چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
قتل اشتباہ کے احکام قتل عمد کی سزا

خسارے کی تلافی کے لئے احکام
۱۔ یہاں قتل اشتباہ کی تلافی کے لئے تین موضوع بیان کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک ایک طرح سے خسارے اورنقصان کی تلافی ہے جو اس عمل کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ پہلا غلام آزادکرنا ہے اصل میں ایک اجتماعی خسارے( ایک اہل ایمان کا قتل کی تلافی ہے دوسرا دیت کا ادا کرنا ہے جو اصل میں ایک طرح سے اقتصادی خسارے کی تلافی ہے جو کہ ایک شخص کے قتل ہونے سے ایک خاندان کو ہوتا ہے ورنہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ دیت ( خون بہا ) کبھی بھی ایک انسان کے خون کی حقیقی قیمت نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک بے گناہ انسان کو خون ہر طرح سے زیادہ قیمتی ہے بلکہ خاندان کے اقتصادی خسارے کی ایک طرح سے تلافی ہے ۔
اور تیسرا داماہ مسلسل روزے رکھنے کا مسئلہ ہے جو کہ اخلاقی اور روحانی خسارے کی تلافی ہے ، جو غلطی سے قتل کرنے والے کو کرنا ہوتی ہے ۔ البتہ خیال رکھنا چاہئیے کہ مسلسل دو ماہ روزے رکھنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو کہ ایک با ایمان غلام کو آزاد نہیں کرسکتے تو روزے رکھنا ہوں گے لیکن غور کرناچاہئیے کہ غلام آزاد کرنا ایک طرح کی عبارت شمار ہوتا ہے لہٰذا اس عبادت کا اثر آزاد کرنے والے کی روح پر ضرورہو گا ۔
۲۔ مسلمانوں میں دیت سے صرف نظر
جس مقام پر مقتول کے پس ماندگان مسلمان ہو ں وہاں ”الا ان یصدقوا“ مگر یہ کہ وہ دیت سے صرف نظر کرلیں ) کا ذکر آیاہے لیکن جس مقام پر وہ مسلمان نہ ہوں وہاں یہ بات نہیں ۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کیونکہ پہلے موقع پر اس کا م کی کوئی بنیاد ہے لیکن دوسری جگہ اس قسم کی بنیاد نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں تک ہو سکے مسلمانو کو ایسے موقع پر غیر مسلموں کے احسان کا زیر بار نہیں ہونا چاہئیے ۔
۳۔ غیر مسلموں کے لئے دیت کا پہلے تذکرہ
قابل توجہ امر یہ ہے کہ پہلی صورت میں جبکہ پس ماندگان مسلمان ہوں پہلے ” ایک غلام آزاد کرے ‘ ‘ اورپھر ” دیت “ کا ذکر ہے ۔ جبکہ تیسری صورت میں جبکہ وہ مسلمان نہیں ہیں پہلے دیت کا تذکرہ ہے شاید تعبیر کا یہ اختلاف اس طرف اشارہ کرتا ہوکہ مسلمانوں کے معاملے میں دیت کی تاخیر کا زیادہ تر منفی ردّ عمل نہیں ہوتا جبکہ غیر مسلموں کے معاملے میں ہر چیز سے پہلے دیت ادا ہونا چاہئیے تاکہ نزاع اور جھگڑے کی آگ ٹھنڈی ہو سکے اور دشمن اسے معاہدے کی خلاف ورزی پرمحمول نہ کریں ۔
۴۔ اسلامی پیمانوں کی طبعی بنیاد
یہ آیت دیت کی مقدار نہیں بتائی گئی اور اس کی تفصیل سنت کے مطابق مقرر ہوتی ہے ۔ جس کی رو سے پوری دیت ہزار مثقال سونا یا ایک سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، اور اگر وارث راضی ہوں تو ان جانوروں کی قیمت ہے ( البتہ سونے یا بعض جانوروں کی دیت کے طور پر تعین اسلامی اصول کے مطابق ہے اور اسلام نے اپنے پیمانے اور میزان طبعی امور میں سے مقرر کئے ہیںنہ کہ بناوٹی مصنوئی اور وقتی طریقوں سے جو کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں ۔
۵۔ غلطی کی سزا؟
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ اعتراض کریںکہ ” غلطی“ کی سزا نہیں ہوتی ،تو اسلام اس کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے ، حالانکہ اس غلطی کا مرتکب کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ۔ اس کا جواب واضح ہے کیونکہ خون کا مسئلہ کوئی معمولی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسلام اس سخت حکم کے ذریعے چاہتا ہے کہ لوگ نہایت محتاط رہیں تاکہ کسی قسم کا قتل یہاں تک کہ اشتباہ اور غلطی سے بھی ان سے سرزدنہ ہو ۔ کیونکہ بہت سی غلطیاں بھی قابل گرفت ہیں علاوہ از یں اس لئے بھی کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ قتل اشتباہ کے دعویٰ سے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھا جاسکتا آیت کا آخری جملہ ( توبة من اللہ)ممکن ہے اسی مر کی طرف اشارہ ہو کہ عام طور پر اشتباہات کا مرکز پوری کو شش اور غورکرنا ہوتا ہے لہٰذا اہم معاملات میں ( مثلاً قتل نفس) کے سلسلے میں اس طرح تلافی ہونا چاہئیے کہ خدا سے تو بہ ان کے مرتکب ہونے والوں کے شامل حال ہو جائے ۔


۹۳۔وَ مَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُہُ جَہَنَّمُ خالِداً فیہا وَ غَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہُ وَ اٴَعَدَّ لَہُ عَذاباً عَظیماً ۔
ترجمہ
۹۳۔جو شخص کسی صاحب ایمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ کے لئے رہے گا اور خدا اس پر غضب نازل کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے اور اس کے لئے اس نے عذاب عظیم مہیا کررکھا ہے ۔

شانِ نزول

مقیس بن صبا بہ کنانی ایک مسلمان تھا اس نے اپنے مقتول بھائی کی لاش محلہ” بنی نجار“ میں دیکھی ۔ اس نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں آکر یہ واقعہ بیان کیا رسول اکرم نے اسے قیس بن ہلا ل مہزی کے ساتھ نبی نجار کے سرداروں کے پاس بھیجا اور حکم دیاکہ اگر وہ ہشام کے قاتل کو پہچانتے ہیں تو اسے اس کے بھائی مقیس کے حوالے کر دیں اور اگر نہیں پہچانتے تو اس کا خون بہا اور دیت ادا کریں وہ چونکہ ہشام کے قاتل کو نہیں پہچانتے تھے لہٰذا انھوں نے مقتول کی دیت ادا کردی اور اس نے بھی قبول کرلی اور قبیس بن ہلال کی معیت میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔
اثنائے راہ میں زمانہٴ جاہلیت کے باقی رہنے والے افکار ے قبیس کے جذبات کو ابھارا اور وہ اپنے آپ سے کہنے لگا کہ دیت قبول کرنا شکست اور ذلت کا باعث ہے لہٰذا اپنے ہم سفر کو جو قبیلہ بنی نجار میں سے اپنے بھائی کے خون کے بدلے قتل کردیا او رمکہ کی طرف بھاگ گیا او راسلام سے بھی کنارہ کش ہو گیا ۔ پیغمبراکرم نے بھی اس خیانت کے بدلے اس کا خون مباح قرار دیا اور اوپر والی آیت اسی مناسبت سے نازل ہوئی جس میں قتل عمد( جان بوجھ کر قتل ) کی سزا بیان ہوئی ہے ۔
 

قتل اشتباہ کے احکام قتل عمد کی سزا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma