شیطانی سازشیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
شرک.... ناقابل معافی گناہشانِ نزول

پہلی آیت ان مشرکین کی حالت بیان کررہی ہے جن کے منحوس انجام کا تذکرہ گذشتہ آیت میں کیا گیا ہے ۔اس میں در حقیقت ان کی سخت گمراہی کا سبب بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : وہ اس قدر کوتاہ فکر ہیں کہ انھوں نے وسیع عالم ہستی کے خالق کو چھوڑ کر ایسے موجودات کے در پر رجوع کرتے ہیں کہ جن کا کچھ مثبت اثر نہیں بلکہ بعض اوقات تو شیطان کی طرح تباہ کار اور گراہ کن بھی ہوتے ہیں ( إِنْ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ إِلاَّ إِناثاً وَ إِنْ یَدْعُونَ إِلاَّ شَیْطاناً مَریداً ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں مشرکین کے معبود دوچیزوں میں منحصر قرار دئے گئے ہیںاول ”اناث“اور دوم ......” شیطان مرید“
”اناث“ جمع ہے ” انثیٰ“ کی جو کہ ” انث“ ( بر وزن ” ادب“ ) مادہ سے ہے ” انثیٰ “ نرم اور قابل انعطاف موجود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوہا جب آگ میں نرم ہو جائے تو عرب’ انث الحدید“ کہتے ہیں عورت کو بھی ” اناث“ یا ” مونث“ اسی لئے کہ جاتا ہے کہ وہ زیادہ نرم دل ، لطیف اور انعطاف پذیرصنف ہے ۔
بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہاں قرآن کا اشارہ قبالئل عرب کے مشہور بتوں کی طرف ہے ہر عرب قبیلے نے اپنا ایک بت بنا رکھا تھا سجے نام دیاگیا تھا ” مثلاً اللات جس معنی ہے ” الھہ“ اور یہ ” اللہ “ کا مونث ہے ” عزی“ بھی مونث ہے “ اعز“ کا اسی طرح ” منات“ ” اساف“ اور ” نائلہ “ بھی مونث نام ہیں ۔
بعض دوسرے بزرگ مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہاں اناث سے مراد مونث کا مشہور معنی نہیں ہے بلکہ یہ لفظ یہاں اصل لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اہ ایسے معبودوں کی پرستش کرتے تھے جن کی حیثیت ایک کمزورمخلوق سے زیادہ نہ تھی اور جو آسانی سے انسان کے ہاتھوں ہر شکل میں دُھل جاتے تھے ان کا پورا وجود دوسروں کے رحم و کرم پر جدھر چاہو ادھر مڑجانے والا اور حوادث کے سامنے جھک جانے والا تھا، زیادہ کھلے لفظوں میں وہ نے ارادہ او ربے اختیار معبود تھے جن سے کوئی نفع و نقصان نہ پہنچ سکتا تھا۔
باقی رہا لفظ” مرید“ ...... تو اس کی تشریح کچھ یوں ہے : یہ لفظ لغت کے لحاظ سے ” مرد “ ( بر وزن ” زرد“)کے مادہ سے ہے ، جس کا معنی ہے درختوں کی شاخیں اور پتے جھڑ جانا۔ اسی لئے جس نوجوان کے چہرے پر ابھی بال نہ اگے ہوں اسے” امَرد“ کہا جاتاہے ۔ لہٰذا ” شیطان مرید“ سے مراد شیطان ہے جس کے شجر وجود کی تمام صفات فضیلت گر چکی ہوں اور بھلائی اور طاقت کی کوئی چیز باقی نہ رہی ہو یا پھر لفظ مادہ ” مرود“ ) سے ہے جس کامعنی ہے طغیان اور سر کشی.... یعنی ان کا وجود تباہ اور ویران لانے والا شیطان ہے ۔
درحقیقت قرآن نے ان کے معبودوں کو دو گروپوں میں بیان کیا ہے ایک گروپ وہ ہے جو بے اثر اور بے خاصیت ہے اور دوسرا تباہ کار اور ویران گر ہے اور جو شخص ایسے معبودوں کے سامنے سر جھکائے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہے ۔
اس کے بعد کی آیا ت میں شیطان کی صفات ، اس کے مقاصد و اہداف اور بنی آدم سے اس کی مخصوص دشمنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نیز اس کے لائحہ عمل کے مختلف حصوں کی تشریح کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے : خدا نے اسے اپنے رحمت سے دور کردیا ہے ( لعنہ اللہ) اس کی تمام تباہ کاریوں اوربد بختیوں کی بنیاد در اصل یہی ہے کہ وہ رحمت الہٰی سے دور ہو چکا ہے ،اور یہ دوری اس کے غرور و تکبر کا نتیجہ ہے ، یہ بات واضح ہے کہ ایسا وجودرحمت خدا سے دور ہو کر ہر طرح کی خیر و خوبی سے محروم ہو چکا ہو، وہ دوسروں کی زندگی کے لئے مفیدنہیں ہو سکتا بلکہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہوگا۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ شیطان نے قسم کھارکھی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے گا:
۱۔ تیرے بندوں سے ایک معین حصہ لوگوں گا (وقال لاتخذن من عبادک نصیباً مفروضا ً) ۔
وہ جانتا ہے کہ وہ خدا کے سب بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا اور صرف ہوس پرست، ضعیف ایمان والے اور کمزور ارادے کے مالک ہی اس کے سامنے جھکیں گے ۔
۲۔ انھیں گمراہ کروں گا( ولاضلنھم) ۔
۳۔ انھیں لمبی چوڑی امیدوں اور آرزووٴں کے سہارے مصروف رکھوں گا (ولامنینھم)۱
۴۔ انھیں فضول اور بیہودہ کاموں کی دعوت دوں گا ان میں سے یہ بھی ہے کہ انھیں حکم دوں گا وہ چوپایوں کے کانوں میں سوراخ کریں یا انھیں کاٹ ڈالیں

 ( ولامر نھم فلیبتکن اذا ل الانعام) ۔
یہ زمانہ جاہلیت کے ایک بد ترین عمل کی طرف اشارہ ہے ۔ بت پرستوں میں یہ کام مروج تھا کہ وہ بعض چوپایوں کے کان چیر دیتے یا انھیں قطع کردیتے پھر ان پر سواری کو ممنوع سمجھ لیتے اور ان سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہ اٹھاتے ۔
۵۔ انھیں اس کام پر ابھاروں گا کہ خدا کی پاک خلقت کو بگاڑدیں ( ولامرنھم فلیغرن خلق اللہ ) ۔
یہ جملہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ خد انے انسان کی فطرت اولیٰ میں توحید، یگانہ پرستی او رہر طرح کی پسندیدہ صفت رکھی ہے لیکن شیطانی وسوسے اور ہوا و ہوس اسے اس صحیح راستے سے منحرف کردیتے ہیں اور بے راہ روی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں اس بات کی شاہد سورہٴ روم کی آہ۳۰ ہے ۔
فا قم وجھک للذین حنیفا فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ۔
اپنا چہرہ خالص توحیدی آئین کی طرف کولو یہ وہی فطرت ہے کہ جس پر خدا نے شروع سے لوگوں کورکھا ہے یہ آفرینش کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی .... یہی حقیقی اور مستقیم دین ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ یہاں تغیر سے مراد فطرت توحید اور فرمانِ خدا میں تغیر ہے 2
اور یہ ایسا ضرر ہے جو قابل تلافی نہیں شیطان یہ نقصان انسان کی سعادت کی بنیاد کو پہچانتا ہے کیونکہ وہ حقائق کو اوہام میں تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے اور اس کے بعد سعدات شقاوت میں بدل جاتی ہے ۔
آخر میں ایک حکم عمومی بیان کیا گیا ہے : جو شخص خد اکی بجائے شیطان کو اپنا سرپرست بنا تا ہے وہ کھلے نقصان کا مرتکب ہواہے (وَ مَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطانَ وَلِیًّا مِنْ دُونِ اللَّہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْراناً مُبیناً ) ۔
اگلی آیت میں گذشتہ گفتگو کی دلیل کے طور پر چند نکات بیان کئے ہیں :
شیطان ہمیشہ ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہتا ہے اور انھیں لمبی چوڑی ارزووٴں میں محو رکھتا ہے لیکن مکرو فریب کے علاوہ کرتا ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ( یَعِدُہُمْ وَ یُمَنِّیہِمْ وَ ما یَعِدُہُمُ الشَّیْطانُ إِلاَّ غُرُوراً ) ۔3
محل بحث آیت میں سے آخری آیت میں شیطان کے پیرو کاروں کے آخری انجام کا تذکرہ ہے ۔ فرمایا گیا ہے ان کا ٹھکا نا جہنم میں ہے اور ان کے لئے بھاگ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے (اٴُولئِکَ مَاٴْواہُمْ جَہَنَّمُ وَ لا یَجِدُونَ عَنْہا مَحیصاً ) ۔4

 

۱۲۲۔وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا اٴَبَداً وَعْدَ اللَّہِ حَقًّا وَ مَنْ اٴَصْدَقُ مِنَ اللَّہِ قیلاً ۔
ترجمہ
۱۲۲۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک کام سر انجام دئے ہم انھیں عنقریب ان باغات بہشت میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے اللہ تم سے سچا وعدہ کرتا ہے او رکون ہے جو قول اور اپنے وعدوں میں اللہ سے زیادہ سچا ہو ۔

 


۱ اس لفظ کا مادہ ” منی“ ( بر وزن” منع“ ) ہے جو تقدیر اور حساب لگانے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے بعض اوقات خیالی اندازوں او رموہوم آوازوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ، نطفہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زندہ موجودات کی ابتدا کا حساب اسی سے لگایا جاتا ہے ۔
2-
3 ” غرور“ در اصل کسی چیز کے واضح اور آشکار ر اثر کو کہتے ہیں لیکن یہ لفظ زیادہ تر آثار کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کا ظاہر پر فریب اور باطن ناپسند ہو اور ہرایسی چیز کو غرور کہتے ہیں جو انسان کو فریب دے اور راہ حق سے منحرف کردے چاہے وہ مال و ثروت ہو یا مقام و اقتدار۔
4” محیص“ ” حیص“ کے مادہ سے ہے جس کا مطلب ہے عدول کرنا اور نگاہ پیر لینا۔ لہٰذا محیص کا منعی ہو گا عدول کا ذریعہ اور فرار کا وسیلہ۔

 

شرک.... ناقابل معافی گناہشانِ نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma