تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
چند اہم نکاتکامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ

گذشتہ اور بعد کی آیات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آیات بھی منافقین سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں رہتے تھے جیساکہ آیات میں ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں شر کت کرنے سے ڈرتے تھے اور جب جہاد کا حکم صادر ہواتو انھیں تکلیف ہوئی ۔ قرآن ان کے اس طرزِ فکر کا دو طرح سے جواب دے رہا ہے پہلا جواب تو وہی تھا جو گذشتہ آیت کے آخر میں گزر چکا ہے
قل متاع الدنیا قلیل و الاخرة خیر لمن اتقی
” کہہ دو کہ دنیا وی زندگی بہت کم ہے لیکن پر ہیز گاروں کے لئے دوسرے جہان میں اس کا صلہ موجود ہے “۔
دوسرا جواب جو زیر بحث ہے کہ موت سے فرار اختیار کرنا تمہارے لئے مفید نہیں ” حالانکہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت سے تم کو مفر نہیں آخر ایک تمھیں اس کا نوالہ بننا ہے یہاں تک کہ تم مضبوط گنبدوں میں کیوں نہ چھپ جاوٴ” پس وہ موت جسے ضرور آنا ہے اور جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے کیون نہ اسے اصلاح اور سچائی کے لئے قبول کیا جائے جیسے جہاد کی صورت میں بجائے اس کے کہ بے کار اور لا حاصل موت قبول کی جائے ۔
(اٴَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مُشَیَّدَةٍ) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات مثلاً حجر کی آیة ۹۹ ۔ اور مدثر کی آیت۴۸۔ میں موت کو ” یقین “ سے تعبیر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر قوم اور گروہ جو بھی عقیدہ رکھتا ہو وہ ہر چیز کا انکار کرسکتا ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زندگی ایک دن ختم ہونے والی ہے وہ افرد جو زندگی سے عشق کرتے ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہونے کانام ہے اور اس کا نام لیتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں یہ آیات انھیں تنبیہ کرتی ہیں اور زیر بحث آیت میں۔ یدرککم ۔ کے مفہوم سے انھیں متوجہ کیا گیا ہے کہ عالم ہستی کی اس حقیقت سے فرار اختیار کرنا ایک نامناسب فعل ہے کیونکہ ۔یدرککم ۔ کے مادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی چیز سے فرار حاصل کرے اور وہ اس کے پیچھے دوڑے ۔ سورہ جمعہ کی آیت ۸ میں بھی یہ حقیقت زیادہ کھل کربیان کی گئی ہے :
قل ان الموت الذی تفرون منہ ملاقیکم کہیے کہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہارے سامنے آئے گی ۔
جب یہ حقیقت مد نظر ہو تو کیا یہ عقل مندی ہے کہ انسان میدان جہاد میں جانے اور قابل فخر مرتبے پر فائز ہونے کی بجائے اس سے کنارہ کش ہ وکر گھر میں آرام کرتا رہے فرض کرلیں کہ جہاد سے کنارہ کش ہو کر وہ زندگی کے چند روز اور گذار لے اور وہی کام دہراتا رہے جو پہلے کرتا رہا ہے ۔
راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کے اجر و ثواب سے بے بہرہ ہو جائے تو کیا یہ عقل اور منطق کے مطابق صحیح ہے اصولی طور پر موت ایک عظیم حقیقت ہے اور موت کے استقبال کے لئے افتخار کے ساتھ آمادہ ہونا چاہئیے ۔
دوسرا نکتہ جس پر توجہ کرنا چاہئیے یہ ہے کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے کہ کوئی چیز یہاں تک کہ محکم برج ( بروج مشیدہ)۱
بھی موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ واضح یت اور وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت وجود انسانی سے باہر نفوذ کرتی ہے ۔ عملی طور پر موت کا سر چشمہ انسان کے اندر ہے ، کیونکہ بدن کے مختلف کل پر زوں ( اعضاء) کی استعداد یقینا محدود ہے ایک دن وہ ختم ہو جاتے ہیں ۔البتہ غیر طبیعی موت انسان کی تلاش میں باہر سے آتی ہے لیکن طبعی موت اس کے اندر سے آتی ہے ۔ مضبوط گنبد اور بھاری قلعے بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے ۔
یہ بجا ہے کہ مضبوط قلعے بعض اوقات غیر طبعی موت سے بچا لیتے ہیں ۔ مگر پھر بھی موت سے مکمل نجات نہیں دلاسکتے اورچند دنوں بعد طبعی موت انسان کو آلیتی ہے ۔

 


۱- مشیدہ ۔ در اصل مادہ شید ( بر وزن شیر) سے ہے اور گچ اور دوسرے محکم مواد کے معنی میں ہے جنھیں کسی بنیاد کے استحکام کے لئے استعمال کرتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں عام طور پر مضبوط بنیاد کے لئے محکم ترین مادہ گچ اور چونا تھا لہٰذا زیادہ تر اس مفہوم میں بولا جاتا تھا۔ لہٰذا بروج مشیدہ محکم قلعوں کے معنی میں ہے اور دیکھنے میں مشیدہ مرتفع اور بلند کے معنی میں آتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوناسے استفادہ کئے بغیر کسی طرح بھی بلند و بالا عمارت کی بنیادیں استوار نہیں ہوسکتیں ۔
 
چند اہم نکاتکامرانیوں اور شکستوں کا سر چشمہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma