چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 10
بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے میں وہ الطاف الہٰی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

 

 

۱۔ سب سے بڑا بھائی کون تھا ؟ بعض نے سب سے بڑے بھائی کا نام ” روبین “ ( روبیل ) لکھا ہے ۔ بعض نے ” شمعون “ کو سب سے بڑا بھائی سمجھا ہے ۔ بعض نے اس کانام ” یہودا“ بیان کیا ہے ۔
نیز اس لحاظ سے بھی مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہاں بڑا ہونے سے مراد عمر میں بڑا ہے یا عقل و فہم کے لحاظ سے بڑا ہے ۔ البتہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ یہاں سن و سال میں بڑا ہونا مراد ہے ۔
۲۔ موجود قرائن کی بنیاد پر فیصلہ : اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اقرار اور گواہ نہ ہوں تو قاضی قطعی قرائن پر عمل کرسکتا ہے کیونکہ برادران ِ یوسف (علیه السلام) کے اس واقعے میں نہ گواہ تھے اور نہ اقرار۔ صرف بنیامین کے بارے میں بادشاہ کے پیمانے کا کامل جانا اس کے مجرم ہونے کی دلیل شمار کیا گیا ۔
نیز ان میں سے ہر ایک ذاتی طور پر اپنے بار کو پرکرتا تھا یا کم از کم پرکرتے وقت وہاں حاضر ہوتا تھا اور اگر تالالگانا ہوتا یا بند کرنا ہوتا تو چابی وغیرہ بھی خود اسی کے قبضے میں ہوتی۔ دوسری طرف کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ کار فرماہے ۔ مزید یہ کہ کنعان کے مسافروں ( برادران یوسف )کا اس شہر میں کوئی دشمن بھی نہ تھا کہ جو ان کے خلاف کوئی سازش کرتا ۔
ان تمام پہلووٴں کو پیش، نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ بنیامین کے بارے میں جو بادشاہ کا پیمانہ برآمد ہوا ہے یہ خوداس کا ذاتی کام ہے ۔
دور حاضر میں ایسی ہی بنیادوں پر فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں فقہ ِ اسلامی میں مزید جستجو اور تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ یہ امر موجودہ زمانے میں عدالتی بحثوں میں بہت موٴثر ہے ۔ کتاب القضاء میں اس سلسلے میں بحث کی جانا چاہئیے ۔
۳۔ برادران یوسف (علیه السلام) میں فرق : مندرجہ بالاآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ برادران یوسف (علیه السلام) میں عزم و ہمت کے لحاظ سے بہت فرق تھا ۔ سب سے بڑا بھائی اپنے وعدہ کا بہت سختی سے پابندتھا جب کہ دوسرے بھائیوں نے جب دیکھا کہ عزیز مصر سے ان کی گفتگو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تو انہوں نے بس اسی پر اپنے آپ کو معذور سمجھا اور مزید کوشش نہ کی البتہ حق بڑے بھائی کے ساتھ تھا کیونکہ وہ مصر ہی میں ٹھہر گیا تھا خصوصاً عزیز مصر کے دربار کے نزدیک اس نے پڑاوٴ ڈال لیا ۔ اس سے یہ توقع ہو سکتی تھی کہ وہ لطف و مہر بانی کرے اور ایک پیمانے کی وجہ سے جو آخر کار مل گیا تھا اور ایک مسافر اس سے داغ دار بھی ہو گیا تھا ، اب اس کے بدلے بھائیوں اور اس کے بوڑھے باپ کو سزا نہ دے ۔ اسی احتمال کی بناء پر وہ مصر میں ٹھہر گیا اور بھائیوں کو باپ کاحکم معلوم کرنے کے لئے باپ کی خدمت میں روانہ کردیا تاکہ وہ جاکرسارا واقعہ بیان کریں ۔

 


۸۳۔ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُمْ اٴَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَاٴْتِیَنِی بِھِمْ جَمِیعًا إِنَّہ ھُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ۔
۸۴۔ وَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَااٴَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیمٌ۔
۸۵۔ قَالُوا تَاللهِ تَفْتَاٴُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا اٴَوْ تَکُونَ مِنْ الْھَالِکِینَ۔
۸۶۔ قَالَ إِنَّمَا اٴَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللهِ وَاٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ۔

ترجمہ

۸۳۔(یعقوب (علیه السلام) ) نے کہا: نفس ( اور ہوا و ہوس ) نے معاملہ تمہاری نگاہ میں اس طرح سے مزین کردیا ہے ۔ میں صر کروں گا ، صبر جمیل ( کہ جس میں کفران نہ ہو )، مجھے امید ہے کہ خدا ان سب کو میری طرف پلٹادے گا کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے ۔
۸۴۔ اور ان سے منہ پھیر لیا اور کہا : ہائے یوسف (علیه السلام) ۔ اور اس کی آنکھیں غم اندوہ سے سفید ہوگئیں لیکن وہ اپنا غصہ پی جاتا ( اورہر گز ناشکری نہ کرتا ) ۔
۸۵۔ انہوں نے کہا : بخدا ! تو یوسف (علیه السلام) کو اس قدر یاد کرتا ہے کہ تو موت کے قریب جاپہنچے گا یا ہلاک ہو جائے گا ۔
۸۶۔ اس نے کہا: میں اپنا درد و غم صرف خدا سے کہتا ہوں ( اور ا س کے ہاں شکایت کرتا ہوں ) اور میں خدا کی طرف سے ایسی چیزین جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔

 

بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے میں وہ الطاف الہٰی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma