جس روز آنکھیں پتھرا جائیں گی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم / آیه 42- 45 ۱۔ پیغمبر اکرم سے خطاب کیوں ہے ؟

جس روز آنکھیں پتھرا جائیں گی

گزشتہ آیات میں یوم حساب کے بارے میں گفتگو تھی ۔ اسی مناسبت سے زیر نظر آیات میں ظالموں اور ستم گروں کی کیفیت مجسم کی گئی ہے اور ان کے انجام کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جو ہلا دینے والی اور بیدار کرنے والی ہے ۔ ضمناً مسائل معاد کے اس حصہ کے ذکر سے گزشتہ مباحث توحید کی تکمیل بھی ہوتی ہے ۔
پہلے ظالموں اور ستم گروں کو تہدید کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اے پیغمبر ! کہیں یہ گمان نہ کرنا کہ خدا ظالموں اور ستم گروں کے کام سے غافل ہے ۔

(و لا تَحْسَبَنَّ اللَّہَ غافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ) ۔
یہ بات در حقیقت ان لوگوں کا جواب ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اگر اس عالم کا کوئی عادل خدا ہے تو پھر اس نے ظالموں کو کیوں ان کی حالت پر چھوڑ رکھا ہے ۔ کیا وہ ان کی حالت سے غافل ہے یا پھر کیا وہ جانتا تو ہے لیکن انہیں روکنے کی قدرت نہیں رکھتا ؟
اس سوال کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ خدا ہر گز غافل نہیں ہے ۔ اگر وہ انہیں فوراً سزا نہیں دیتا تو اسک کی وجہ یہ ہے کہ یہ جہان میدان عمل ہے اور یہ انسان کی آزمائش و پر ورش کا مقام ہے اور یہ مقصد آزادی عمل کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن آخر کا ان کا یوم حساب آکے رہے گا ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : خدا ان کی سزا اور عذاب ایسے دن پر اٹھا رکھا ہے جس میں خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پتھرا جائیں گی اور ایک نقطہ پر لگی بے حس و حرکت ہو کر رہ جائیں گی ( إِنَّما یُؤَخِّرُھمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فیہِ الْاٴَبْصارُ ) ۔
اس روز کی سزا اور عذاب اس قدر وحشت ناک ہو گا کہ شدت خوف کے باعث یہ ستمگر اپنی گردنیں اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کی پلکیں بھی حرکت نہ کریں گی اور شدت اضطراب سے ان کے دل ویران ہو جائیں گے ( مُھْطِعینَ مُقْنِعی رُؤُسِھِمْ لا یَرْتَدُّ إِلَیْھِمْ طَرْفھُمْ وَ اٴَفْئِدَتُھُمْ ھَواء ) ۔
تشخص ” شخوص “ کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے آنکھوں کا بے حرکت ہوکر ایک ہی نقطہ پر جم کر رہ جانا ۔
”مھطعین “ ” اھطاء “ کے مادہ سے گردن اونچی کرنے کے معنی میں ہے ۔ بعض نے اسے تیز ہونے کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ذلت و عجز کے ساتھ دیکھنے کے معنی میں ہے لیکن آیت کے دیگر حصوں کی طرف توجہ کرنے سے پہلا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
”مقنعی “ ” اقناع “ کے مادہ سے آسمان کی طرف سر بلند کرنے کے معنی میں ہے ۔
” لا یَرْتَدُّ إِلَیْھِمْ طَرْفھُمْ“ کا مفہوم یہ ہے کہ وحشت کے مارے ان کی پلکیں ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتیں گویا مردوں کی آنکھوں کی طرح بے کار ہو چکی ہیں ۔
”وَ اٴَفْئِدَتُھُمْ ھَواء “ان کے دلوں کے ویران ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے وحشت ناک خبر سنائی تو اچانک میرا دل بیٹھ گیا اور ویران ہو گیا ۔ گویا وہ یوں حواس کھو دیں گے کہ انہیں کسی چیز کی ہوش نہ رہے گی یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہو جائیں گے گویا ان میں نہ دل ہے نہ جان ، کوئی چیز انہیں یاد نہیں ۔
یہاں ان کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں :۔
آنکھوں کا خیرہ ہونا ،
گردنوں کا اونچا ہونا ،
سر کا بلند ہونا ،
پلکیں نہ جھپک سکنا اور
سب کچھ بھول جانا ۔
یہ اضطراب و وحشت کے عالم کی انتہائی عمدہ اور بولتی ہوئی تصویر کھینچی گئی ہے ۔ اس روز ظالموں کی یہ حالت ہوگی ۔ وہ ظالم کہ جو غرور تکبر میں ہر چیز کا مذاق اڑاتے اور تمسخر کرتے تھے ۔ اس دن ان کی بے چارگی کا یہ عالم ہوگا کہ پلکیں بھی نہ جھپک سکیں گے ۔ ان ہولناک مناظر سے آنکھیں چرانے کے لئے آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوں گے کیونکہ وہ جدھر بھی دیکھیں گے وحشت ناک مناظر ان کے سامنے ہوں گے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو عقل کل خیال کرتے تھے اور دوسروں کو بے عقل تصور کرتے تھے ۔ اس روز عقل و ہوش گنواں بیٹھےں گے اور دیوانے معلوم ہوں گے بلکہ ان کی آنکھیں مردوں کی آنکھوں کی طرح ویران اور بے حرکت ہوں گی ۔
واقعاً جب قرآن کسی منظر کی تصویر کشی کرتا ہے تو نہایت مختصر عبارت میں کامل ترین تصویر پیش کردیتا ہے ۔ زیر نظر آیت بھی اس کا نمونہ ہے ۔
اس کے بعد اس لئے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ خدائی عذاب کسی خاص گروہ سے مربوط ہے خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ایک عمومی حکم دیتا ہے : تمام لوگوں کو اس دن سے ڈرا جس دن پروردگار کا درد ناک عذاب بد کاروں کا رخ کرے گا ، جس وقت ظالم اپنے اعمال کے وحشت ناک نتائج دیکھیں گے تو پریشان ہوں گے اور ان کی تلافی کے لئے سوچیں گے اور عرض کریں گے : پروردگارا !ہمیں کچھ دیر کی مہلت دے دے ( وَ اٴَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاٴْتیھِمُ الْعَذابُ فَیَقُولُ الَّذینَ ظَلَمُوا رَبَّنا اٴَخِّرْنا إِلی اٴَجَلٍ قَریب) ۔ تا کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ” ہم تیری دعوت قبول کریں اور تیرے رسولوں کی پیروی کریں “ ( نُجِبْ دَعْوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ ) ۔
لیکن فورا ً ان کی بات مسترد کر دی جائے گی اور انہیں ہولناک پیغام دیا جائے گا کہ ایسا ہونا اب محال ہے ، عمل کا دور ختم ہو چکا ہے ” کیا تم ہی نہ تھے جو قسم کھایا کرتے تھے کہ تمہاری طاقت زوال پذیر نہیں ہے “ ( اٴَ وَ لَمْ تَکُونُوا اٴَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ ما لَکُمْ مِنْ زَوالٍ) ۔
تم وہی نہیں جو ان کے گھروں اور محلات میں رہتے تھے جنہوں نے ظلم کیا تھا (وَ سَکَنْتُمْ فی مَساکِنِ الَّذینَ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھُمْ ) ۔ جبکہ تم پر حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ( وَ تَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنا بِھمْ ) ۔ اور ہم نے تم سے گزشتہ امتوں کی ہلا دینے والی مثالیں بیان کیں

( وَ ضَرَبْنا لَکُمُ الْاٴَمْثال ) ۔
لیکن ان عبرت انگیز درسوں میں سے کوئی بھی تم پر اثر انداز نہ ہو اور تم نے اسی طرح اپنے شرمناک اعمال اور طلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا اور اب جبکہ تم الہی کیفر کردار کو پہنچے ہو تو مہلت دئے جانے کا تقاضا کر رہے ہو۔ کیسی مہلت ؟ اب موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔

سوره ابراهیم / آیه 42- 45 ۱۔ پیغمبر اکرم سے خطاب کیوں ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma