قیامِ عدالت کا تاکیدی حکم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 04
خدا سے باندھے گئے پیمانتفسیر

پہلی آیت قیامِ عدالت کی دعوت دیتی ہے۔ ایسی ہی دعوت کچھ فرق کے ساتھ سُورہٴِ نسآء آیة ۱۳۵ میں گذر چکی ہے۔
پہلے تو صاحب ایمان افراد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : اے ایمان والو! ہمیشہ خدا کے لیے قیام کرو اور عادلانہ گواہی دو ( یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ لِلَّہِ شُہَداء َ بِالْقِسْطِ) ۔
اس کے بعد عدالت سے انحراف کے ایک عمومی سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ قومی عداوتیں اور شخصی معاملات کہیں تمہیں اجرائے عدالت سے روک نہ دیں اور کہیں دوسروں کے حقوق پر تجاوز کا سب نہ بن جائیں کیونکہ عدالت ان تمام چیزوں سے بالاتر ہے ( وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلی اٴَلاَّ تَعْدِلُوا) ۔
مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ عدالت ہی کا حکم دیا گیا ہے : عدالت اختیار کرو کہ وہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے (اعْدِلُوا ہُوَ اٴَقْرَبُ لِلتَّقْوی) ۔
عدالت چونکہ تقویٰ و پرہیزگاری کا بہترین رکن ہے لہٰذا تیسری مرتبہ بطور تاکید فرمایا گیاہے: خدا سے ڈرو کیونکہ خدا تمھارے تمام اعمال سے آگاہ ہے(وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبیرٌ بِما تَعْمَلُون) ۔
اس آیت میں اور سُورہٴِ نساء کی آیت ۱۳۵میںچند پہلوؤں میں فرق ہے ، جو یہ ہیں:
۱۔ سورہ نسآء میں عدالت کے قیام اور خدا کے لیے گواہی دینے کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں خدا کے لیے قیام اور حق و عداوت کی گواہی دینے کی دعوت دی گئی ہے یہ فرق شاید اس لے ہو کہ سُورہٴِ نسآء میں ہدف یہ تھا کہ گواہیاں خدا کے لیے دی جائیں نہ کہ اقرباء اعزا اور وابستگان کے لیے، لیکن یہاں چونکہ گفتگو دشمن کے متعلق ہے ۔ لہذا عدل و قسط پر مبنی گواہی کی بات کی گئی ہے یعنی ظلم و ستم پر مبنی گواہی نہ ہو۔
۲۔ سورہٴِ نسآء میں عدالت سے انحراف کا ایک سبب بیان کیا گیاہے اور یہاں دوسرا سبب مذکور ہے دہاں بلا وجہ محبت میں افراد اور یہاں بلا وجہ بغض میں افراط کی طرف اشارہ ہے۔
لیکن سورہٴِ نسآء کی اس بات میں دونوں جمع ہیں کہ فلا تتبعوا الہویٰ ان تعدلوا……یعنی ترک عدالت سے ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو……بلکہ ہوا و ہوس کی پیروی ظلم و ستم کا وسیع منبع ہے کیونکہ ظلم و ستم بعض اوقات ہواپرستی کی وجہ سے اور شخصی مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتاہے نہ کہ دوستی اور دشمنی کی بناپر، لہٰذا عدالت سے انحراف کی اصل بنیاد ہوا و ہوس کی پیروی ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم اور حضرت امیر المؤمنین(علیه السلام) نے فرمایاہے:
اما اتباع الہویٰ فیسد عن الحق
ہوا پرستی تمھیں حق سے باز رکھے گی ۔ ۱
اسلام میں بہت کم مسائل عدالت جیسی اہمیّت کے حامل ہیں کیونکہ مسئلہ عدل، مسئلہ توحید کی طرح اسلام کے تمام اصول و فروع کی بنیاد ہے، جیسے اعتقادی، عملی، انفرادی، اجتماعی، اخلاقی اور حقوق کے بارے میں کوئی بھی مسئلہ حقیقت توحید سے جدا نہیں اس طرح ان میں کوئی بھی روحِ عدل سے خالی نہیں ملے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ تعجّب کا مقام نہیں کہ عدل اصول ِ دین میں سے ہوا ور مسلمانوں کی فکری عمارت کی ایک بنیاد کے طور پر پہچانا جائے۔ اگرچہ عدالت جو کہ اصول دین کا حِصّہ ہے صفات الہیہ میں سے ہے اور خدا شناسی جو کہ اصولِ دین میں سے ایک ہے میں عدالت بھی شامل ہے لیکن اسے ممتاز اور جدا رکھنا بہت معنی خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی مباحث میں عدالت سے بڑھ کر کسی اصل سے کام نہیں لیاگیا ۔ مندرجہ ذیل احادیث اس کی اہمیّت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
۱۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
ایاکم و الظلم فان الظلم عند اللہ ہو الظلمات یوم القیٰمة
ظلم سے بچو کیونکہ ہر عمل روز قیامت اپنی مناسب شکل میں مجسم ہوگااور ظلم ظلمت و تاریکی کی صُورت میں مجسم ہوگا اور تاریکی کا پردہ ظالموں کو گھیرے ہوئے ہوگا ۔2
اور ہم جانتے ہیں کہ ہر خیر و برکت نور میں ہے اور ظلمت ہر عدم اور فقدان کا سرچشمہ ہے۔
۲۔رسول اللہ سے منقول ہے
بالعدل قامت السمٰوٰت و الارض
آسمان اور زمین عدل کی بنیاد پر قائم ہیں۔3
عدالت کے بارے یہ بات واضح ترین ممکن تعبیر ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ نوعِ بشر کی یہ محدود زندگی اس کُرّہ خاکی میں عدالت کے بغیر برپا نہیں ہوسکتی بلکہ تمام جہانِ ہستی اور آسمان و زمین سب کا قیام عدالت کی وجہ سے ، توانائیوں کے اعتدال کے باعث اور ہر چیز کے اپنے مقام و محل پر ہونے کے سبب سے ہے اور اگر یہ لحظہ بھر کے لیے اور سوئی کی نوک کے برابر اس اصول سے منحرف ہوجائیں تو تباہ برباد ہوجائیں ۔ اس سے ملتی جُلتی ایک اور حدیث میں فرمایا گیاہے:
الملک یبقی مع الکفر و لا یبقی مع الظلم
حکومتیں کُفر سے تو ممکن ہے باقی رہ جائیں ، لیکن ظالم ہوں تو انھیں دوام حاصل نہیں ہوسکتا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ظلم ایک ایسی چیز ہے جس کا اثر اس دنیا میں جلدی ظاہر ہوجاتاہے آج کی دنیا میں جنگیں، اضطراب، بے اطمینانی سیاسی افراتفری، نیز اجتماعی، اخلاقی اور اقتصادی بحران اس حقیقت کو اچھے طریقے سے ثابت کررہے ہیں۔
جس چیز کی طرف پوری توجّہ رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلام عدالت کی فقط نصیحت نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر میں زیادہ اہم عدالت کا رائج ہونا ہے ان آیات و روایات کا فقط بر سرِ منبر پڑھنا، کتابوں میں لکھنا یا تقاریر میں سنانا معاشرے میں موجود نا انصافیوں، برائیوں اور خرابیوں کا علاج نہیں بلکہ ان احکام کی عظمت اس دن واضح ہوگی جب یہ مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری ہوجائیں گے۔
اگلی آیت میں خصوصی احکام کی تاکید اور تکمیل کے لیے سنت قرآن کے مطابق کلی قانون اور اصول کی نشاندہی کی گئی ہے ایمان لانے والوں سے خدا بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کرتاہے (وَعَدَ اللَّہُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَ اٴَجْرٌ عَظیم)اور جو اللہ اور اسکی نشانیو نکو جھٹلاتے ہیں وہ اہلِ دوزخ ہیں (وَ الَّذینَ کَفَرُوا وَ کَذَّبُوا بِآیاتِنا اٴُولئِکَ اٴَصْحابُ الْجَحیم)
یہ بات قابل توجہ ہے کہ بخشش اور اجر عظیم کا ذکر اس آیت میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے طور پر آیا ہے اور فرمایاگیاہے:
وعد اللہ یعنی اللہ کا وعدہ ہے لیکن دوزخ کی سزا کا ذکر عمل کے نتیجہ کی صورت میں ہے، فرمایا گیاہے: جن لوگوں کے ایسے اعمال ہوں گے ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا یہ در حقیقت دارِ آخرت کی جزا میں خدا کے فضل و رحمت کی طرف اشارہ ہے جو کسی طرح بھے انسان کے ناچیز اعمال کے برابر نہیں ہے جیسا کہ وہاں کی سزا بھی انتقامی پہلو نہیں رکھتی ۔ بلکہ خود آدمی کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
ضمناً یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ”اٴَصْحابُ الْجَحیم“میں ”اصحاب“ کا معنی ہے یار و انصار جو ہمیشہ ساتھ دینے والے ہوتے ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کے ساتھی ہیں لیکن تنہا یہ آیت دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی دلیل نہیں بن سکتی جیسا کہ تفسیر تبیان ، مجمع البیان اور تفسیر فخر الدین رازی میں آیاہے کیونکہ اس میں قیام ہوسکتاہے دائمی ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ طویل مُدّت کے لیے ہو اور اس کے بعد نہ ہو جیسا کہ حضرت نوح(علیه السلام) کی کشتی میں سوار ہونے والوں کے لیے قرآن میں ”اٴَصْحابُ السفینہ“(کشتی کے ساتھی) کہا گیاہے اور اس میں قیام بھی دائمی نہ تھا ۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ کفار دوزخ میں رہیں گے لیکن زیر نظر آیت میں اس کے بارے میں گفتگو نہیں ہے بلکہ یہ بات دیگر آیات سے معلوم ہوتی ہے۔
الْجَحیم“مادہ ”جحم“(بر وزن ”فہم“) سے ہے اس کا معنی ہے ”شدت سے آگ بھڑک“جہنم کو اسی وجہ سے ”جحیم“ کہا گیا ہے۔ دنیا کی جلانے والی وسیع آگ کو بھی کبھی ”جحیم“ کہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم(علیه السلام) کے واقعہ میں ہے کہ نمرود نے یوں کہا:
فالقوہ فی الجحیم
پس اے بھڑکتی آگ میں ڈال دو (الصٰفٰت۔۹۷)

 

۱۱۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اٴَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ اٴَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ اٴَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّہَ وَ عَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
ترجمہ
۱۱۔ اے ایمان والو! و ہ نعمت یاد رکو جو خدا نے تمھیں جبکہ (دشمن کی) ایک جماعت نے ارادہ کر رکھا تھا کہ تم پر ہاتھ اٹھائے ( اور تمھیں ختم کردے) لیکن خدا نے ان کا ہاتھ تم سے روک دیا، خدا سے ڈرو اور مومنین کو چاہیے کہ وہ صرف خدا پر ہی توکّل (اور بھروسہ) کریں۔

 

 

 

 

 


 
۱ یہ حدیث کتاب سفینة البحار میں مادہ ”ہویٰ“کے ذیل میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے اور نہج البلاغہ کے خطبہ ۴۲ میں حضرت علی(علیه السلام) سے نقل ہوئی ہے۔
عدالت ایک اہم اسلامی حُکم ہے
2 سفینة البحار……مادہ”ظلم“
3-تفسیر صافی سورہ رحمن آیة ۸ کے ذیل میں۔
خدا سے باندھے گئے پیمانتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma