منحرف جابروں کا طرز عمل اور ان کا انجام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم / آیه 13- 17 ۱۔ مقام ِ پروردگار سے کیا مراد ہے ؟

منحرف جابروں کا طرز عمل اور ان کا انجام

بے منطق افراد کا طریقہ ہے کہ جب وہ اپنی بات اور عقیدے میں کمزوری پر آگاہ ہوتے ہیں تو پھر دلیل کا راستہ چھوڑکر طاقت اور ظلم کا سہارالیتے ہیں ۔ اس جگہ پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہت دھرم اور بہانہ ساز کافر قوموں نے جب انبیاء کی متین ورسا منطق کہ جو گزشتہ آیات میں گزر چکی ہے ،سنی تو انہوں نے اپنے انبیاء سے کہا : ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تمہیں اپنی سر زمین سے نکال دیں گے مگر یہ کہ ہمارے دین ( بت پرستی ) کی طرف پلٹ آو

ٴ(وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اٴَرْضِنَا اٴَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا) ۔
یہ جاہل مغرور گویا ساری زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور اپنے انبیاء کو ایک شہری کے حقوق ملنے کے بھی قائل نہیں تھے ۔ اسی لئے کہتے تھے ”ارضنا“ (ہماری زمین )حالانکہ خدا نے زمین اور اس کی تمام نعمتیں صالح اور نیک لوگوں کے لئے پیدا کی ہیں اور یہ خود سر، جابر اور متکبر در حقیقت اس میں کوئی حق نہیں رکھتے چہ جائیکہ سب کچھ اپناسمجھیں ۔
ہوسکتا ہے ”لتعودنّ فی ملتنا“ ( ہمارے دین کی طرف لوٹ آوٴ) سے غلط فہمی پید اہو کہ انبیاء قبل ِ رسالت بت پرستی کے مذہب پر تھے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ قطع نظر اس کے کہ وہ معصوم تھے اور قبل رسالت بھی تھے ان کی عقل ودرایت اس سے کہیں زیادہ تھی وہ ایسا احمقانہ کام کرتے پتھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کرتے ۔
ہو سکتا ہے یہ اس بنا ء پر ہو کہ اعلان ِ نبوت سے قبل انبیاء پر تبلیغ کی ذمہ داری نہ تھی شاید ان کی خاموشی کے سبب یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ وہ مشرکین کے ہم عقیدہ تھے ۔
اس سے قطع نظر اگر چہ خطاب خود انبیاء کو ہے لیکن در حقیقت ان کے پیرو کاروں پر بھی محیط ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ان کے پیرو کار پہلے مشرکین کے مذہب پر تھے اور مشرکین کی نظر صرف انہی پر ہے ۔ نیز اصطلاح کے مطابق ” لتعودنّ“عمومی تعبیر ہے او ر باب ِ تغلیب میں سے ہے ( یعنی حکم اکثریت کو عمومیت پر محمول کرنا ) ۔ ۱
بعض دوسری قرآنی آیات کی طرف رجوع کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ ”عود“ جب“ ”فی “کے ساتھ ہو تو بھی بازگشت کا معنی دیتاہے ( غور کیجئے گا )
قرآن مزید کہتا ہے کہ خدا وند عالم ایسے مواقع پر پیغمبروں کی دلجوئی کرتا اور انہیں اطمینان دلاتا” اور ان کی طرف وحی کرتا کہ میں یقینا ظالموں کو ہلاک کروں گا “ ( فَاٴَوْحَی إِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظَّالِمِینَ) ۔
لہٰذا ان دھمکیوں سے ہر گز نہ ڈرو اور تمہارے آہنی ارادے کی راہ میں ذرہ بر سستی بھی حائل نہیں ہونا چاہیئے ۔
ظالم منکرین چونکہ انبیاء کو اپنے علاقے سے جلا وطن کردینے کی دھمکی دیتے تھے تو خدا تعالیٰ ا س کے مقابلے میں ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ” ہم تمہیں اس علاقے میں ان کی نابودی اور تباہی کے بعد سکونت بخشیں گے “( وَلَنُسْکِنَنَّکُمْ الْاٴَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ ) ۔
لیکن یہ توفیق و کامیابی سب کو نصیب نہیں ہوتی ” یہ ان کے لئے ہے جومیرے مقام سے ڈریں اور احساس ِ ذمہ داری کریں اور اسی طرح انحراف ، ظلم اور گناہ پر ہونے والی تہدید ِعذاب سے ڈریں اور اسے سنجید گی سے لیں “(ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ) ۔
لہٰذا عنایت اور نعمت اور لطف وکرم نہ حساب کتاب کے بغیر ہے اور نہ بلاوجہ بلکہ ایسے افراد کے ساتھ مخصوص ہے کہ جو احساس ِ ذمہ داری کے ساتھ پر وردگار کے مقام ِ عدل کے مقابلے میں نہ ظلم و ستم کرتے ہیں او رنہ دعوت ِ حق کے جواب میں دشمنی کرتے ہیں ۔
اور ایسے موقع پر کہ جب انتہاہو گئی تھی اور وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی ذمہ داری انجام دے چکے تھے، جنہیں ایمان لانا تھا لا چکے تھے اور باقی اپنے کفر پر ڈٹے ہوئے تھے اور مسلسل انبیاء و رسل کو دھمکیاں دے رہے تھے ”تو انہوں نے خدا سے فتح و کامرانی کا تقاضا کیا “ ( وَاسْتَفْتَحُوا ) ۔توخدا نے بھی ان سچے مجاہدوں کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اس طرح سے کہ ”منحرف جابر نا امید ، زیاں کار اور نابود ہو گئے “(وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ) ۔
خاب ” خیبة“ (بر وزن”غیبة“) کے مادہ سے مطلوب ہاتھ سے نکل جانے کے معنی میں ہے کہ جو تقریبا ناامیدی کامفہوم دیتا ہے ۔
”جبار“ یہاں متکبر اور سر کش کے معنی میں ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اسے کوئی حکم دیا ۔ اس نے نافرمانی کی اور فرمان ِ پیغمبر پر عمل نہیں کیا تو آپ نے فرمایا :
دعوھا فانھا جبارة
اسے چھوڑ و یہ سر کش عورت ہے ۔ 2
لیکن لفظ ”جبار“ کبھی کبھی خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جس کا ایک اور معنی ہے اور وہ ہے ”محتاج ِ اصلاح موجود کی اصلاح کرنے والا “ یا” وہ کہ جو ہر چیز پر مسلط ہے “۔ 3
لفظ ”عنید “در اصل ”عند“ (بر وزن ”رند“) سے سمت کے معنی میں ہے ۔ یہاں انحراف اور راہ ِ حق کے علاوہ کی طرف جھکاوٴ کے معنی میں ہے ۔ اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
کل جبار عنید من ابی ان یقول لاالہ الااللہ
جبار ِ عنید وہے کہ جولاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کرے ۔ ( نور الثقلین جلد ص۵۳۲) ۔
ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے :
العنید المعرض عن الحق
عنید وہ ہے جو حق سے ر وگردانی کرے ۔ (نور الثقلین جلد ص۵۳۲) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ ”جبار “ صفت ِ انسانی یعنی روح ِ سر کشی کی طرف اشارہ ہے اور ”عنید “ افعال ِ انسانی میں اس صفت کے اثر کی طرف اشارہ ہے کہ جو اسے حق سے منحرف کردیتا ہے ۔
اس کے بعد دوسرے جہان میں ان جبارانِ عنید کے نتیجہ ٴ عمل پر انہیں ملنے والی سزاوٴں کے بارے میں دو آیات میں پانچ چیزوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :
۱)اس ناامید ی اور خسران کے پیچھے یا ایسے شخص کے پیچھے جہنم اور جلانے والی آگ ہوگی ( مِنْ وَرَائِہِ جَھَنَّمُ ) ۔
لفظ ”وراء “ اگر چہ پس پشت کے معنی میں ( لفظ ”امام “کے مقابلے میں ) ہے لیکن ایسے مواقع پر نتیجہ اور انجام کار کے معنی میں ہے جیسا کہ فارسی میں بھی اس معنی میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اگر فلاں غذا کھاوٴ تو اس کے پیچھے بیماری ہے یااگر فلاں شخص سے دوستی کر و تو اس کے پیچھے بدبختی اور پشیمانی ہے یعنی اس کا نتیجہ اور معلول اسی طرح ہے ۔
۲)اس جلانے والی آ گ میں جب وہ پیا سا ہو گا تو ہم اسے آب ِ ”صدید “ پلائیں گے (وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ) ۔
جیسا کہ علماء لغت نے کہا ہے کہ ”صدید “ ایک طر ح کی میل کچیل کو کہتے ہیں کہ جو چمڑے اور گوشت کے درمیان جمع ہوجاتی ہے ۔
یہ اس طرف اشار ہ ہے کہ میل اور خون کی طرح بد بو دار متعفن اور بد رنگ پانی اسے پلا یا جائے گا ۔
۳) یہ گنہگا ر، مجرم اور جبار ِ عنید جب دیکھے گا کہ اسے پینے کے لئے ایسا پانی ملا ہے تو بڑی تکلیف کرکے مشکل سے اسے گھونٹ گھونٹ پئے گا اگر چہ ہر گز اسے پینا نہیں چاہے گا ”بلکہ ہم ا س کے حلق میں یہ پانی ڈالیں گے “( یَتَجَرَّعُہُ وَلاَیَکَادُ یُسِیغُہُ ) ۔4
۴)اسے اس قدر عذاب ، تکلیف اور ناراحتی کا سامنا ہو گا کہ ” ہر طرف سے موت اس کی طرف آئے گی لیکن اس کے باوجود وہ مرے گا نہیں “ تاکہ اپنے اعمال کا انجام بھگتے گا (وَیَاٴْتِیہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ) ۔اگر چہ ظاہراً یو ں لگتا ہے کہ جو کچھ عذاب بیان کیا گیا ہے اس سے بڑھ کر نہیں ہو گا لیکن قرآن مزید کہتا ہے : اس کے پیچھے عذاب ِ شدید ہے (وَمِنْ وَرَائِہِ عَذَابٌ غَلِیظٌ ) ۔
اس طرح جس قدر شدید عذاب اور بر اانجام فکر انسانی میں آسکتا ہے حتیٰ کہ جو کچھ نہیں آسکتا وہ ان خود غرض ظالموں اور بے ایمان و گنہگاروں جابروں کے انتظار میں ہے ۔ ان کا بستر آگ ہے ، ان کے پینے کے لئے متعفن اور نفرت آورپانی ہے اور ان کے لئے طرح طرح کا عذاب ہے اور اس کے باوجود وہ مریں گے نہیں بلکہ زندہ رہیں گے اور اس کا مزہ چکھیں گے ۔
یہ ہر گز تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ اس قسم کی سزائیں غیر عادلانہ ہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال کا نتیجہ اور طبیعی اثر ہے بلکہ ان کے کام اس طرح دوسرے گھر میں مجسم ہوتے ہیں کہ جہاں عمل اپنی مناسب شکل میں مجسم ہو گا ۔
اگر ہم اپنے زمانے کے بعض ظالموں کے اعمال اور جرائم پر نظر کریں کہ جن کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا ایسے گزشتہ لوگوں کی تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ کریں تو بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ یہ سزا ئیں بھی ان کے لئے بہت کم ہیں ۔
4۔ اسی تباہ کن جنگ ہی کو لیجئے کہ جس کا سامنا ہمیں اس وقت یہ بحث کرتے ہوئے ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کا ماحصل ایک ستم گر حکمران کی خود خواہی یا زیادہ صحیح الفاظ مین ایک پاگل جبار ِ عنید کی خود سری کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کے لئے کسی عاقلانہ مقصد کا تصور نہیں ہوسکتا ۔ اس میں کیسے کیسے مظالم کئے گئے ہیں کہ جن کے ذکر سے زبان و قلم عاجز ہیں ۔ ہم نے خود ملک کے مغربی اسپتالوں میں مجر وحین ِ جنگ کو دیکھا ہے ۔ معصوم بچوں سے لے کر بوڑھوں اور عورتوں تک زخی حالت میں دیکھا ہے ان میں سے بہت سے اپنی آنکھیں اور ہاتھ پاوٴں کھو بیٹھتے ہیں اور واقعاً ان کی ایسی حالت ہے کہ ان پر ایک نظر کی جائے تو انسان ہل کر رہ جائے ۔ تو غور کیجئے کہ جس وقت ایک ظالم او ر ستم گر لاکھوں انسانوں کو مصائب میں اس طرح تڑپائے تو ا س کے لئے کیسی سزا او ر عذاب ہونا چاہئیے ۔

 

 


۱۔اس غلط فہمی کو کا ایک اور جواب بھی دیاگیا ہے او روہ یہ کہ ”عود“ کا مادہ اگر ” الیٰ “ کے ساتھ متعدی ہو تو باز گشت اور لوٹنے کے معنی میں ہے اور اگر ”فی “ کے ساتھ متعدی ہوتو حالت کی تبدیلی کے معنی میں ہے اور باز گشت کا معنی نہیں دیتا ۔ لہٰذا ”لتعودن فی ملتنا “ کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو بدل دو اور اپنا دین چھوڑ کر ہمارے دین کو قبول کرلو۔ لیکن دیگر آیات مثلاًکلما ارادو ا ان یخرجوا منھا اعید وا فیھا (سجدہ :۲۰)
2۔تفسیر فخر رازی ،مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔
3۔مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۲۵۹( اردو ترجمہ کی طرف رجوع کریں ۔
4-”یسیغہ“ ”اساغة“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے ” پینے کی چیز حلق میں ڈالنا “۔
سوره ابراهیم / آیه 13- 17 ۱۔ مقام ِ پروردگار سے کیا مراد ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma