے یہ سب ایک ہی سطح پر نہیں ہو سکتے۔
اتفاق کی بات ہے کہ آج کی دنیا میں جرائم اور سزا کے بہت سے قوانین میں بھی یہ بات صریح طور پر دیکھی جاتی ہے کہ ایک قسم کے جرم کے لئے متعدد سزائیں مقر کی جاتی ہیں مثلاً بعض جرائم کے لئے قانون میں تین سے لے کر دس تک قید معین کی جاتی ہے اور قاضی کا ہاتھ اس سلسلے میں کھلا رکھا جاتا ہے اس کا مفہوم یہ نہیں ہو تا کہ جج اپنی مرضی سے قید کی مدت کا تعین کرے بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ سزا کی مدت جرم کے خفیف یا شدید ہونے کے حوالے سے معین کرے اور مناسب سزا کا انتخاب کرے۔
اس اہم اسلامی قانون میں بھی حملہ آوروںکے لئے سزا کی کیفیت مختلف بیان کی گئی ہے کیونکہ جرم کی کیفیت بھی اس سلسلے میں مختلف ہوتی ہے اور سب حملہ آور یقینا ایک جیسے نہیں ہوتے۔
کہے بغیر واضح ہے کہ اسلام نے حملہ آوروں کی بارے میں اتنی شدید سزا اس لئے مقرر کی ہے تاکہ بے گناہوں کے خون ، جان و مال اور ناموس کی ہٹ دھرم، منہ زور ، اوباش اورفسادی لوگوں کے حملوں اور تجاوزات سے حفاظت کی جائے۔ 3
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : یہ رسوائی اور سزا تو ان کے لئے دنیا میں ہے لیکن صرف اسی سزا پر اکتفا نہیں کی جائے گی بلکہ آخرت میں بھی انھیں سخت سزا دی جائے گی(ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَہُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ) ۔اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی حدود اور سزائیں اگر دنیا میں جاری ہو جائیں تو وہ آخرت کی سزاوٴں سے مانع نہیں ہیں ۔
اس کے بعد اس بناء پر کہ لوٹ آنے کا راستہ ایسے خطر ناک مجروموں پر بھی بند نہ کیا جائے اور اگر وہ مائل بہ اصلاح ہو جائیں تو ان کے تلافی اور تجدید نظر کا راستہ کھلا رکھا جائے ، ارشاد ہوتا ہے : مگر وہ لوگ کہ جو قابو آنے سے پہلے تو بہ کرلیں تو عفوِ الہٰی ان کے شامل حال ہو گا اور جان لوکہ خدا غفور و رحیم ہے ۔
( إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَقْدِرُوا عَلَیْہِمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔
اس جملے سے معلوم ہوتا کہ اس سلسلے میں انھیں صرف اس صورت میں سزا نہیں ملے گی کہ اگر وہ پکڑے جانے سے پہلے اپنے ارادے سے اور رغبت سے اس جرم سے صرفِ نظر کرلیں اور پشمان ہو جائیں ۔
یہاں شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ ان کی توبہ اس کا سبب نہیں بنے گی کہ اگر انھوں نے قتل کیا ہے یا چوری کیا ہے تو اس کی سزا انھیں نہیں ملے گی بلکہ صرف اسلحہ اٹھا کر لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی سزا بر طرف ہو جائے گی ۔ دوسرے لفظوں میں صرف حقوق اللہ میں ان کی سزا توبہ کی صورت میں ساقط ہو جائے گی، لیکن حقوق الناس میں صاحبانِ حق کی رضا کے بغیر ساقط نہیں ہو گی( غور کیجئے گا ) ۔
اس کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ محارب کی سزا عام قاتل یا چور سے زیادہ سخت اور شدید تر ہے لیکن توبہ کرنے سے محارب والی سزا اس سے بر طرف ہو جائے گی ۔ باقی رہی چور ، غاصب یا عام قاتل والی سزا تو و ہ اسے ملے گی ۔
ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ توبہ تو ایک باطنی امر ہے اسے کس طرح ثابت کیا جائے گااس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ بات ثابت کرنے کے بہت سے راستے ہیں مثلاً دو عادل گواہی دیں کہ فلاں مجلس میں انھوں نے اس کی توبہ سنی ہے اور اس نے بغیر کسی دباوٴ کے اپنی رضا و رغبت سے توبہ کی ہے ۔ مثلاً وہ اپنی زندگی کی روش اور طور طریقہ اس طرح سے بد ل لے کہ اس سے توبہ کے آثار ظاہر ہوںَ

 

۳۵۔ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ وَجَاہِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔
ترجمہ
۳۵۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور قرب خدا کا وسیلہ تلاش کرو اور راہ خدا میں جہاد کرو تاکہ فلاح اور نجات پاجاوٴ۔

 

 

 

 

 


1۔ کنزل العرفان فی فقہ القرآن ج۲ صفحہ ۳۵۲۔
2-نور الثقلین جلد ۱ صفحہ ۶۲۲۔

3 ۔ سطوربالا میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ اجمال اور خلاصہ کے طور پر اس اسلامی قانون کی تفصیل اور شرائط کا مطالعہ فقہی کتب میں کیا جانا چاہئیے۔

لوگوں کی جان و مال پر حملہ کرنے والوں کی سزاتوسل کی حقیقت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma