میں وہ الطاف الہٰی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکاتکو شش کرو اور مایوس نہ ہو

بھائی مصر سے چل پڑے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بھائی کو وہاں چھوڑ آئے اور پریشان و غم و زدہ کنعان پہنچے ۔ باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس سفر سے واپسی پر باپ نے جب گزشتہ سفر کے بر عکس غم و اندوہ کے آثار ان کے چہروں پر دیکھے تو سمجھ گئے کہ کوئی ناگوار خبر لائیں ہیں خصوصاًجبکہ بنیامین اور سب سے بڑا بھائی ان کے ہمراہ نہ تھا ۔جب بھائیوں نے بغیر کسی کمی بیشی کے ساری آپ بیتی کہہ دی تو یعقوب (علیه السلام) بہت حیران ہوئے اور ان کی طرف رخ کرکے ” کہنے لگے : تمہاری نفسانی خواہشات کا یہ معاملہ تمہارے سامنے اس طرح سے پیش کیا ہے اور اسے اس طرح سے مزین کیا ہے “( قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُمْ اٴَمْراً) ۔
یعنی بالکل وہی جملہ کہا جو انہوں نے حادثہ ٴ یوسف (علیه السلام) کے بعد کہا تھا جب کہ انہوں نے وہ جھوٹا واقعہ بیان کیا تھا ۔
یہا ں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت یعقوب (علیه السلام) نے ان کے سابقہ کردار ہی کے باعث ان کے بارے میں سوء ظن کیا اور یقین کرلیا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں کوئی سازش ہے حالانکہ ایسا کرنا نہ صرف یعقوب (علیه السلام) جیسے پیغمبر سے بعید معلوم ہوتا ہے بلکہ عام لوگوں سے بھی بعید ہے کہ کسی کو صرف اس کے کسی سابقہ برے کردار کی وجہ سے یقینی طور پر متہم کریں جبکہ دوسری طرف گواہ بھی ہوں اور تحقیق کا راستہ بھی بند نہ ہو۔
یا پھر ۔ کیا اس جملہ کا مقصد ایک اور نکتہ بیان کرنا ہے جس کے یہ پہلو ہیں :
۱۔ تم فقط بادشاہ کا پیمانہ بھائی کے بارے میں دیکھ کر کیوں مان گئے کہ اس نے چوری کی ہے جب کہ تنہا یہ بات من طقی دلیل نہیں بن سکتی ۔
۲۔ تم نے عزیز مصر سے کیوں کہا کہ طور کی یہ سزا ہے کہ اسے غلام بنالو حالانکہ یہ کوئی خدائی قانون نہیں بلکہ کنعان کے لوگوں کی ایک غلط رسم ہے

 ( یہ بات اس صورت میں درست ہے جب بعض مفسرین کے قول کے خلاف اس قانون کو شریعت ِ یعقوب کاحصہ نہ سمجھا جائے ) ۔
۳۔ اس واقعہ کے بعد تم فوراً کیوں چل پڑے اور برے بھائی کی طرح قیام کیوں نہیں کیا جبکہ تم میرے ساتھ پکا خدائی وعدہ کرچکے تھے ۔ ۱
اس کے بعد یعقوب (علیه السلام) اپنی جانب متوجہ ہوئے اور ” کہنے لگے کہ میں صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا اور اچھا صبر کروں گا کہ جو کفران نعمت سے خالی ہو (فَصَبْرٌ جَمِیلٌ ) ۔
مجھے امید ہے کہ خدا ان سب جو ( یوسف (علیه السلام) ، بنیامین اور میرے بڑے بیٹے کو )میری طرف پلٹا دے گا (عَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَنِی بِھِمْ جَمِیعًا ) ۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ” وہ ان سب کے دل کو داخلی کیفیات سے باخبر ہے ، علاوہ ازین وہ حکیم بھی ہے اور وہ کوئی کام بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں کرتا“ (إِنَّہ ھُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ) ۔
اس وقت یعقوب (علیه السلام) رنج و غم میں ڈوب گئے ۔ بنیامین کہ جو ان کے دل کی ڈھارس تھا واپس نہ آیا تو انہیں پیارے یوسف (علیه السلام) کی یاد آگئی ۔ انہیں خیال آیاکہ اے کاش آج وہ آبرومند ، باایمان ، باہوش اور حسین و جمیل بیٹا ان کی آغوش میں ہوتا اور اس کی پیاری خوشبو ہرلمحہ باپ کو ایک حیاتِ نو بخشی لیکن آج نہ صرف یہ کہ اس کا نام و نشان نہیں بلکہ ا س کا جانشین بنیامین بھی اس کے طرح ایک درد ناک معالے میں گرفتار ہو گیا ہے ۔ ” اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے رخ پھیر لیا اور کہا:ہائے یوسف (علیه السلام) (وَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَااٴَسَفَی عَلَی یُوسُف)بھائی کہ پہلے جو بنیامین کے ماجرے پر باپ کے سامنے شرمندہ تھے یوسف کانام سن کر فکر میں ڈوب گئے ۔ ان کے ماتھے پر عرق ِ ندامت کے قطرے چمکنے لگے ۔
حزن و ملال اتنا بڑھا کہ یعقوب (علیه السلام) کی آنکھوں سے بے اختیار اشکوں کا سیلاب بہہ کریہاں تک کہ ” اس کی آنکھیں دردو غم سے سفید اور نابینا ہو گئیں (وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ) ۔
لیکن اس کے باوجود کوشش کرتے تھے کہ ضبط کریں اور اپنا غم و غصہ پی جائیں اور رضائے حق کے خلاف کوئی بات نہ کہیں ” وہ باحوصلہ اور جواں مرد تھے اور انہیں اپنے غصے پر پورا کنٹرول تھا “ ( فَھُوَ کَظِیمٌ) ۔
ظاہر آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) اس وقت تک نابینا نہیں ہوئے تھے لیکن اب جب کہ رنج و غم کئی گنابڑھ گیا اور آپ مسلسل گریہ و زاری کرتے رہے اور آپ کے آنسو تھمنے نہ پاتے تھے تو آپ کی بینائی ختم ہوگئی اور جیسا کہ ہم پہلے بھی اشار ہ کرچکے ہیں کہ یہ کوئی اختیاری چیز نہ تھی کہ جو صبر و جمیل کے منافی ہو۔ 2
بھائی کہ جو ان تمام واقعات سے بہت پریشان تھے ، ایک طرف تو ان کا ضمیر حضرت یوسف (علیه السلام) کے واقعے کی بناء پر انہیں عذاب دیتا اور دوسری طرف وہ بنیامین کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک نئے امتحان کی چوکھٹ پر پاتے اور تیسری طرف باپ کا اتنا غم اور دکھ ان پر بہت گراں تھا لہٰذا انہوں نے پریشانی اور بے حوصلگی کے ساتھ باپ سے ”کہا:بخدا تو اتنا یوسف یوسف کرتا ہے کہ بیمار ہو جائے گا اور موت کے کنارے پہنچ جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا (قَالُوا تَاللهِ تَفْتَاٴُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا اٴَوْ تَکُونَ مِنْ الْھَالِکِینَ) ۔3
لیکن کنعان کے اس مرد بزرگ اور روشن ضمیر پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا:
میں تمہارے سامنے اپنی شکایت پیش نہیں کی جو اس طرح کی باتیں کرتے وہ میں اپنادرد و غم بار گاہ الہٰی میں پیش کرتا ہوں اور ا س کے ہاں اپنی شکایت پیش کرتا ہوں “ ( قَالَ إِنَّمَا اٴَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللهِ) ۔4
اور اپنے خدا کی طرف سے مجھے ایسے الطاف و عنایات حاصل ہیں او رایسی چیزیں مجھے معلوم ہیں کہ جن سے تم بے خبر ہو( وَاٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

 

۸۷۔ یَابَنِیَّ اذْھَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَاٴَخِیہِ وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ ۔
۸۸۔ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْہِ قَالُوا یَااٴَیّھَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَاٴَھْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَاٴَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اللهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ ۔
۸۹۔ قَالَ ھَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَاٴَخِیہِ إِذْ اٴَنْتُمْ جَاھِلُونَ۔
۹۰۔ قَالُوا اٴَئِنَّکَ لَاٴَنْتَ یُوسُفُ قَالَ اٴَنَا یُوسُفُ وَھذَا اٴَخِی قَدْ مَنَّ اللهُ عَلَیْنَا إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ۔
۹۱۔ قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ آثَرَکَ اللهُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ ۔
۹۲۔ قَالَ لاَتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللهُ لَکُمْ وَھُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ۔
۹۳۔ اذْھَبُوا بِقَمِیصِی ھَذَا فَاٴَلْقُوہُ عَلَی وَجْہِ اٴَبِی یَاٴْتِ بَصِیرًا وَاٴْتُونِی بِاٴَھْلِکُمْ اٴَجْمَعِینَ۔

ترجمہ

۸۷۔ اے میرے بیٹو! جاوٴ اور یوسف (علیه السلام) اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے کافر کے سوا کوئی مایوس نہیں ہوتا ۔
۸۸۔ جب وہ اس ( یوسف ) کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا : اے عزیز ! ہم اور ہمارا خاندان پریشانی میں گھر گیا ہے اور ہم ( اناج خریدنے کے لئے ) تھوڑی سی پونجی اپنے ساتھ لائے ہیں ۔ ہمارا پیمانہ پوری طرح بھر دے اور ہم پر صدقہ کردے کیونکہ خدا صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے ۔
۸۹۔ اس نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف (علیه السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا جب کہ تم جاہل تھے ۔
۹۰۔ انہوں نے کہا: کیاتو وہی یوسف (علیه السلام) ہے ۔ اس نے کہا : ( ہاں ) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے خدانے ہم پر احسان کیا ہے ۔ جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صبر و استقامت دکھائے ( آخر کا روہ کامیاب ہوتا ہے )کیونکہ خد انیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔
۹۱۔ انہوں نے کہا :خدا کی قسم ! تجھے ہم پر مقدم رکھا اور ہم خطا کار تھے ۔
۹۲۔ اس نے کہا: آج تم پر کوئی ملامت و سر زنش نہیں ہے ، خد اتمہیں بخشنے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔
۹۳۔ یہ میری قمیص لے جاوٴ او رمیرے باپ کے چہرے پر ڈال دو تو وہ بینا ہو جائے گا اور تمام گھر والوں کو میرے پاس لے آوٴ ۔

 


۱۔ یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعہ یوسف (علیه السلام) کی طرف اشارہ ہے ، بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ یوسف کو ماں باپ سے جدا کرنے کا معاملہ مندرجہ بالا آیات میں بالکل نہیں آیاہے ۔
2۔ مزید وضاحت کے لئے اس سورہ کی آیہ ۱۸ کی تفسیر ملاحظہ کیجئے ۔
۳۔”بث“ کا معنی ہے پراکندگی اور ایسی چیز جسے چھپا یا نہ جاسکے او ریہاں واضح غم و اندوہ اور دل کی نمایاں پراکندگی کے معنی میں ہے ۔
 

 

4۔ ”حرض“ (بروزن ِ ”مرض “)فاسد اور پریشان کرنے والی چیز کے معنی میں ہے ۔ یہاں اس کا معنی ہے بیمار، نحیف ، لاغر اور قریب المرگ۔

 

 

چند اہم نکاتکو شش کرو اور مایوس نہ ہو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma