تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ایک اہم سوال کا جواب اعجاز قرآن کی زندہ مثال

اس آیت میں لوگو ں اور ان کے ”حسنات“اور ” سیئات“کے مقا بلہ میں رسول کی حیثیت بیان گئی ہے ۔خدا پہلے فر ماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی ۔
(مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ)
لہٰذا خدا کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت ہے جدا نہیں ہو سکتی کیونکہ پیغمبر کوئی قدم خدا کی مشیت کے خلاف نہیں اٹھاتا اس کی گفتار ، کردار، اعمال سب خدا کے فرمان کے مطابق ہیں ۔
اس کے بعد فرماتا ہے : اگر کچھ لوگ اعراض اور رو گردانی کرتے ہیں اور وہ تمہارے احکام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں تو تم ان کے اعمال کے جواب دہ نہیں ہو اور یہ تمہارا کام نہیں کہ ان سے تکرار کرو یا نافرمانی کر نے سے انھیں جبراً روکو ۔ تمہارا فرض تبلیغ رسالت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور گمراہ وبے خبر لوگوں کی رہنمائی کرنا
( وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیظًا) ۔
غور کرنا چاہئیے کہ لفظ ” حفیظ“ اس لحاظ سے کہ وہ شخص ہے کہ جو ہمیشہ کسی چیز کی نگرانی پر مامور ہو ۔ لہٰذا آیت کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ پیغمبر کی ذمہ داری رہبری کرنا، دعوت حق دینا، فتنہ اور مفاسد کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اگر کچھ لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہو ں تو پیغمبر ان کی کجروی کے لئے جوابدہ نہیں ہیں کہ ہر جگہ موجود ہوں اور ہر گناہ و معصیت کا طاقت اور جبر سے مقابلہ کریں اور مروّج طریقوں سے بھی وہ اس طرح کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس بنا پر احد جیسی جنگ کے حوادث بھی شاید آیت کے پیش نظر ہوں کہ پیغمبر کا فرض تھا کہ فنون ِ حرب کے لحاظ سے زیادہ گہرائی اور غور و خوض سے جنگی حکمتِ عملی تیار کرتا اور دشمن کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتا، اور یہ بات مسلم ہے کہ ان احکام و ضوابط میں پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے پیغمبر کے احکام کی حکم عدولی کی اور اس سبب سے وہ شکست سے دو چار ہو ئے تو اس کی جواب دہی ان سے منسوب ہو گی نہ کہ پیغمبرسے ۔ غور کرنا چاہئیے کہ یہ آیت قرآن کی واضح ترین آیات میں سے ہے جو سنتِ پیغمبر کے حجت ہونے اور آپ کی احادیث کو قبول کرنے کے لئے دلیل ہے ، لہٰذا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو قبول کرتا ہوں لیکن پیغمبر کی حدیث اور سنت کو قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ درج بالا آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ پیغمبر کی حدیث اور سنت کی اطاعت فرمانِ خدا کی اطاعت ہے ۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے حدیث ثقلین کے مطابق جو کہ مشہور مآخذ اور کتب اسلامی میں مذکور ہے چاہے وہ کتب شیعہ ہوں یا کتب اہل سنت، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کو سند اور حجت قرار دیا ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیه السلام) کے فرمان کی اطاعت بھی فرمانِ خدا کی اطاعت سے الگ نہیں ہے اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قرآن کو تو قبول کرتا ہوں لیکن اہل بیت(علیه السلام) کے فرامین کو نہیں مانتا کیونکہ یہ بات درج بالا آیت اور اس کے مشابہ آیات کے برخلاف ہے ۔
اسی لئے بہت سی روایات جو تفسیر بر ہان میں اس آیت کے ضمن میں آئی ہےں میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے درج بالا آیت کے مطابق امر و نہی کا حق اپنے پیغمبر کو دیا ہے اور پیغمبر نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اہل بیت (علیه السلام) کو دیا ہے لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے امر و نہی سے رو گردانی نہ کریں کیونکہ ان کا امر و نہی ہمیشہ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ خود ان کی طرف سے ( تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۹۶)اس کے ساتھ دوسری آیت میں منافقین کے ایک گروہ یا کمزور ایمان والے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ” وہ لوگ جس وقت مسلمانوں کی صفوں میں پیغمبر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یا کسی ضرر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے دوسروں کے ہم آواز ہوتے اور فرمانِ پیغمبر کی اطاعت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم جان و دل سے پیغمبر کی پیروی کرنے کو تیار ہیں (وَیَقُولُونَ طَاعَة)
لیکن جب لوگ بزم رسالت سے نکلتے ہیں تو وہ منافقین اور کمزور ایمان والے افراد اپنے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خفیہ اجتماعات میں پیغمبر کے ارشادات کے خلاف پروگرام بناتے ہیں
( فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ )
اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین پیغمبر کے زمانہ میں نچلے نہیں بیٹھے تھے ، بلکہ وہ رات کو خفیہ اجتماعات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور پیغمبر اکرم کے لائحہ عمل میں رخنہ اندازیاں کرتے تھے ، لیکن خدا اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے منہ پھیر لیں اور ان کی سازشوں سے گھبرائیں نہیں اور اپنے لائحہ عمل کے لئے ان پر انحصار نہ کریں ۔ بلکہ فقط خدا پر بھروسہ رکھیں خدا جو سب سے زیادہ مدد اور حفاظت کرنے والا ہے ۔
( فَاٴَعْرِضْ عَنْہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِیلًا ) ۔

 

۸۲ اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلاَفًا کَثِیرًا ۔
ترجمہ
۸۲۔ کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ اختلافات پاتے ۔
تفسیر

 

ایک اہم سوال کا جواب اعجاز قرآن کی زندہ مثال
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma