خیالی تثلیث

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اے اہل کتاب : اپنے دین میں غلو (اور زیادہ روی ) نہ کروتثلیث کے بارے میں چند اہم نکات

اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں کفار اور اہل کتاب کے بارے میں جاری مباحث کے حوالے سے مسیحی معا شرے کے اہم ترین انحراف کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ ہے تثلیث یا تین خدا ؤ ں کا مسئلہ ۔ مختصر سے استدلالی جملو ں کے ساتھ انھیں اس عظیم انحراف کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے ۔
پہلے انھیں خطرے سے آگاہ کرتے ہو ئے کہتا ہے : اپنے دین میں غلو کی راہ نہ چلو اور حق کے علاوہ خدا کے بارے میں کچھ نہ کہو (یا اھل الکتاب لا تغلو ا فی دینکمہ ولا تقو لو ا علی اللہ الا الحق ) ۔
آسمانی ادیان سے انحراف میں ایک ہم ترین بات یہ ہے کہ لوگوں نے پشیوا ؤ ں اور راہنما ؤ ں کے کے بارے میں غلو سے کام لیا ۔ انسان چو نکہ اپنے آپ سے لگاؤ رکھتا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ اپنے رہبروں کو بھی ان کے اصل مقام سے بلند تر بنا کر پیش کرے تاکہ اس طرح اس کی اپنی عظمت میں اضافہ ہو ۔ بعض اوقات لوگ اس ہولناک بھنو ر میں اس لیے پھنس جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پیشواؤ ں کے بارے میں غلوان سے عشق اور لگاؤ کی نشانی ہے غلو کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ مذہب کی اصلی بنیاد یعنی خدا پر ستی اور تو حید کو خراب کردیتا ہے اسی لیے غالیو ں کے بارے میں اسلام کا روّیہ نہایت شدید اور سخت ہے اور عقائد وفقہ کی کتب میں غالیو ں کو کفار کی بدترین قسم قرار دیا گیا ہے ۔

تثلیث اور الوہیّت ِ مسیح کا ابطال

اس سلسلے میں چند نکات پیش خدمت ہیں :۔
۱۔عیسٰی مریم کے بیٹے ہیں : قرآن حکیم میں عیسٰی کا نام ان کی والدہ کے نام کے ساتھ سولہ مرتبہ آیا ہے (انما المسیح عیسی ابن مریمہ )یعنی عیسی صرف مریم کے بیٹے ہیں یہ بات کی نشاندہی ہے کہ مسیح بھی دیگر انسانوں کیطرح رحم مادر میں رہے اور ان پر بھی جنین کا دور گذرا وہ دیگر انسانوں کی طرح پیدا ہوئے ، دودھ پیا اور آغوش ِ مادر میں پر ورش پائی یعنی تمام بشری صفا ت ان میں موجود تھیں ۔ لہذا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص جو قوانین طبیعت اور عالم مادہ کا متمول ومحکوم ہو اوہ خدائے ازلی و ابدی بن جائے ۔
خصو صاً لفظ ” انما “ جو زیر بحث آیت میں آیا ہے وہ اس وہم کا جواب ہے اگر عیسی کا باپ نہیں تو اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے بلکہ وہ صرف مریم کا بیٹا ہے ۔
۲۔ عیسی خدا کے رسو ل ہیں :عیسی خدا کے فرستادہ اور رسول ہیں (رسول اللہ )عیسی کا یہ مقام اور حیثیت بھی ان کی الوہیت سے مناسبت نہیں رکھتا

یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ حضرت عیسی کی مختلف باتیں جن میں سے کچھ اناجیل موجود ہ میں بھی ہیں ، سب انسانی ہداہت کے لیے ان کی نبوّت و رسالت کی حکایت کرتی ہیں نہ کہ ان کی الوہیّت اور خدائی کی ۔
۳۔ عیسی خداکا کلمہ ہیں :عیسی خدا کا کلمہ ہیں جو مریم کی طرف القا ء ہوا (وکلمة القا ھا الی مریمہ ) قرآن کی چند آیات میں عیسی کو کلمہ کہا گیا ہے یہ تعبیر مسیح کے مخلوق ہونے کی طرف اشارے کے لیے ہے جیسے ہمارے کلمات ، ہماری مخلوق اور ایجاد ہیں ، اسی طرح عالم آفرنیش کے موجودات بھی خدا کی مخلوق ہیں ۔ نیز جیسے ہمارے کلمات ہمارے اندر ونی اسرار کا مظہر ہوتے ہیں اور ہمارے جذبات و صفات کے تر جمان ہوتے ہیں اسی طرح مخلوقا ت ِ عالم بھی خدا کی صفات جمال وجلال کو واضح کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آیات قرآنی میں متعدد مقامات پر تمام مخلوقات کے لیے لفظ ” کلمة “ استعمال کیا گیا ہے (مثلاًکہف ۱۰۹،اور لقمان ۲۹ ) البتہ یہ کلمات آپس میں مختلف ہیں ۔ بعض بہت اہم اور بلند ہیں اور بعض نسبتاً معمولی اور کم تر ہیں ۔ حضرت عیسی آفرنیش کے لحاظ سے خصو صیت کے ساتھ مقام ِ رسالت کے علاوہ یہ امتیاز بھی رکھتے تھے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گیئے ۔
۴۔ عیسی روح ہیں :۔حضرت عیسی روح ہیں ، جنھیں خدا نے پیدا کیا ہے ( ورح منہ) یہ تعبیر قرآن حکیم میں حضرت آدم کے بارے میں بھی آئی ہے ۔ ایک معنی کے لحاظ سے تمام نوع ِ انسانی کے بارے میں ہے یہ اس روح کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جیسے خدا نے دیگر انسانوں میں عموماً اور حضرت مسیح اور باقی انبیا ء میں خصوصیت سے پیدا کیا ۔
بعض لوگوں نے حضرت مسیح کے بارے میں اس تعبیر سے غلط فائدہ اٹھانے کوشش کی ہے انھوں نے کہا ہے کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عیسی خدا کا جز ء ہیں ” منہ “ اس کیلیے دلیل ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پر ” من “ تبعیض کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اصطلا ح کے مطابق یہ ” من “ نشو یہ ہے جو کسی چیز کی پیدائش کا سر چشمہ اور منشاء بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ تواریخ میں ہے کہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب تھا اس نے ایک روز علی بن حسین واقدی سے مناظرہ کیا ، واقدی علماء اسلام میں سے تھا ۔
طبیب نے کہا : تمھاری آسمانی کتاب میں ایک آیت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح خدا کا جز و ہیں پھر اس نے زیر بحث آیت کی تلا وت کی
واقدی نے فوراً قرآن کی یہ آیت تلاوت کی :
وسخر لکم مافی السموات وما فی الارض جمیعاً من
یعنی ۔۔۔جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب تمھارے لیے مسخر کیا گیا ہے اور یہ سب اس کی طرف سے ہے ۔۱
اور مزید کہا :
اگر ” من “ جزو بتانے کے لیے ہے تو پھر اس آیت کے مطابق آسمانوں وزمین کے تمام
مو جودات خدا کاجزو ہیں ۔
یہ بات سن کر عیسائی طبیب فوراً مسلمان ہوگیا ۔ ہارون رشید اس واقعے سے بہت خوش ہوا اور اس نے واقدی کو انعام دیا ۔۲
علاوہ از یں یہ امر تعجب خیز ہے کہ عیسائی حضرت والد کے بغیر حضرت عیسی کی ولادت کو ان کی الو ہیت کی دلیل قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ حضرت آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے اس مخصو ص خلقت کو کو ئی بھی ان کی الوہیت کی دلیل نہیں سمجھتا ۔
اس بیان کے بعد قرآن کہتا ہے : اب جبکہ ایسا ہے تو خدائے یگانہ اور اس کے پیغمبر وں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہوکہ تین خدا ہیں اور اگر اس بات سے اجتناب کرو تو اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے (فامنو ابااللہ ورسلہ ولا تقو لو ا ثلا ثة انتھوا خیراً لکم
دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ خدا ہی معبو د یکتا ہے (انمااللہ الہ واحد )یعنی تم اس بات کو مانتے ہو کہ تثلیث کے ہوتے ہوئے بھی خدا اکیلا اور یگانہ ہے ۔حالانکہ اگر اس کا بیٹا ہوتو وہ اس کا شبیہ ہوگا ، تو پھر یکتائی کاکوئی معنی نہیں رہے گا ۔ کیسے ممکن ہے کہ خدا کاکوئی بیٹا ہو جبکہ وہ بیوی اور بیٹے کی احتیاج کے نقص : اور جسم اور عوارض جسم کے نقص سے مبّرا و منّزہ ہے (سبحانہ ان یکون لہ ولد)
علاوہ از یں وہ ان تمام چیزوں کامالک ہے جو آسمان وزمین میں ہیں اس کی مخلوق ہیں اور وہ ان کا خالق ہے اور مسیح بھی ان کی مخلوق میں سے ایک ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ان کے لیے ایک استشنائی حالت کا قائل ہوا جائے ۔ کیا ممکن ہے کہ مملوک و مخلوق اپنے خالق ومالک کا بیٹا بن جائے

 ( لہ مافی السمٰوٰات ومافی لارض )خدا صرف ان کا خالق ومالک ہے بلکہ ان کا مدبر ،محافظ ، رزّاق اور سر پر ست بھی ہے (وکفیٰ بااللہ وکیلا)اصولی طور پر وہ خدا جو ازلی و ابدی ہے اور ازل تا ابد تمام مخلو قات کی سر پر ستی اپنے ذمّہ لیے ہوئے ہے اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے ،کیا وہ ہماری طرح ہے کہ اپنی موت کے بعد جا نشینی کے لیے بیٹے کی خواہش رکھتا ہو ۔
تثلیث ۔۔۔۔۔عیسائیّت کی سب سے بڑی کجروی عیسائیت جن انحرافات اور کجرویوں کا شکار ہے ان میں سے تثلیث سے بدتر کوئی نہیں ۔ وہ تصریح سے کہتے ہیں کہ خداتین ہیں اور یہ بھی کہ اس کے باوجود وہ ایک اور یکتا ہے یعنی وہ وحدت کو بھی سمجھے ہیں اور تثلیث کوبھی ۔اس بات نے عیسائیت کے محققّین کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کردی ہے اگر خدا کی یکتائی کو مجازی اور تثلیث کو حقیقی سمجھتے تو بھی ایک بات تھی اور اگر توحید کو حقیقی مان لیتے اور تثلیث کو مجازی ، پھر بھی معاملہ آسان تھا لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ دونوں کو حقیقی اور واقعی سمجھتے ہیں ۔
اس آخری دور میں عیسائیوں کی طرف سے بے خبر لوگوں کو بعض تبلیغی تصانیف دی گئی جن میں انھوں نے تثلیث مجازی کا ذکر کیا ہے یہ اصل میں ریاکاری ہے جو مسیحیت کے اصلی منابع وکتب اور ان کے علماء کے حقیقی عقائد سے مطابقت نہیں رکھتی ۔یہ وہ مقام ہے جہاں مسیحی ایک غیر معقو ل مطلب سے دوچار ہیں ۔کیونکہ ۱۔ ۲کو ابجد پڑھنے والا بچہ بھی قبول نہیں کرسکتا ۔ اسی لیے تو وہ عموماً کہتے رہتے ہیں کہ اس مسئلے کا تعلق میزانِ عقل سے نہیں بلکہ جذئبہ عبادت اوردل سے ہے ۔
یہیں سے منطق و عقل سے مذہب کی لاتعلقی کامعاملہ شروع ہوتا اور مسیحیت کو اس خطرناک وادی میں کھنیچ لے جاتا ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ مذہب عقلی پہلونہیں رکھتا بلکہ وہ صرف قلبی و تعبدی پہلو رکھتا ہے یہاں سے علم اور مذہب کی بے گانگی سامنے آتی ہے اور موجودہ مسیحیت کی منطق سے دونوں کا تضاد واضح ہوتا ہے ۔ کیونکہ علم کہتا ہے کہ تین کاعدد ہر گز ایک کے عدد کے مساوی نہیں ہے لیکن موجودہ مسیحیت کہتی ہے کہ مساوی ہے ۔

 


۱جاثیہ ۱۳ (القرآن )
۲ تفسیر المنار جلد ۶ صفحہ ۸۴
3۔صوفیوں کے نظر یہ وحدت الوجود سے مراد وحدت موجود ہے وہ کہتے ہیں کہ ہستی بس ایک ہے جو مختلف چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ ہستی ایک خدا ہے ۔
 
اے اہل کتاب : اپنے دین میں غلو (اور زیادہ روی ) نہ کروتثلیث کے بارے میں چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma