چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
دائمی دشمنتفسیر

۱۔ ” اغوینا“ کا مفہوم : یہ لفظ ” اغراء“ کے مادہ سے ہے اس کا معنی ہے کسی چیز سے چمٹا دینا اور جو ڑ دینا ۔ بعد ازاں کسی کام کا شوق دلانے اور اس پر اکسا نے کے مفہوم میں استعمال ہو نے لگا کیونکہ یہ بات لوگوں کے معین اسباب سے مربوط ہونے کا سبب بنتی ہے ۔ لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نصاریٰ کی عہد شکنی اور غلط کاریاں اس بات کا سبب بنیں کہ ان میں عداوت و دشمنی اور نفاق و اختلاف پیدا کر دیا جائے ( کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسبابِ تکوینی کے آثار کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ) آج بھی عیسائی حکومتوں کے درمیان بے شمار کشمکش موجود ہیں جن کی بنا پر اب تک دو عالمی جنگیں ہوچکی ہیں ان میںگروہ بند یاں اور عداوت و دشمنی آج بھی جاری و ساری ہے ۔ علاوہ ازیں عیسائیوں کے مختلف مذاہب میں اختلافات اور عداوتیں اس قدرہیں کہ آج بھی وہ ایک دوسرے کا کشت و خون جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہاں مراد یہود و نصاریٰ کے درمیان دشمنی ہے جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی لیکن آیت کا ظاہری مفہوم عیسائیوں کے مابین عداوت ہی کی تائید کرتا ہے ۔ 1
شاید اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ دردناک انجام عیسائیوں ہی میں منحصر نہیں اگر مسلمان ان کا طریقہ اپنا ئیں گے تو وہ بھی اس نتیجے سے دو چار ہو ںگے۔
۲۔ ”عداوت “اور” بغضاء“کا مفہوم : ”عداوت“ ” عدو“ کے مادہ سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے ، اور ” بغضاء“ بعض “ کے مادہ سے کسی چیز سے نفرت کرنے کے معنی میں ہے ان دونوں الفاظ میں یہ فرق ہو کہ ” بغض“ زیادہ تر قلبی پہلو رکھتا ہے جب کہ ” عداوت“ عملی پہلو رکھتی ہے یا کم از کم عملی اور قلبی دونوں پہلو رکھتی ہے ۔
۳۔ کیا یہودیت اور عیسائیت ہمیشہ موجود رہیں گی ؟ : زیر بحث آیت میں یوں لگتا ہے جیسے نصاریٰ ایک مذہب کے پیرو کار ہونے کے حوالے سے زیادہ یہودو نصاریٰ دونوں )رہتی دنیا تک موجود رہیں گے۔ یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی روایات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (علیه السلام) کے ظہور کے بعد پورے عالم میں ایک سے زیادہدین نہی ہو گا اور وہ دین اسلام ہے تو ان دو باتوں کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ عیسائیت ( عیسا ئیت اور یہودیت) ایک بہت ہی کمزور اقلیت کے طور حضرت مہدی (علیه السلام) کے دور میں بھی باقی رہ جائے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ اس دور میں بھی انسانوں سے ارادہ کی آزادی نہیں چھینی جائے گی اگر چہ دنیا کی قطعی اکثریت دین حق کو پالے گی اور اسے قبول کرلے گی ۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پوری دنیاپر ایک اسلامی حکومت ہی ہو گی ۔

 

۱۵۔ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنْ الْکِتَابِ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ قَدْ جَائَکُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ ۔
۱۶۔ یَہْدِی بِہِ اللهُ مَنْ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔
ترجمہ
۱۵۔ اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آیاہے جو آسمانی کتاب کے ان بہت سے حقائق کو واضح کرے گا جنہیں تم چھپاتے تھے او ربہت سی چیزوں سے ( جن کی عملاً ضرورت نہیں ) صرفِ نظر کرلے گا ۔ خدا کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب آئی ہے ۔
۱۶۔ جو لوگ اس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں خدا انھیں سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرے گا اور اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر انہیں روشنی میں لیجائے گا انہیں راہِ راست کی ہدایت کرے گا ۔

 

 

 

 


 
1۔ اس بنا پر ” بینھم “ کی ضمیر نصاریٰ کی طرف ہی لوٹے گی کہ جن کا ذکر آیت کی ابتداء میں ہوچکا ہے ۔
 
دائمی دشمنتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma